پاکستان کے 75 سال


پاکستان کے قیام کو 75 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ 14 اگست 1947 کو عوامی فلاح و بہبود، عوامی حاکمیت کے خواب کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک آزاد و خود مختار ملک کا قیام عمل میں آیا۔ قائد اعظم پاکستان بننے کے 11 ماہ بعد وفات پا گئے۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان 4 سال کے بعد راولپنڈی میں سازش کے طور پر قتل کر دیے گئے۔ اس کے بعد سرکاری، حکومتی سطح پہ سازشوں کا سلسلہ تیز تر ہوا۔ 1956 میں ملک کا پہلا آئین بنا۔

گورنر جنرل سکندر مرزا نے اکتوبر 1958 میں آئین منسوخ کر دیا اور اس کے بعد جنرل ایوب نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جنرل ایوب نے 1962 میں صدارتی نظام پر مبنی طرز حکومت مسلط کرتے ہوئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی قیادت میں قائم قومی عوامی سیاسی اتحاد کو اپنی مسلح اور سرکاری طاقت کے بل بوتے دھونس اور دھاندلی سے شکست دی۔ جنرل ایوب نے 1962 میں نیا آئین متعارف کرایا۔

تقریباً 11 سالہ اقتدار کے بعد ملک گیر عوامی مظاہروں کی وجہ سے جنرل ایوب کو اقتدار چھوڑنے پہ مجبور ہو نا پڑا تاہم جنرل ایوب نے 1969 میں اقتدار پارلیمنٹ کے سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحیی کے حوالے کر دیا۔ جنرل یحیی نے 1970 میں الیکشن کروائے، مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کی کامیابی کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار عوامی لیگ کے حوالے نہ کرنے پر مشرقی پاکستان میں عوامی تحریک چلی۔ مشرقی پاکستان میں بغاوت، آرمی ایکشن اور انڈیا کی فوجی مداخلت کی مدد سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے میں بنیادی وجہ مغربی پاکستان کی مشرقی پاکستان کے ساتھ معاشی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی تعصب اور استحصال رہا۔

مغربی پاکستان پر مشتمل نئے پاکستان کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے ہوا۔ بھٹو نے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر سابق مارشل لاء حکومتوں کے اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے، عوامی وزیر اعظم کے طور پر ملک کا اقتدار سنبھال لیا۔ 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو نے تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے نیا آئین بنایا جو مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اب بھی نافذ العمل ہے۔ 1977 میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر عوامی تحریک کی صورتحال میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا، 1979 میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی دے دی۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کراتے ہوئے مارشل لاء اٹھایا۔ 1988 میں ایک فضائی حادثے میں جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ نے فوری طور پر الیکشن کرائے جس میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں اور انہوں نے ملک میں فوجی اقتدار کا خاتمہ اور جمہوریت بحال کی۔

1988 سے 1999 کے درمیان حکومت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے پاس رہی، ہر ایک 1988 اور 1999 کے درمیان مسلسل دو مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ 1988۔ 90 اور 1993۔ 96 کے دوران بے نظیر بھٹو؛ اور شریف 1990۔ 93 اور 1997۔ 99 کے دوران وزیر اعظم رہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کوئی بھی منتخب وزیراعظم اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے خود کو آئندہ پانچ سال کے لئے صدر بنایا اور 2002 میں لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت آئین میں کئی ترامیم کرائیں۔ پہلے ظفر اللہ جمالی اور بعد ازاں شوکت عزیز کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ انہوں نے ظفر اللہ جمالی اور بعد ازاں شوکت عزیز کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ 2007 میں عدلیہ کو معطل کرنے کے خلاف عوامی حمایت یافتہ وکلاء تحریک سے ان کا اقتدار کمزور ہوا اور 2008 میں مواخذے سے بچنے کے لئے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے اور لندن چلے گئے۔ 2008 کے الیکشن سے پہلے ہی بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں دہشت گردی کے ایک واقعہ میں قتل کر دیا گیا۔ الیکشن میں کامیابی سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی، اس حکومت نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے صدارتی نظام ختم اور پارلیمانی طرز حکومت بحال کیا۔

مشرف عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے 2013 میں پاکستان واپس آئے، لیکن ملک کی اعلی عدالتوں کی جانب سے نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد انہیں الیکشن میں حصہ لینے سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ 2013 میں نواز شریف کے دوبارہ منتخب ہونے پر ، انہوں نے مشرف کے خلاف ایمرجنسی کے نفاذ اور 2007 میں آئین کو معطل کرنے میں سنگین غداری کے الزامات پر مقدمات کا آغاز کیا۔ مشرف کے خلاف مقدمہ 2017 میں شریف کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد بھی جاری رہا، اسی سال جب مشرف کو دبئی منتقل ہونے کی وجہ سے اکبر بگٹی قتل کیس میں مفرور قرار دیا گیا تھا۔ مشرف کو غداری کے الزام میں ان کی غیر حاضری میں موت کی سزا سنائی گئی۔

نواز شریف کی حکومت قائم ہوتے ہی ملک میں پس پردہ سازشوں کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری کا اسلام آباد میں حکومت کے خلاف پارلیمنٹ کے سامنے طویل دھرنا کرایا گیا۔ 2017 میں پانامہ کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے سیاست میں نا اہل قرار دیا گیا اور 2018 کے الیکشن میں ”ووٹ سے دشمن کو شکست دینے کے نعرے“ کے ساتھ، عالمی سطح پہ تسلیم شدہ دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو کامیابی دلاتے ہوئے اقتدار میں لایا گیا۔

پس پردہ سازشوں کی صورتحال میں، عالمی سطح پہ، پاکستان پہ مخفی اقتدار کے حوالے سے ”ہائبرڈ نظام“ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی جو اب تک مسلسل انداز میں جاری ہے۔ عمران خان حکومت میں ملک کو بدترین اقتصادی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ آزادی اظہار پہ سخت پابندیاں عائد کی گئیں، سیاسی مخالفین کے خلاف بدترین انتقامی کارروائیاں عمل میں لائی گئیں۔

2020 میں ملک کی 13 اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ قائم ہوا۔ ’پی ڈی ایم‘ اتحاد نے پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کیے جانے کے بیانیہ کے ساتھ ملک گیر جلسے کیے جس سے ملک کے ’ہائبرڈ نظام‘ اور عمران خان حکومت کی پوزیشن کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی۔ عمران خان حکومت میں ملک کی اقتصادی بدحالی تشویشناک حالت کو پہنچی، ملک دیوالیہ ہونے کے دھانے پہ پہنچ گیا اور عوام کے لئے شدید معاشی بوجھ اور بدحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

اسی صورتحال میں عمران خان حکومت اور فوج کے ”ایک پیج“ پہ ہونے کا بیانیہ کمزوری سے ہمکنار ہوا، حکومت اور فوج کے درمیان اختلافات بڑھتے نظر آنے لگے اور اسی تناظر میں 2022 اپریل میں ڈرامائی طور پر ’پی ڈی ایم‘ اتحاد نے اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان حکومت کو ختم کرتے ہوئے خود حکومت سنبھال لی۔

پاکستان میں 20 ویں صدی کا خاتمہ اور 21 صدی کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء میں ہوا۔ جنرل مشرف نے ملک کو طاقت کی بنیاد پر ملک کو نا صرف سیاسی طور پر فتح کیا بلکہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف اس طویل جنگ کا بھی آغاز کیا جو دو عشرے سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود اب تک جاری ہے۔ جنرل مشرف نے بلوچستان کے مسائل کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے فوجی طاقت کی بنیاد پر حل کرنے کی حکمت عملی اختیار کی اور اسی دوران ایک فوجی حملے میں سابق گورنر، سابق وزیر اعلی اکبر بگٹی کو ہلاک کر دیا گیا۔

یوں تو قیام پاکستان کے وقت سے بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر متحرک رہے لیکن بلوچستان کو سیاسی طور پر ڈیل کیے جانے سے ایسے عناصر محدود سے محدود ہوتے ہوئے عمومی عوامی حمایت سے محروم رہے۔ تاہم اکبر بگٹی کے قتل اور بلوچستان کو مسلح طاقت سے ڈیل کرنے کی حکمت عملی سے بلوچستان کے حالات تیزی سے خراب ہوتے چلے گئے۔ قبائلی علاقوں میں عوامی حقوق کے حوالے سے عوامی تحریک چلی جو اب بھی مختلف انداز میں جاری ہے۔

مشرف دور میں ہی ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک سے عملی طور پر لاتعلقی اختیار کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی جس سے ہندوستان کو کشمیریوں کی مزاحمتی تحریک کے خلاف اور عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر باڑ کی تعمیر سے اس تقسیم کو مضبوط بنانے میں بڑی مدد ملی۔ ہندوستان نے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے ہندوستان میں مدغم کرنے کا اقدام کیا۔ لیکن جنرل مشرف کی اختیار کی گئی لاتعلقی کی حکمت عملی پہ عمل پیرا پاکستان انتظامیہ نے بیانات میں محدود ہوتے ہوئے کوئی سرگرم ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کی حکمت عملی ظاہر کی۔

کئی بار یہ بات زیر بحث آتی ہے کہ 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے قائد اعظم کے خطاب کو سنسر کیا گیا، قائد اعظم کے اس خطاب کی ریکارڈنگ غائب کر دی گئی۔ اس خطاب میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ آپ آزاد ہیں، آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے، آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔

ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قیام پاکستان سے تین دن پہلے قائد اعظم کی پاکستان کے بارے میں اس ہدایت، پیغام کو کس نے چھپانے کی کوشش کی، یقیناً انہوں نے ہی ایسا کیا جن کا اس وقت اقتدار قائم تھا یعنی برٹش حکام۔ کیا برطانیہ نے پاکستان کے لئے ایک مذہبی ریاست کا راستہ طے کر رکھا تھا؟ آج ایک بار پھر پاکستان میں اسلامی صدارتی نظام قائم کرنے کی لابنگ نظر آتی ہے۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے مذہبی عناصر کو مضبوط بنانے کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ یعنی مذہب کو حاکمیت کی سیاست میں ایک ’ٹول‘ کے طور پر استعمال کو ایک کارگر حربہ سمجھا جاتا ہے۔

اب قیام پاکستان کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر ہمیں یہ صورتحال درپیش ہے کہ ملک پہ مسلط ماورائے آئین و قانون حاکمیت کی پالیسیوں نے ملک اور عوام کو خراب اور نامراد کرتے ہوئے کمزور سے کمزور تر کیا ہے۔ ملک میں حاکمیت کا تعین اب بھی بنیادی مسئلے کے طور پر درپیش معاملہ ہے۔ ملک و عوام کو اس حال پہ پہنچانے کے ذمہ دار، پالیسیاں بنانے اور چلانے والے، اب بھی اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہی غلطیاں دہرانے کو ملک کا مفاد قرار دینے پہ مصر ہیں جن کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا ہے۔

آج 75 سال کے حالات و واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ یا ہم پہ مخصوص عناصر کی حاکمیت مسلط رکھتے ہوئے ہمارے ملک کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، جس کے نتائج نہ تو ملک اور نہ ہی عوام کے حق میں بہتر ثابت ہوئے ہیں۔ اب تو یہ دعا کرنا بھی عبث معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حاکموں کو اس باقی ماندہ ملک کی اہمیت اور افادیت کا ادراک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments