شہباز گل مصیبت میں


عمران خان کے چیف آف سٹاف شہبازگل کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان کی عدالت میں آمد، دھکم پیل اور لاک اپ کی فوٹیجز دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کہ سیاست گڈی گڈے کا کھیل نہیں ہے۔ بلکہ اس دشت میں خوشیوں کے ساتھ دکھ اور درد بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایک معمولی سی غلطی کسی کو بھی ہیرو سے ولن بنانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ بعض اوقات انسان کا کانفیڈنٹ لیول حد سے بڑھ جاتا ہے۔ جو بہرحال کسی بڑی غلطی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ شہباز گل نے بھی اپنے قد اور مرتبے سے بڑا بیان جاری کر کے مفت کی مصیبت مول لے لی ہے۔

شہباز گل دراصل عمران خان کے چیف آف سٹاف کے عہدے پر فائز ہیں۔ لیکن وہ انٹرویو دیتے وقت شاید اپنے آپ کو اصلی چیف آف آرمی سٹاف سمجھ بیٹھے تھے۔ اسی غلط فہمی میں انہوں نے فوجی جوانوں کو اپنے زریں ارشادات سے نواز ڈالا۔

یہ خان صاحب کی بڑے خوش نصیبی تھی کہ ان کے ساتھ ابھی تک لاڈلے بچوں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا تھا۔ لیکن شاید اسٹیبلشمنٹ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ بقول نجم سیٹھی اب خان صاحب کو اسی چھلنی سے گزارہ جائے گا۔ جس سے ماضی میں میاں نواز شریف، بینظیر بھٹو شہید اور دوسرے سیاسی راہنماؤں کو گزارہ گیا تھا۔ عمران خان بھی غالباً آنے والے خطرے کی بو سونگھ چکے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنی ٹون میں کچھ تبدیلی کی ہے۔

شہبازگل نے ایک نجی چینل کے پروگرام میں جو گفتگو کی تھی۔ وہ قومی ادارے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کے مترادف تھی۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف کی بیشتر لیڈرشپ ان سے فاصلے برت رہی ہے۔

کرنٹ افیئر کے پروگراموں میں منہ پھٹ لہجے میں بات کرنے والا اور پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بدتمیزی سے جواب دینے والا شہباز گل تھانے کی لاک اپ میں شکستہ حال بیٹھا تھا۔ ان کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ چکی تھی۔ چہرے پر مسکراہٹ ندارد تھی۔

جسمانی ریمانڈ ختم ہونے کے بعد موصوف کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ میڈیا خبروں کے مطابق انہوں نے دوران تفتیش یہ انکشاف کیا ہے کہ نجی ٹی وی کو دیا جانے والا بیان بنی گالا کے لینڈ لائن نمبر سے جاری کیا گیا۔ یہ بات درست ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی ٹاپ قیادت اس کام میں ملوث ہو سکتی ہے۔ نجم سیٹھی کا یہ بھی فرمانا ہے۔ عمران خان دراصل اسٹیبلشمنٹ کا موڈ چیک کرنا چاہتے تھے۔ کہ وہ اس ایونٹ پر پہلے کی طرح خاموش رہے گی یا نہیں۔ مگر ان کی توقعات کے برعکس اس انتہائی نامناسب بیان کو بہت سنجیدہ لیا گیا ہے۔ طاقتور شخصیات کی برہمی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کہ یہ کیس ملٹری کورٹ کے حوالے کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

امریکی شہریت کے عامل ڈاکٹر شہبازگل پاکستان کے سیاسی افق پر اچانک نمودار ہوئے اور اپنی مخصوص صلاحیتوں کی وجہ سے آ گے بڑھتے چلے گئے۔ موصوف اسلامک یونیورسٹی میں لیکچرر کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے۔ وہاں سے فراغت کے بارے میں سوشل میڈیا پر مختلف کہانیاں گردش کر رہی ہیں۔ جن کا اس مضمون میں ذکر کرنا نامناسب ہو گا۔

ماضی میں انہیں پنجاب میں عثمان بزدار کا ترجمان مقرر کیا گیا۔ مگر کچھ ہی عرصے کے بعد انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ پھر اچانک وہ وفاقی حکومت کے اعزازی ترجمان بننے میں کامیاب ہو گئے۔ پتہ نہیں ان کے پاس کون سے گیدڑ سنگھی تھی۔ کہ وہ عمران خان کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ شاید خان صاحب کو ان کا بیباک انداز گفتگو پسند آ گیا ہو گا۔ دراصل خان صاحب فیاض چوہان، فردوس عاشق اعوان اور شہبازگل جیسے منہ پھٹ عناصر کے ساتھ زیادہ کمفرٹیبل رہتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے دوران گفتگو اس بات کا کبھی لحاظ نہیں کیا۔ کہ ان کا مخاطب کوئی مرد ہے یا صنف نازک۔ وہ اپنی ہی دہن میں ٹکا کر جواب دیتے بغیر کسی شرم اور حیا کے۔ انہوں نے تہذیب اور شائستگی کے الفاظ اپنی ڈکشنری سے کھرچ کر پھینک دیے تھے۔ اسی وجہ سے وہ سیدھی بات کا بھی الٹا مطلب لیتے۔ اور دوسروں کو اپنی بدزبانی سے شرمسار کر دیتے۔ خواتین ان سے سوال کرتے وقت اکثر محتاط رہتیں۔ کہیں موصوف ہتھے سے ہی نہ اکھڑ جائیں۔

اپریل میں ایوان اقتدار سے رخصتی کے بعد عمران خان نے سازش، مداخلت اور رجیم چینج کے غبارے میں اتنی ہوا بھری۔ کہ حکومت کے ساتھ ساتھ پورا ملک سناٹے میں آ گیا۔ وہ زور دار انداز میں اور بڑی جارحیت کے ساتھ اپنا بیانیہ لے کر آگے بڑھے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے سحر میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ موصوف نے کئی قومی اداروں کو تنقید کی زد میں لیے رکھا۔ کبھی وہ نیوٹرلز کو ہدف تنقید بناتے اور کبھی چیف الیکشن کمشنر کی گوشمالی کر رہے ہوتے۔ موجودہ حکومت اور ادارے بڑے تحمل کے ساتھ ان کی تنقید برداشت کرتے رہے۔ تاکہ کسی کشیدگی اور خلفشار سے وطن عزیز کا امن خراب نہ ہو۔

لیکن ڈاکٹر شہباز گل کی متنازعہ گفتگو  نے ریڈ لائن کو عبور کر لیا تھا۔ لہذا اس کے بعد ریاست کے لیے یہ ضروری ہو چکا تھا۔ کہ وہ اپنی رٹ قائم کرے۔ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ کیوں کہ اگر اس نازک معاملے کو اگنور کیا جاتا تو ریاست کی کمزوری کا تاثر پیدا ہونے کا احتمال تھا۔

نجی ٹی وی چینل پر بھانت بھانت کی بولیاں بولتے والے اب ملک سے فرار ہو رہے ہیں۔ انٹرویو ٹیلی کاسٹ کرنے والا چینل فی الحال آف آئر کر دیا گیا ہے۔ چینل کے نیوز ہیڈ بھی سرکار کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو گئے۔ جب کہ مالکان موصوف کو معصوم ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ جیسے وہ کوئی ننھے بچے ہوں اور پیمرا کے قوانین سے مکمل ناواقف ہوں۔ شہباز گل نے جس طرح کی سیریس نوعیت کی باتیں کی ہیں۔ انہیں میوٹ کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ لیکن پروگرام کی خاتون میزبان اور ہیڈ آف نیوز دم سادھے بیٹھے رہے۔ اور شہبازگل نے بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی بات مکمل کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا۔ کہ یہ ایونٹ پری پلان تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).