انجان نوجوان نسل


ارسلان بہت تیزی سے تیار ہو کر باہر جا رہا تھا بہت ہی اسٹائلش کپڑے پہنے ہوئے تھے، ہاتھ میں بائیک کی کی چین گھماتا ہوا انتہائی مگن دکھائی دے رہا تھا۔

” کہاں جا رہے ہو تم؟“ ۔
اس کے دادا کی آواز آئی۔
” آپ کو معلوم تو ہے آج کیا ہے وہیں جا رہا ہوں“ ۔
ارسلان نے جواب دیا۔
” ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے“ ۔
انہوں نے حیرانی سے دیکھا۔
” کیا ہوا ہے مجھے؟“ ۔
ارسلان نے اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ جواب میں کچھ بھی نا کہہ سکے۔

بس دیکھ کر رہ گئے، ہاتھوں میں موٹی موٹی انگوٹھیاں، گلے میں جھولتی ہوئی صلیب والی چین، آدھے بال کٹے ہوئے تو آدھا سر گنجا، وہ تو کہیں سے بھی اس جگہ جانے کے لائق نہیں لگ رہا تھا جہاں کی وہ بات کر رہا تھا وہ ایک آہ بھر کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

ارسلان نے اپنے اپ کو آئینے میں دیکھا اور مسکراتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا جہاں اس کی بائیک کھڑی تھی۔

دوسری طرف شہلا اپنی دوستوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی باہر جانے کا پروگرام بنا رہی تھی، تیار تو وہ بھی تھی بس فرق یہ تھا باہر جاتے ہوئے اسے دوپٹہ لپیٹنا تھا ورنہ تو شاید کوئی گھر سے بھی باہر نکلنے نا دیتا اور آج کی رات تو اسے ہر حال میں جانا تھا۔

یہ نوجوان نسل چلتی جا رہی تھی اور اندھیری رات مزید اندھیری ہو رہی تھی، کہنے کو ہر طرف چراغاں تھا لوگوں کا ہجوم اکٹھا تھا ہر طرف نغمے گونج رہے تھے اور جگمگاہٹ بارہ بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے، اسٹیج سج چکا تھا جس پر سنگرز اپنے ساز و سامان کے ساتھ موجود تھے اور جیسے ہی گھڑی کی سوئیاں بارہ پے ایک ساتھ نمودار ہوئیں تو پاکستان کا قومی نغمہ گونج اٹھا جس کو سننے والے اس کے مطلب سے بھی واقف نا تھے، پاکستان کی 75 ؤیں سالگرہ تھی جشن آزادی اپنے عروج پر تھا اور شریک ہونے والے 18 سے 20 سال کے تھے جو صرف یہ جانتے تھے کہ آج کی رات پاکستان وجود میں آیا تھا کس طرح آیا تھا اس سے انہیں کوئی غرض نا تھی، انہیں تو بس جشن منانا تھا اور ٹائم کے گزرنے کا احساس شہلا کو نا ہوا اور جب ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی وہ لڑکوں کے گھیرے میں آ چکی تھی اس کے کپڑے نوچے جا چکے تھے، کنسرٹ ختم ہو گیا تھا وہ زمین پر گری ہوئی تھی اور اسے ڈھکنے والا کوئی نا تھا۔

دوسری جانب ارسلان اپنے دوستوں کے ساتھ ہائی وے پر ون ویلنگ کر رہا تھا جو جشن آزادی کا ایک اہم حصہ تھا اس میں جو جیت جاتا اسے 125 بائیک مل جاتی جس کو چلانا اس کی ہمیشہ سے خواہش رہی تھی۔

یہاں بھی نوجوانوں کے جوش نے ٹھیک بارہ بجے ریس اسٹارٹ کی اور لمحوں میں ارسلان کی بائیک کھمبے سے ٹکرائی وہ دور جا کے گرا اس کو بھی اٹھانے والا کوئی نا تھا ریس لگانے والے آگے نکل چکے تھے۔

پاکستان کا جشن آزادی من رہا تھا نوجوانوں کی جان لے کر لڑکیوں کی عزتیں لے کر ماؤں کو سلا کر ان پالنے والے باپوں کو رشوت کے پیسے جمع کرنے کے ساتھ جن کو یہ خبر بھی نا تھی کے ان کی اولادیں ان کے لئے زندگی بھر کا ناسور بن رہی ہیں۔

فضا میں نغمہ گونج رہا تھا۔
یوں دی ہمیں آزادی
کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان۔

مگر پاکستان کی عظمت کی کہانیاں سنانے والے منوں مٹی نیچے سو چکے تھے تبھی تو کہیں شہلا تو کہیں ارسلان جیسے بچے غلط راہ کے مسافر بن چکے تھے۔

پاکستان کا جشن آزادی من رہا تھا نئی صبح کا سورج طلوع ہو رہا تھا پتا نہیں کتنے گھروں کے اجالے لوٹ کر وہ دن ابھر رہا تھا۔

شہلا کے نوچے ہوئے جسم پر پاکستان کا پرچم پڑا ہوا تھا وہ اپنے ملک کی بیٹی کو عریاں کیسے دیکھ سکتا تھا اگر اسے کسی نے نہیں ڈھکا تو کنسرٹ میں لگے ہوئے پرچم اس کے جسم کو ڈھکنے لگے۔

دادا جان صبح تک ارسلان کا انتظار کر رہے تھے جب انہیں فون آیا کہ ان کی نسل کا آخری چراغ بھی بجھ گیا ہے اس کی لاش وصول کرنے وہ سرد خانے آجائیں۔

فون رکھ کر وہ بیٹھ گئے سوچتے رہے ان سے کہاں غلطی ہوئی؟ ، کیا اسے آزادی دے کر یا پھر اسے باندھ کر رکھتے تو شاید وہ جی جاتا۔

وہ بے بسی سے سوچ رہے تھے تو دوسری طرف شہلا کے گھر والے اس کو ڈھونڈ رہے تھے اس کی دوستؤں سے معلوم کر رہے تھے بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی ابھی تو پارٹیشن ہوا ہے، ابھی تو یہ پتا لگا ہے امرتسر ہمارا نہیں اس لئے پیدل جانے والے لاہور کے بارڈر پر مارے گئے ایک آگ سی تھی جو دل میں جل رہی تھی اور کورس کی ان کتابوں کو کوس رہی تھی جس میں کہیں یہ نہیں لکھا تھا کہ پارٹیشن کے وقت کس طرح دھوکا دے کر پاکستان کو مختصر کیا گیا اور اس کو آزاد کرنے کے جرم میں انگریزوں کی غلامی میں میڈیا کے ہاتھوں دے دیا گیا جنہوں نے مختلف چینلز بنا کر بتایا کہ آزادی تو اپنی ہوتی ہے کسی کی دی ہوئی نہیں ہوتی اور ویسے بھی جب حرام کھلایا جاتا ہے تو حلال کی توقع نہیں ہوتی۔

75 سالوں سے یہ ہی ہو رہا ہے اور یہ ہی ہوتا رہے گا۔
پاکستان زندہ آباد۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments