ہم اس وطن میں خواہ مخواہ ہیں


میں حسب معمول آفس جانے کے لئے پینٹ شرٹ پہننے لگا تو امی نے کہا بیٹا آج جشن آزادی ہے سفید شلوار قمیض پہن کر جاؤ۔ میں نے سیف سے سفید شلوار قمیض نکلوائی اور پہن لی۔ آفس کے لئے نکل پڑا تو راستے میں دیکھا ہر طرف قومی پرچموں کی بہار تھی۔ آج کل آزادی منانے کا نیا رواج ایجاد ہو گیا ہے۔ جس دکان پر قومی پرچم فروخت ہو رہے ہوتے ہیں ساتھ بڑے سائز اور چھوٹے سائز کے باجے لازمی موجود ہوتے ہیں۔ گھر سے آفس تک آتے شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں میرے کانوں میں ان باجوں کی آوازیں نہ آئی ہوں۔

خیر چھوڑیں بچوں کا بھی ہر تہوار منانے کا اپنا الگ طریقہ اور انداز ہوتا ہے۔ آج قیام پاکستان کو 75 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ ان 75 سالوں میں 40 سال سویلین وزرا اعظم کے حصے میں آئے اور 35 سال فوجی جرنیلوں کے حصے میں آئے۔ ہر وزیراعظم کے حصے میں تقریباً اڑھائی سال بنتے ہیں جبکہ ہر فوجی حکمران کے حصے میں 9 سال آئے۔ جبکہ سویلین کے چالیس سالوں میں بھی در پردہ جرنیلوں کی ہی حکومت رہی۔ وہی اپنی مرضی سے کابینہ میں بندے شامل کرتے رہے، خارجہ امور، کشمیر، بھارت، امریکہ اور افغانستان کے متعلق پالیسی بناتے رہے ہیں۔

جو سویلین وزیراعظم جرنیلوں کی مرضی کے بغیر کوئی کام کرتا تو اس کو کک آؤٹ کر دیا جاتا رہا۔ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ پاکستان کی مقبول ترین جماعت تھی اس کے مقابلے میں کوئی دوسری جماعت اتنی مقبول نہیں تھی۔ اس وقت لیاقت علی خان کا طوطی بول رہا تھا۔ لیاقت علی خان کا بطور وزیراعظم ابھی چوتھا سال جاری تھا کہ ان کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔

جبکہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے جن کا تعلق کانگرس سے تھا 17 سال حکومت کی۔ وہ چار بار وزیراعظم منتخب ہوئے۔ ان کا انتقال اچانک ہارٹ اٹیک سے ہوا۔ پاکستان میں جرنیلوں کے غیر آئینی اقدام کو سب سے زیادہ لیگل پروٹیکشن ججوں نے دی۔ جسٹس منیر سے جسٹس ارشاد حسن تک سب ججوں نے اپنے اپنے دور میں جرنیلوں کو آئین توڑنے پر پھانسی کی سزا دینے کی بجائے ان کے دربار میں خادم بن کر نوکری کرنا بہتر آپشن سمجھا۔

آج بھی پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ بھارت میں آج تک کبھی مارشل لاء نہیں لگا کبھی کسی جنرل نے منتخب حکومت کا تختہ نہیں الٹایا۔ بھارت کا کوئی وزیراعظم پھانسی پر نہیں چڑھا کسی وزیر اعظم کو جلاوطن نہیں کیا۔ یہ سب کچھ شاید پاکستان کی قسمت میں ہی لکھ دیا گیا تھا۔ شاید جس دن ملکہ برطانیہ برصغیر سے رخصت ہوئی تو وہ جاتے ہمارے جرنیلوں کو کوئی ہدایت نامہ لکھ کر دے گئی تھی کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دینی۔

پہلے وزیراعظم کو گولی مار دی، اور ابھی تین ماہ قبل ایک وزیراعظم کو پارلیمنٹ نے نکال دیا۔ اس سے قبل دو وزرا اعظم کو عدالت نے نکال دیا۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ اس کو کہی بریک لگے گی یا نہیں۔ ہماری انہی حرکتوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ اس وقت ذوالفقار بھٹو نے شیخ مجیب کی اکثریت تسلیم نہیں کی جس کا نتیجہ بنگلادیش کی صورت میں نکلا۔ آج وہاں اسی شیخ مجیب کی بیٹی ایک عرصے سے اور کامیابی سے حکومت چلا رہی ہے۔

شیخ حسینہ واجد نے بنگلادیش کو خطے کا امیر ترین ملک بنا دیا اور پاکستان جو اس سے کئی گنا بڑا ملک ہے وہ خطے کا کنگال ترین ملک بن چکا ہے۔ آج کل پاکستان میں ایک نیا مہرہ ایسے اچھل کود کر رہا ہے جیسے پاکستان اس کے آبا و اجداد نے بنایا اور قائد اعظم اس کے دادا تھے۔ کل تک خود ملک کے سیاہ و سفید کا مالک تھا ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا تھا۔ جیسے ہی کرسی گئی اس کی نظر میں سب سیاستدان، جج، جرنیل، صحافی اور بیوروکریٹ ملک دشمن بن گئے ہیں۔

اس کے اتنے اودھم مچانے کی سب سے بڑی وجہ اس کے پیچھے ان ججوں اور جرنیلوں کی بیگمات اور بچے کھڑے ہیں جو اس کے جلسوں میں پورے پورے ٹبر کے ساتھ شریک ہوتی ہیں۔ جب تک ان بیگمات کا قلع قمع نہیں ہوتا، یہ کہی ٹک کر نہیں بیٹھنے والا۔ یا جیسے نواز شریف اور ذوالفقار بھٹو کا جو حشر کیا اس کے ساتھ بھی وہی کریں۔ قوم بھی سکون میں اور آپ خود بھی سکون میں رہے ورنہ یہ قوم کا جینا تو پہلے ہی حرام کرچکا ہے آپ لوگوں کا مزید جینا دو بھر کردے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments