ایک شام مجلس ترقی ادب کے نام


دس اگست کی شب کو جب بے مقصد فیس بک پر سکرولنگ جاری تھی تو اچانک نظروں کے سامنے مجلس ترقی ادب کا نام گزرا اور انگوٹھے نے سکرین کو وہیں پر روک لیا۔ ہلکے پیلے رنگ سے مزین یہ دعوت نامہ بارہ اگست کو مجلس ترقی ادب لاہور میں منعقد ہونے والے مشاعرے کے متعلق تھا جہاں ملک کے نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کرنا تھا۔ اردو ادب سے وابستگی کا مطالبہ تھا کہ سیل رواں سی بہتی زندگی میں سے فرصت کے چند لمحات نکال کر ادب اور ادبی سفر کے مسافروں کے سنگ گزارے جائیں۔

اسی وقت موبائل پر الارم لگا دیا کہ زندگی کی رنگینیوں میں انسان بہت سے ضروری کام بھول کر پچھتاوے کا شکار رہتا ہے۔ یونیورسٹی سے فراغت تھی تو سہ پہر سے ہی تیاری شروع کر دی۔ مجلس ترقی ادب لاہور کے زیر اہتمام ادارے کی خوبصورت عمارت میں کتب میلہ اور آزادی کی مناسبت سے مختلف پروگرامز کا انعقاد کیا گیا تھا جو کہ گیارہ اگست سے چودہ اگست تک جاری رہنے تھے۔ بارہ اگست کی شب خصوصاً شاعری کی شب تھی جسے ”پاکستان یوتھ مشاعرہ“ کا نام دیا گیا تھا۔ یوں شاعری سے شغف رکھنے والے تمام افراد کے لیے اپنے ذوق کی تسکین کا بہترین لمحہ تھا جس میں نوجوانوں کو خاص دعوت دی گئی تھی۔ محفل کا آغاز چھ بجے ہونا تھا۔ میں پانچ بجے اپنے ہاسٹل سے نکل کر انارکلی بازار کی رعنائیوں سے دل بہلاتے ہوئے ایک نظر ”پاک ٹی ہاؤس“ کو دیکھا اور پھر منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔

شاہراہ قائد اعظم کے پہلو میں تعمیر کردہ مجلس ترقی ادب کی عمارت خوبصورتی میں بے مثال ہے۔ بلند و بالا درختوں سے گھری یہ عمارت ادب کے سائے میں پروان چڑھتے ستر برس کی ہو چکی ہے۔ مجلس ترقی ادب کی تکمیل یہاں پر قائم کردہ لائبریری سے ہوتی ہے جو کہ اردو ادب اور دیگر ادب کی کتب کے تراجم سے سجی علم و ادب کا محور ہے۔ تحقیق اور تالیف سے جڑا یہ ادارہ دہائیوں سے اردو ادب کی ترویج کے لیے بے بہا کوششیں کر رہا ہے جو کہ ہمیشہ کامیاب ہوتی آئی ہیں۔

جس طرح اقوام کی زندگی میں قلم، کتاب اور کاغذ کی اہمیت ہوتی ہے ویسے ہی علم کو ذخیرہ کرنے کے لیے کتب اور کتب خانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتب خانے زمانہ قدیم سے قائم ہوتے آئے ہیں اور ہر دور میں ان کی اہمیت بڑھتی گئی ہے۔ قوموں کو علم کے خزینے کتب خانوں کی بدولت میسر ہوتے ہیں جو اقوام کی شعوری نشوونما میں کتب خانوں کا کام وہی ہوتا ہے جو زمین کے لیے کھاد اور پانی کرتا ہے۔

مجلس ترقی ادب کا کتب خانہ دیگر کتب خانوں کی نسب خاص اور منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ادب اور تحقیق سے جڑی سینکڑوں کتابیں اس کتب خانے کی شان و شوکت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ جہاں نادر کتب کا خزانہ اس کتب خانے کا خاصہ ہے وہیں ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے اور قدیمی اہم لغات بھی اس نادر و نایاب کتب خانے کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ تئیس ہزار کتب پر مشتمل یہ کتب خانہ عصر حاضر کے مشاہیر اردو ادب اور اہل علم کے ذاتی ذخائر بھی محفوظ کیے ہوئے ہے۔ آکسفورڈ کی نایاب لغات اور نادر رسائل کو سنبھالے مجلس ترقی ادب، علم و ادب کا مرکز ہے جہاں تشنگان علم بھاگے چلے آتے ہیں۔

مجلس ترقی ادب کے صدر دروازے پر ادب سے محبت کرنے والوں کا جم غفیر تھا جو بھانت بھانت کی بولیاں بول کر اپنے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ جہاں شریک مجلس شعرا کی آمد کے بارے میں پرجوش تھے وہیں کتب سے شغف رکھنے والے کتب میلے میں گھوم پھر کر اپنے ذوق کی کتب خرید کر جیب ہلکی کر رہے تھے۔ عمارت کے پاس سرسبز و شاداب گھاس سے ڈھکے ہوئے میدان پر اسٹیج بنایا گیا تھا جہاں مختلف فنکار اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

وقفے وقفے سے کانوں میں ان نغموں کی آواز بھی سر بکھیر دیتی جو آزادی کی خوشی میں گائے گئے تھے۔ مغرب کی نماز احاطے میں بنی مسجد میں ادا کی گئی اور اس کے بعد محفل مشاعرہ کا آغاز ہوا۔ شعرا میں تہذیب حافی، علی زریون، خالد ندیم شانی، عمیر نجمی اور نوشیرواں عادل سمیت مختلف شعرا کرام نے اپنا کلام پیش کیا۔ رات کے سائے جب گہرے ہونے لگے تو محفل کے اختتام کا وقت بھی قریب آن پہنچا اور پاکستان کی نوجوان نسل کے نام کیا گیا یہ مشاعرہ اور خوبصورت شام بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments