آہ، ہاکی لیجنڈ مطیع اللہ خان، ہم آپ سے شرمندہ ہیں


آہ، ہاکی لیجنڈ مطیع اللہ خان طویل علالت کے بعد بہاولپور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، موت برحق ہے اور ہر جاندار کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، سب کی باری لگی ہے، کوئی پہلے جائے گا اور کسی کی بعد میں باری ہے، جن لوگوں سے خون کا رشتہ ہو اس کا بہت افسوس ہوتا ہے کیونکہ رشتوں کا نعم البدل کوئی نہیں ہوتا مگر جن لوگوں کو آپ جانتے ہوں یا کسی نہ کسی حوالے سے آپ کی ان سے کوئی یاد وابستہ ہو جائے تو اس کا دکھ بھی اپنے رشتوں جیسا ہی محسوس ہوتا ہے، مطیع اللہ خان سے بھی ایسا ہی تعلق تھا جن کی وفات کی خبر پر دل بہت رنجیدہ ہوا، کافی دیر اداسی چھائی رہی، آفس بوائے وسیم نے چائے لا کر رکھ دی مگر چائے کو منہ لگانے کو دل نہ کیا، وسیم دو بار آیا، صاحب چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے، دوسری بار آیا تو اس کو یہ کہہ کر چائے اٹھوا دی کہ یار لے جاؤ دل نہیں کر رہا، وسیم حیران رہ گیا کہ چائے سے انکار کر رہا ہوں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ چائے میری کمزوری ہے

مطیع اللہ خان کے بارے میں گزشتہ برس انہی دنوں میں ”ہم سب“ پر بلاگ لکھا تھا کہ ہاکی کے لیجنڈ کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا، یہ بلاگ سمیع اللہ خان کے مجسمے سے ہاکی چوری ہونے پر لکھا تھا، اپنے دوست فیصل سلہریا سے مطیع اللہ خان کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ”اکسایا“ کہ بلاگ لکھیں اور ان باتوں کو ریکارڈ پر لائیں، ان میں چند سطریں نئے پڑھنے والوں کے لئے لکھ رہا ہوں، مرحوم دنیا کے ہاکی نامور کھلاڑی سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان کے سگے چچا تھے، ان کے بھائی ہدایت اللہ بھی ہاکی کے بہت اچھے کھلاڑی تھے، مطیع اللہ خان 1960 ءکے سمر اولمپکس میں سونے جبکہ 1956 ء اور 1964 ءکے سمر اولمپکس میں چاندی کے تمغے جیتنے والی قومی ہاکی ٹیم میں شامل تھے جس کے بعد پاکستان میں ہاکی کے عروج کا سفر شروع ہوا اور پاکستان تقریباً پندرہ، بیس سال تک ہاکی کا بے تاج بادشاہ رہا۔

مطیع اللہ خان جیسے عظیم کھلاڑیوں کی محنت اور کوششوں سے ہاکی کا عروج شروع ہوا تھا، چچا سے متاثر ہو کر سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان بھی ہاکی کھیلنے لگے اور پاکستان تو کیا دنیا کو ہاکی کے بہترین کھلاڑی ملے، آج کی نسل نے شاید ہی دونوں بھائیوں کا کھیل دیکھا ہو، ان کے علم میں اضافے کے لئے بتا رہا ہوں کہ سمیع اللہ خان کو ہاکی کی دنیا کا فلائنگ ہارس کہا جاتا تھا، ایک بار سمیع اللہ خان کے ہاتھ گیند آئے جائے تو کوئی کھلاڑی ان سے گیند چھین نہیں سکتا تھا اور وہ گیند کو لے کر اتنی تیزی سے مخالف ٹیم کے گول تک پہنچتے کہ مخالف کھلاڑی ان کو پکڑنے میں ناکام رہ جاتے تھے

مطیع اللہ خان کے جیتے ہوئے سونے اور چاندی کے میڈلز نے نوجوانوں میں ہاکی کا جوش اور ولولہ پیدا کیا جس سے نوجوان مطیع اللہ خان کی طرح شوق اور جذبے سے ہاکی کھیلنے لگے پھر پاکستان کو وہ کھلاڑی نصیب ہوئے جن کا آج تک دنیا کو کوئی کھلاڑی مقابلہ نہیں کر سکا، مطیع اللہ خان کی ہاکی کے لئے خدمات اور پاکستان کا نام روشن کرنے پر حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا تھا، ہمارے ہاں رواج ہے کہ حکومت ایک تمغہ دے کر اپنا فرض پورا کر دیتی ہے، مطیع اللہ خان جیسے سیکڑوں ہیروں کو ہم نے ضائع ہی کیا جس کی وجہ سے آج ہاکی میں ہم اتنا پیچھے رہ گئے ہیں کہ اب ہماری میں ہاکی میں کوئی داستان ہی نہیں رہی، ہماری قومی ہاکی ٹیم اب اس قابل بھی نہیں رہی کہ کسی عالمی مقابلے میں حصہ لینے کے لئے کوالیفائی ہی کر لے، میڈل جیتنا تو بہت دور کی بات ہے

مطیع اللہ خان اولمپیئن گولڈ میڈلسٹ اور تمغہ امتیاز کو ہم نے ریلوے میں ٹکٹ چیکر کی ملازمت دے کر اپنا فرض پورا کر دیا کہ ان کی روزی روٹی لگ گئی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مطیع اللہ خان جیسے لیجنڈ ہاکی پلیئر کو ہم عزت دیتے اور ان کو ذمہ داری سونپتے کہ وہ ہاکی کے نئے کھلاڑی تیار کریں تاکہ قومی ہاکی ٹیم مضبوط سے مضبوط تر ہو، مگر افسوس یہ ہم اپنے ہیروز کو صرف چند روز ہی عزت دیتے ہیں جس کے بعد ہمارے ہیروز گمنامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

میں نے مطیع اللہ خان کے بارے میں حکام کی آنکھیں کھولنے کے لئے تمام واقعات لکھے، مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو، شرم تو اب ان کے پاس رہی نہیں جو وہ کھا کر لیجنڈ کا حال ہی پوچھ لیتے، ”ہم سب“ پر لکھا بلاگ جب فیس بک پر شیئر کیا تو بہاولپور کے نوجوان فیض ہاشمی نے مجھے انباکس میں پیغام بھیجا کہ اگر اجازت دیں تو بلاگ میں مطیع اللہ خان کے بارے میں وہ حصہ اپنی وال پر شیئر کرلوں، میں نے کیا اعتراض کرنا تھا، پھر نوجوان نے مجھے انباکس میں کچھ تصاویر بھیجی اور بتایا کہ چند ماہ قبل مطیع اللہ خان کی سالگرہ تھی، میں کیک لے کر ان کے گھر گیا اور ان کے ساتھ کیک کاٹا، یہ تصاویر اس موقع کی ہیں، مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی، اگلے روز فیض ہاشمی نے مجھے پھر میسیج کیا کہ مطیع اللہ خان شدید علیل ہیں، میں نے ان کے گھر جاکر آپ کا بلاگ ان کو پڑھ کر سنایا ہے جس پر وہ آبدیدہ ہو گئے اور انہوں نے آپ کا بہت شکریہ ادا کیا ہے

مزید چند روز کے بعد فیض ہاشمی کا پھر میسیج آیا کہ خان صاحب کا بیٹا آپ سے بات کرنا چاہتا ہے اگر مناسب سمجھیں تو اپنا فون نمبر دے دیں، میں نے نمبر دیدیا، اگلے ہی روز مطیع اللہ خان کے بیٹے (نام یاد نہیں آ رہا) کا فون آیا، خان صاحب اور اپنی طرف سے بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نے تاریخ پر پڑی گرد جھاڑ دی ہے، میں نے پوچھا کیا کسی حکومتی عہدیدار یا پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کرتا دھرتاؤں نے بھی کوئی رابطہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ نہیں جناب، اب تو ہم بھی بھول گئے ہیں کہ ہمارا باپ ملک کا لیجنڈ ہاکی پلیئر ہے، اس بے رخی پر بابا (مطیع اللہ خان) اکثر رنجیدہ ہو جاتے ہیں، اس نے پھر شکریہ ادا کیا اور کہا جب بھی لاہور آیا ضرور حاضر ہو کر آپ کا شکریہ ادا کروں گا، میں نے جواب دیا کہ بیٹا شکریہ کیسا، میرے سر پر جو بوجھ تھا وہ بلاگ لکھ کر اتار دیا، اب یہ اس حکومت اور ہاکی فیڈریشن کے لوگوں کا کام ہے جو اپنے عہدوں پر گدھ بن کر بیٹھے صرف حرام اور مردار کھا رہے ہیں

مطیع اللہ خان کے بیٹے سے طویل بات چیت ہوئی، جس کے بعد میں کافی دنوں تک افسردہ رہا کہ ایک تو ہم اپنے لیجنڈ کو وہ مقام نہیں دے تے جس کے وہ مستحق ہیں دوسرا ان کی اولاد پر کیا بیت رہی ہوگی، ان کے دلوں میں پاکستان سے کتنی محبت باقی بچی ہوگی جو وہ اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک کا نام روشن کریں گے، یہ المیہ صرف مطیع اللہ خان کے بیٹے کا ہی نہیں، ہر اس محب وطن پاکستانی اور فرض شناس لوگوں کے بچوں کا بھی ہے جن کے بڑوں نے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا اور وہ عمر کے آخری حصہ میں گمنامی کی زندگی گزارتے ہیں، ہم بے حس، توتا چشم اور چڑھتے سورج کے پجاری لوگ ہیں، اپنے ہیروز کو بے رحمی سے مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، آہ مطیع اللہ خان، ہم آپ سے شرمندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments