چیف سکریٹری اور جی بی کا تعلیمی نظام


چیف سکریٹری گلگت بلتستان محی الدین وانی صاحب کا گلگت بلتستان میں تعلیم کے شعبہ کی زبوں حالی پر فکر مندی اور اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھانے کے عزم کا اظہار قابل قدر ہے۔ انہوں نے اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں عندیہ دیا ہے کہ ان تمام اساتذہ کو نئے سرے سے ٹسٹ انٹرویو سے گزارا جائے گا جن کے سکولوں کا رزلٹ تسلی بخش نہیں ہے۔

سکولوں کے نتائج پر تشویش بجا ہے لیکن اساتذہ کا دوبارہ ٹسٹ لینا اس کا واحد حل نہیں ہے کیونکہ ان کی طرف سے ایسے اقدامات سے بچنے اور رزلٹ اچھا لانے کے لئے آئندہ اساتذہ بچوں پر بے جا دباؤ ڈالنا شروع کریں گے جس کے مثبت نتائج آنے کی بجائے بچوں کی تعلیم اور ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ اساتذہ کی طرف سے دباؤ کے نتیجے میں بچوں کی ذہنی صحت پہلے سے شدید متاثر ہے۔

اساتذہ میں خوف پھیلانے اور ان کی عزت نفس مجروح کرنے کی بجائے ان کے سروس سٹرکچر کو ٹھیک کرنے کے علاوہ ان کو نئے انسینٹفس دے کر ایک مربوط نظام کے تحت ان کو محمکہ تعلیم کے سامنے جوابدہ بنانا ہو گا۔ اس ضمن میں اساتذہ کا احترام اور توقیر کا خیال خاص خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ وہ خوف کی بجائے درس و تدریس کے عمل کو اپنا فرض، مشن اور عبادت سمجھ کر سر انجام دے سکیں۔ اس ضمن میں اساتذہ میں کام اور محنت کی نئی روح پھونکنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو کہ ان کی خاص پیشہ ورانہ اور جدید تربیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

جہاں معاشرے کا سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہے تو اس میں قصور صرف اساتذہ کا نہیں ہے۔ ملک میں تعلیم کے لئے کتنا بجٹ رکھا جاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کی فراہمی اس نظام کی کبھی ترجیح نہیں رہی ہے۔ اساتذہ کو ایسی تربیت سے گزارا ہی نہیں گیا ہے جس کی بنیاد پر ان کی استعداد کار بڑھ سکے۔ کسی بھی شعبہ افراد سے اعلی کارکردگی کی توقع اس وقت تک نہیں رکھی جا سکتی جب تک اس کے لئے ان کو مخصوص تربیتی مراحل سے نہ گزارا جائے۔

اگر چیف سکریٹری جی بی معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کو چند بنیادی مسائل کے حل کی طرف توجہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانے کی اشد ضرورت ہے۔

1۔ اساتذہ کو جدید اور سائنسی طریقہ تدریس سے متعلق زبردست قسم کی تربیت سے گزارنا ہو گا، جو ان کو فرسودہ طریقہ تدریس کی بجائے جدید طریقہ ہائے تدریس سے روشناس کر اسکے۔ تربیت کا یہ عمل ہر سال دہرایا جائے۔ اساتذہ کی تربیت کے لئے گلگت بلتستان میں ایک جدید ادارہ کا قیام عمل میں لانا ہو گا۔

2۔ اساتذہ کا اگلے گریڈ میں ترقی کے لئے مخصوص ٹسٹ اور کورسز مکمل کرنے کی مشق سے گزارنا ہو گا۔ ہر سال بچوں کے ساتھ اساتذہ کا بھی محکمانہ امتحان یعنی اپریزلز کا اہتمام کرنا ہو گا۔

3۔ اساتذہ کی نئی بھرتیوں میں مکمل شفافیت اور میرٹ کی بالادستی کو یقینی بنانا ہو گا۔

4۔ تمام سکولوں میں بنیادی انفراسٹرکچر یعنی جدید کلاس رومز، واش رومز، لائبریری، سائنس لیب، کمپیوٹر لیب، ان ڈور اینڈ اوٹ ڈور گیمز کی سہولیات کو یقینی بنانا ہو گا۔

5۔ ہم نصابی سرگرمیوں میں لائف سکلز کے پروگرامز کو شامل کرنا ہو گا۔ جن میں ٹریفک، شہر کی صفائی، قدرتی وسائل کی حفاظت، جمہوری اقدار، ماحول کی حفاظت اور دیگر بنیادی شہری ذمہ داریوں سے متعلق قوانین کی آگاہی، سماجی خدمات کا جذبہ، غصہ پر قابو پانا، بات کرنے اور سننے کی صلاحیتوں کو ابھرنا، مہذب گفتگو اور شائستہ زبان کی مشق، زندگی میں پیش آنے والے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کو بڑھانے سمیت دیگر امور شامل ہیں۔

6۔ طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے لئے بھی بھی نظم و ضبط کی پابندی، جسمانی صفائی، لباس، مناسب زبان کا استعمال سمیت دیگر بنیادی انسانی اقدار، انسانی حقوق کی پاسداری اور پیشہ ورانہ مہارتوں کی بنیاد پر سزا و جزا کا نظام متعارف کرانا ہو گا۔

7۔ تمام غیر سرکاری سکولوں کے لئے فیس میں اضافہ کو ان سکولوں میں موجود اساتذہ کی تعلیمی قابلیت، پیشہ ورانہ مہارت، انفراسٹرکچر، جدید سہولیات اور ماہرین تعلیم کی سرپرستی سے مشروط کرنا ہو گا۔ تعلیم کو محض کاروبار بنانے کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔ نیز تمام غیر سرکاری سکولوں کو ایک ریگولیٹری اتھارٹی کے ماتحت لاکر ان کی سخت نگرانی کرنی ہوگی۔ خلاف ورزی کرنے والے سکولوں کے لائسنس منسوخ کرنے ہوں گے ۔ نیز ان سکولوں میں کم از کم اجرت کے قانون پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔

8۔ امتحانات کے فرسودہ طریقہ کار کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ گریڈز اور نمبرات کی دوڑ کی لعنت پر قابو پاکر بچوں کی صلاحیتوں کو چانچنے کے لئے جدید اور نئے طریقہ کار کو متعارف کرانا ہو گا۔ فیل کے لفظ پر پابندی عائد کر کے ہر بچے کو اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع دینا ہو گا۔ قابل اور ناقابل کے سرٹیفیکیٹس کی تقسیم کے غیر فطری اور فرسودہ روایت پر پابندی لگانی ہوگی۔ کیونکہ قدرت نے ہر انسان کو مخصوص صلاحیتوں سے نوازا ہے جن کو ایک محدود فارمیٹ کے تحت ناقابل اور قابل قرار دینا فطری قوانین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔

9۔ رٹا نظام کی حوصلہ شکنی کرنے کے علاوہ بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ابھارنے کے جدید و سائنسی طریقہ کار کو اپنانا ہو گا۔

10۔ سائنسی علوم کے حصول کو اولیت دینی ہوگی اور سائنسی نقطہ نظر کو سمجھنے کی تعلیم ابتدائی تعلیم کا حصہ بنانا ہو گا۔

11۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں ذہنی و جسمانی تشدد اور جنسی استحصال کو روکنے اور بچوں کی مکمل پروٹیکشن کے لئے چائلڈ پروٹیکشن کی ایک جامع پالیسی بنا کر اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہو گا۔

12۔ سکولوں میں بچوں اور اساتذہ کی ذہنی و جسمانی صحت کے پروگرامز متعارف کرائے جائیں۔ ہر سکول میں نفسیاتی کونسلرز اور ہر ضلع سطح پر کیریئر کونسلرز کی تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔

13۔ میٹرک تک بچوں اور خصوصاً بچیوں کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ہو گا۔ جو والدین بچوں اور بچیوں کو تعلیم نہیں دلاتے ہیں ان سے باز پرس کیا جائے۔

14۔ سکولوں میں ٹیچرز اور والدین کے درمیان رابطے کا ڈیسک قائم کیا جائے اور ہر بچہ اور ہر ٹیچر کی پرفارمنس پر سیر حاصل بات چیت کی کی روایت کو فروغ دیا جائے۔

15۔ چیف سکریٹری سمیت تمام سرکاری آفیسرز، سرکاری ملازمین، وزراء اور ممبران اسمبلی کو قائل کرنا ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرا دیں۔

16۔ صوبائی سطح پر تعلیم کے بجٹ کو کل بجٹ کے بیس فیصد سے زیادہ کرنا ہو گا۔

17۔ محمکہ تعلیم کو کرپشن، اقرباء پروری، رشوت اور دیگر بیماریوں سے پاک کرنے کے لئے ایک جدید کمپیوٹرائزڈ نظام متعارف کرانا ہو گا جس میں احتساب کے عمل کو اولیت دی جائے۔

مذکورہ سفارشات کے علاوہ ماہرین تعلیم کی مدد سے کئی دیگر اہم اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ موجودہ طبقاتی نظام تعلیم مفید، حوصلہ مند، مہذب، باکردار اور ہنر مند شہری پیدا کرنے کی بجائے ایک فرسٹریٹ نسل پیدا کر رہا ہے جس کی اکثریت معاشرے کی ترقی کی بجائے اس کی ابتری کو فروغ دیتی ہے۔ سوچنے، سمجھنے اور تحقیق کو فروغ دینے کی بجائے ڈگری ہولڈرز انتہاء پسندی اور شدت پسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ انگریزوں کے دور سے چلنے والے اس سارے طبقاتی، فرسودہ اور غیر معیاری تعلیمی نظام کو آہستہ آہستہ مکمل تبدیل کیے بغیر معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments