یہ وطن ہمارا ہے


ہمارے پیارے وطن کا پچھترواں یوم آزادی نزدیک ہے، اور اس کی محبت کا تقاضا ہے کہ ہم کچھ دیر کے لیے ہی سہی، آنکھیں کھول کر اپنے آس پاس کو نظر دوڑائیں، کہ ہو کیا رہا ہے، کون آ رہا ہے، کون جا رہا ہے، کون کہاں کھڑا ہے، اور اگر کھڑا ہے تو کیوں کھڑا ہے، کہیں اس کو کسی نے تو یہاں کھڑا نہیں کیا، یہ جو بالکل لاتعلقی سے کھڑا نظر آ رہا ہے کہیں کسی موقع کی تلاش میں تو نہیں، یہ کیا سیاست ہو رہی ہے، حکومت کیوں بے بس اور بے اثر دکھائی دے رہی ہے، یہ کیوں اپنی بے بسی کی وجوہات کا کھل کر اعلان نہیں کر رہی، یہ کمزور دھاگوں سے لٹکے، بلیک میل ہوتے، سیاسی اتحاد کیسے اور کیوں تشکیل پائے، یہ ”بھان متی کے کنبے“ اسلامی جمہوری اتحاد سے لے کر آج تک کون تشکیل اور تخلیق کرتا ہے؟

یہ تو اب کوئی راز نہیں رہا، اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ان ہی کی طرف سے تمام منظر نامہ اور میدان جنگ تشکیل دیا جاتا ہے، جیسے روایتی طور پر کہا جاتا تھا کہ ”تم ہی نے درد دیا ہے، تم ہی دوا دینا“ لیکن درد کی ترسیل تو مسلسل جاری ہے، دوا دینے والا دور تک دکھائی نہیں دے رہا، شاید مریض کی صحتیابی کی امید ہی دم توڑ چکی ہے اب کہیں، تجہیز و تکفین کا مرحلہ ہی نہ ہو، اور ہمیں معلوم ہی نہ ہو، کہیں سنگچور ( کریٹ) سانپ کے کاٹے کے مریض کی طرح ہماری آنکھ قبر میں ہی جا کر نہ کھل جائے، قارئین کریٹ سانپ کے کاٹے تقریباً تیس فیصد افراد صرف ظاہری طور پر مرتے ہیں، جبکہ ان کا دماغ پوری طرح کام کر رہا ہوتا ہے، اور اکثر ان تیس فیصد کو بظاہر زندگی کی کوئی علامت نہ ہونے کی وجہ سے مردہ سمجھ کر زندہ ہی دفنا دیا جاتا ہے۔

اس بساط پر شطرنج کے مہروں کی طرح ہر فریق کو اپنی اپنی جگہ ایستادہ کیا جاتا ہے، واضح الفاظ میں آج ہی کا منظر نامہ دیکھیں، تو ایک طرف اس نام نہاد حکمران اتحاد کی محدود مدد کی جا رہی ہے، عدلیہ اور دیگر کڑی نگرانی اور پابندیوں کے ساتھ، دوسری طرف محترم عمران خان نیازی کو بھی محفوظ اور قائم رکھا جاتا ہے، ان کو نواز شریف اور دیگر راندہ درگاہ کے برخلاف، مکمل میڈیا تک رسائی اور بہترین کوریج کی ”سہولت“ مہیا کی جاتی ہے، ان کی رہائش گاہ کو ایک مقدس و متبرک مقام قرار دیتے ہوئے، وہاں دو صوبوں اور ساتھ ہی مرکز کے ”زیر حکم“ پیرا ملٹری فورسز کی بھاری تعداد کی حفاظت مہیا کی جاتی ہے، یہ اتنا مقدس مقام ہے کہ یہاں سے پورے پاکستان کے لیے میڈیا نشریات جاری ہوتی ہیں، براہ راست خطاب ہوتے ہیں، جن کو براہ راست اور مکمل دکھانے کا سارا میڈیا پابند بنایا جاتا ہے، موجودہ حکومت کی ”رٹ“ کا یہ عالم ہے کہ قانون کو مطلوب شہباز گل کا ڈرائیور اس آزاد علاقے یعنی بنی گالہ میں پناہ لیتا ہے، تو کسی کی جراٰت نہیں کہ اس کو وہاں سے جا کر گرفتار کیا جا سکے، بلکہ انتہائی عیاری سے متضاد تاثر قائم کرنے اور موجودہ ہومیوپیتھک حکومت کو مزید بدنام اور ذلیل کرنے کے لیے غیر ضروری طور پر روپوش ڈرائیور کی بیوی کو گرفتار کیا جاتا ہے، تاکہ ہر کوئی اصل معاملہ بھول کر موجودہ حکومت پر لعنت بھیجے۔

ہمیں تو سمجھ نہیں آتی کہ اس قدر ذہین منصوبہ سازوں کے مقابلے میں بھارت بچ کیسے گیا، اپنے لاڈلے کی بیس بیس مقدمات میں پانچ ہزار کی رقم میں پیشگی ضمانتیں کروائی جاتی ہیں، انصاف فراہم کرنے کے ذمہ دار، ان کی درخواست آنے سے پہلے رات بارہ بجے لاہور رجسٹری میں پیشگی طور پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں، اب تیسری قوت اور طاقت کے طور پر پورے کے پی کے میں مسلح ”ٹی ٹی پی“ کی ڈپلائمنٹ مکمل کروائی جا چکی ہے، شنید ہے کہ ان کی ان علاقوں میں مسلح موجودگی کسی جاری ”مذاکرات“ کا شاخسانہ، اور مفاہمت ہے جس کے بارے میں پاکستان کے عوام کو مکمل طور پر بے خبر رکھا جا رہا ہے، سیاسی قیادت ان مذاکرات کے جواز اور قیام پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کر چکی ہے، موجودہ مجبور حکومت کے کسی وزیر کو ان مذاکرات کے بارے میں ایک لفظ تک بولنے کی اجازت نہیں، لہذا اس ذکر پر وہ شدید ہکلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، شاید ان کو صرف اس لیے سامنے رکھا گیا ہے، تاکہ ممکنہ ناکامی کا اور ان مذاکرات کے تباہ کن اثرات کا ہمیشہ کی طرح ذمہ دار ان ”معصوموں“ کو ٹھہرایا جا سکے، لگتا ایسا ہے کہ ان دہشت گرد قاتلوں کے کسی مثبت استعمال کی امید پر ”سٹریٹیجک ڈیپتھ“ قسم کا منصوبہ بنایا گیا ہے، اب جیسے حالات اور ”ہاتھ بندھے انٹرویوز“ نشر ہو رہے ہیں، وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ منصوبہ تو ضرور اور واضح ہے اگر ہم نے نہیں بنایا تو پھر ”کسی اور“ نے بنایا ہو گا، لیکن اس کی سرپرستی کی ذمہ داری سے قطع نظر اس کے موجود اور رو بہ عمل ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی متبادل بی اور سی پلان کی ضرورت کی صورت میں ان کو عوام کو خوفزدہ کر کے خاموش رکھنے کے کام لایا جانا مطلوب ہو، اور دوسرے ان کے خود ساختہ خطرے کو جواز بنا کر کسی بھی وقت ”سب کچھ“ براہ راست ہاتھ میں لیا جا سکے، اس کے علاوہ تقریباً ایسی ہی طاقت تحریک لبیک کے ریزرو کی صورت میں پالی گئی ہے، جو صرف اشارہ یا حکم ملنے پر ہی باہر نکلتے ہیں، ساتھ ہی لال مسجد والا داعش برانڈ مولانا بھی مسلح نقاب پوشوں کی حفاظت میں داعش کے جھنڈے کے نیچے دارالحکومت میں بیٹھا دندنا اور گرج رہا ہے اور ساتھ ہی اپنی ”تنخواہ“ اور دیگر اخراجات بھی باقاعدگی سے وصول کر رہا ہے، ساتھ ہی اسے ”سرکاری“ لال مسجد کی صورت میں دارالحکومت کے دل میں آفس یا اڈا بھی مہیا کیا گیا ہے، اوریا مقبول جان جیسے پالتو دانشور کھلے عام ایکسپریس اخبار میں کالم لکھ کر، ہزاروں بے گناہ پاکستانی عوام اور فوجیوں کے قاتل ”ٹی ٹی پی“ کے دہشت گردوں کو پاکستان پر قبضہ کر لینے کی دعوت دیتے ہیں، واقعی یہ ملک معجزہ ہے، دنیا کے کسی بھی کمزور سے کمزور ملک میں بھی کیا یہ ممکن ہے، کہ اس طرح کھلے عام دہشت گردوں کو ملک پر قبضہ کر لینے کی دعوت دی جائے، اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے، اور نہ ہی عوام میں سے کوئی اس بیان کا نوٹس لے، یہ ہے وہ نتیجہ اس منصوبہ بند مسلط کردہ جاہلیت اور تعصب کا جب عوام کسی معصوم اور ناسمجھ بچے کی طرح خطرناک زہریلے سانپ کو یا کسی آدم خور درندے کو کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلنے لگتے ہیں۔

کیا پاکستان کے عوام اور ان کا حق رائے دہی ان کا شعور کوئی اتنی خطرناک طاقت ہے، بلکہ بھارت سے بھی بڑا دشمن اور طاقت ہے، جن کے مقابلے اور ان کو شکست دینے کے لیے اتنا تہہ در تہہ جارحانہ دفاع ترتیب دیا گیا ہے۔ سبحان اللہ کبھی تو دل چاہتا ہے، کہ اس بے بس اور غریب مزدور کی طرح روتے ہوئے ان سے درخواست کی جائے کہ ”یہ سب آپ کو پہنچا، ہم پر ایٹم بم مار کر ایک ہی بار ہم کو ختم ہی کر دیں، پھر بجٹ ہی بجٹ ہو گا، اور کوئی فالتو خرچ تک نہیں رہے گا، پھر شوق سے اپنا شوق ملک گیری و جہاں بانی پورا کیجیے گا، اور، عوام کی صورت میں اس بے کار و عبث ہجوم سے چھٹکارا پا کر آپ اپنے تمام وسائل اور طاقت“ ناقابل تسخیر دفاع پر مرکوز اور مرتکز کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments