قائد اعظم کا اور 75 سال بعد آج کا پاکستان


قائداعظم کا تصور پاکستان آپ کی تقاریر اور ان کے مطابق کئی دہائیوں پر پھیلے آپ کے طرز عمل سے خوب ظاہر ہے۔ ان میں سے بیشتر کا ذکر آپ کی اس تقریر میں ملتا ہے جو آپ نے دستور ساز اسمبلی کے صدر کے طور پر اس کے پہلے اجلاس میں کی۔ آپ نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے مشکلات کے باوجود ریاست کو ایک سال تک ان اصولوں کے تحت انتہائی کامیابی کے ساتھ چلایا۔ یہ ایک سالہ مختصر لیکن مثالی دور بھی قائداعظم کے پاکستان کی خوب عکاسی کرتا ہے۔ افسوس کہ آج کے پاکستان میں یہ اصول متروک ہو گئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ موجودہ پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے۔ چند پہلووں سے یہ تقابل اس مضمون کا موضوع ہے۔

1۔ بنیادی حکومتی ذمہ داری

قائد اعظم کا پاکستان: فرمایا

’the first duty of a Government is to maintain law and order, so that the life, property and religious beliefs of its subjects are fully protected by the State.‘ (Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947)

ترجمہ: حکومت کی پہلی ذمہ داری قانون اور امن کا برقرار رکھنا ہے تاکہ ریاست شہریوں کی جان مال اور مذہبی عقائد کی پوری حفاظت کر سکے۔

آج کا پاکستان:جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری کی ادائیگی کا حال7 اپریل 2022 کے Pakistan Today کے مطابق یہ ہے کہ سال رواں کی پہلی سہ ماہی میں صرف کراچی میں چوری اور ڈاکا کی 11000 وارداتیں ہوئیں اور بہت سے لوگ خود حفاظتی کوششوں میں جان سے بھی گئے۔ اخبار کی رائے میں اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جرائم کی روک تھام اور شہریوں کی حفاظت میں مکمل ناکامی ظاہر ہے۔

دوسری طرف شہریوں کے مذہبی عقائد کی حفاظت کی نا گفتہ بہ صورت حال ان تازہ واقعات سے ظاہر ہے جن میں سے ایک کے مطابق پانچ شہریوں کو عید الاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور دوسرا پنجاب کی حکمراں جماعت کے ایک ضلعی رہنما کی حکومت کو خوشاب شہر کے بعض رہائشیوں کی اس جرم میں ضلع بدری کی درخواست کہ وہ ایک گھر میں نماز جمعہ ادا کرتے پائے گئے۔

2۔ رشوت ستانی اور کرپشن:
قائد اعظم کا پاکستان: فرمایا

’One of the biggest curses from which India is suffering —is bribery and corruption. That really is a poison. We must put that down with an iron hand and I hope that you will take adequate measures as soon as it is possible —to do so.‘

) Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947 (

ترجمہ: رشوت اور کرپشن ان بڑی لعنتوں میں سے ایک ہے جن میں بر صغیر گرفتار ہے۔ یہ یقیناً ایک زہر ہے۔ جسے ہمیں ایک آہنی ہاتھ سے سے کچلنا ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو گا آپ ایسا کرنے کے لئے ضروری اقدامات کریں گے۔

آج کا پاکستان: ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل کی2021 کی Corruption Perceptions Index کے مطابق پاکستان نے 100 میں سے 28 نمبر حاصل کیے ہیں۔ اور رپورٹ میں شامل 180 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 140 ہے۔ یہ انڈیکس جو کرپشن کا شمار کرتی ہے ان میں رشوت، سرکاری وسائل اور حیثیت کا ذاتی مفاد کے لئے استعمال، دفاتر میں کرپشن کے لئے جان بوجھ کر سست روی، سرکاری تقرریوں میں کنبہ پروری، کرپشن روکنے میں اپنے مفاد کے لئے حکومتی تساہل شامل ہیں۔

3۔ تجارتی بد دیانتی:
قائد اعظم کا پاکستان: فرمایا

’Black marketing is another curse. —Now you have to tackle this monster which today is a colossal crime against society, —These black-marketers —ought to be very severely punished,‘

) Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947 (

ترجمہ:چور بازاری ایک اور لعنت ہے۔ اب آپ کو اس عفریت سے نپٹنا ہو گا جو معاشرے کے خلاف ایک بھیانک جرم ہے۔ ان چور بازاروں کو سخت سزائیں دی جانی چاہئیں۔

چور بازاری کی تعریف میں، بلا حکومتی اجازت اور لاگو ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر غیر ممنوع اشیاء کا کاروبار اور وہ کاروبار جن کی اجازت ہی نہیں جیسے اسمگلنگ، منشیات، اسلحہ، ہیومن ٹریفکنگ وغیرہ سب شامل ہیں۔

ایکسپریس ٹریبیون کی 25 نومبر 2020 کی اشاعت کے مطابق 2014 سے 2018 کے درمیان پاکستان میں اسمگل شدہ اشیا ء کا حجم تین گنا بڑھ گیا تھا اور

جی ڈی پی میں اس کا حصہ3 اعشاریہ 88 فی صد سے بڑھ کر 11 اعشاریہ 25 فی صد ہو چکا تھا

الجزیرہ کی 10 اکتوبر 2014 کی یو ٹیوب ویڈیو کے مطابق پاکستان میں منشیات کا استعمال کرنے والوں کی تعداد67 لاکھ تھی جو برابر بڑھ رہی تھی۔ اس عرصہ میں افغانستان سے پاکستان پہنچنے والی سالانہ 150 ٹن ہیروئن میں سے 44 ٹن یہاں استعمال ہوئی۔

امریکہ کی 2021 کی ٹریفکنگ رپورٹ کے مطابق 2020 میں پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ کے شکار افراد کی تعداد 32022 تھی۔ جو 2019 کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھی۔

پاکستان کے تمام قابل ٹیکس کمائی کرنے والوں سے ان کی آمدنیوں پر لاگو کل ٹیکس کی وصولی ایک ایسا معاملہ ہے جو آج تک لاینحل ہے۔ ٹیکس نیٹ میں شامل افراد کی تعداد ہمیشہ ہی بہت کم رہی ہے۔ چنانچہ مارچ 2022 میں جاری کردہ ایف بی آر کی 2021 میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل افراد کی کل تعداد ملک بھر میں صرف 28 لاکھ 80 ہزار کے لگ بھگ تھی۔

آمدنی پر ہر ایک سے واجب ٹیکس کی وصولی کی سب حکومتی کوششیں مفادات، احتجاج اور مظاہروں کے ہاتھوں ناکام ہوتی رہی ہیں۔

4۔ اقربا پروری اور بدعنوانی:

قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا

’the evil of nepotism and jobbery— must be crushed relentlessly. I want to make it quite clear that I shall never tolerate any kind of jobbery, nepotism or any influence directly or indirectly brought to bear upon me. Wherever I will find that such a practice is in vogue, or is continuing anywhere, low or high, I shall certainly not countenance it.‘

) Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947 (

ترجمہ:اقربا پروری اور بد عنوانی کی برائی کو بے رحمی سے کچلنا ہو گا۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کی بد عنوانی یا اقربا پروری اور کسی اثر رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی برداشت نہیں کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلیٰ سطح پر ہو یا ادنیٰ سطح پر یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔

یہ اہلیت کی بنیاد پر حکومت چلانے کا اعلان تھا۔ اور بظاہر اس قرآنی حکم کے تابع تھا کہ
ترجمہ:یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو۔ ) النساء4:59 (

عملاً بھی آپ نے اپنا یہی طریق رکھا اور قطع نظر کسی فرد کے عقیدہ اور زبان و نسل کے قائد اعظم نے ہمیشہ ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں جو اس کے اہل تھے۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے انہوں نے دس افراد پر مشتمل جو پہلی وفاقی کابینہ تشکیل دی اس میں لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، غلام محمد، سردار عبدالرب نشتر، سر ظفر اللہ خان، غضنفر علی خان، جوگندر ناتھ منڈل، فضل الرحمان، خواجہ شہاب الدین اور پیرزادہ عبدالستار جیسے نیک نام اور اہل لیڈر شامل تھے۔ قائداعظم نے یہ کابینہ میرٹ اور صرف میرٹ پر تشکیل دی اور کسی کا غیر مسلم یا احمدی ہونا یا اس کا مختلف زبان بولنا یا علاقے سے ہونا کوئی روک نہ بنا۔

اہلیت کی بنیاد پر ہی قائد اعظم اس سے پہلے ایک احمدی چوہدری ظفراللہ خان صاحب کو باؤنڈری کمیشن میں مسلم لیگ کا وکیل اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے وفد کا سربراہ مقرر فرما چکے تھے۔

آج کا پاکستان:آج اس کے برخلاف عام مشاہدہ کے مطابق حکومتی عہدیداروں کے تقرر میں سب سے اول عقیدہ اور پھر قرابت داری، تعلقات، سفارش اور مفاد درجہ بدرجہ اہمیت اور وزن رکھتے ہیں۔ جبکہ اہلیت کا ہونا یا نہ ہونا اکثر غیر متعلق ہوتا ہے۔ سول اور فوجی اعلی عہدوں پر تقرری اور ترقی میں بھی ملازمین کے عقیدے کو عملاً اہلیت پر فوقیت دی جاتی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل عالمی شہرت رکھنے والے ایک پاکستانی معیشت دان کو محض اس عقیدہ کے سبب حکومتی ذمہ داری دیے جانے کا اعلان واپس لے لیا گیا تھا۔

5۔ عوام الناس کی فلاح و بہبود

قائد اعظم کا پاکستان: دہلی میں مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کے اجلاس منعقدہ 6 نومبر 1944 سے خطاب میں فرمایا:

1۔ ’ہمارا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ مالدار لوگ زیادہ مالدار ہو جائیں اور دولت چند ہاتھوں میں اکٹھی ہو جائے۔ ہمارا مطمع نظریہ ہونا چاہیے کہ عوام کے معیار زندگی کے درمیان فرق دور کریں۔ ہمارا نصب العین اسلامی معیشت ہونا چاہیے نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام‘ ۔

2. ’Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people and especially of the masses and the poor.‘

) Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947 (

ترجمہ:اب اگر ہم ریاست پاکستان کوایک خوشحال ملک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں مکمل طور پر لوگوں اور خاص طور پر عوام اور غربا کی بہبود پر توجہ دینی چاہیے۔

آج کا پاکستان:

ورلڈ بینک کے اندازہ کے مطابق 2020۔ 2021 میں پاکستان میں غربت کی شرح 39اعشاریہ 3تھی۔ اس کا مطلب تقریباً 40 فی صد آبادی کا غربت کی لکیر پر یا اس سے نیچا ہونا ہے۔ غربت بنیادی انسانی ضروریات خوراک، لباس اور رہائش کا نہ ہونا یا ناکافی ہونا ہے۔ مختصراً غربت بھوک ہے۔

اسی کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا غریب ہونا ایک المیہ ہے۔ خطرہ ہے کہ جولائی 2022 میں مہنگائی کی سالانہ شرح کا 25 فی صد تک پہنچ جانا ملک میں غرباء کی تعداد میں اور بھی اضافہ کا باعث ہو گا۔

ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ خرچ آمدنی سے زیادہ ہے۔ ادائیگیوں کا توازن بگڑا ہوا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم، چینی، خوردنی تیل امپورٹ کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ان لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو مسلسل ناجائز ذرائع سے اپنے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز کر رہے ہیں اور اس کی نمائش کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

6۔ سب شہری برابر
قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا

’If you —work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs,—no matter what is his color, caste or creed is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges and obligations, there will be no end to the progress you will make.‘

) Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947 (

ترجمہ:اگر آپ مل کر اس جذبہ سے کام کریں گے کہ ہر ایک قطع نظر اس کے کہ وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتا ہو، اس کا کوئی بھی رنگ، برادری یا عقیدہ ہو وہ برابری کے حقوق، سہولیات اور فرائض کے ساتھ پاکستان کا پہلا، دوسرا اور آخری شہری ہے تو

اس ترقی کی کوئی حد نہ ہوگی جو آپ حاصل کر سکتے ہیں۔
آج کا پاکستان:

آج جس طرح ملکی آبادی عقیدہ، برادری، زبان، رہائشی صوبہ اور اس میں مزید شہری اور دیہاتی کی تفریق کا شکار ہے سب کے سامنے ہے۔ اور اس کے لازمی نتیجہ کے طور پر وہ ترقی معکوس بھی جس کا اظہار عالمی اداروں کے کسی بھی جہت سے بنائے گئے

اشاریے ہیں جن میں سے ہر ایک میں پاکستان صف آخر کے ملکوں میں نظر آتا ہے۔
7۔ ریاست کا شہریوں کے مذہب سے لا تعلق ہونا:
قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا

You are free; you are free to go to your temples. You are free to go to your mosques or to any other places of worship in this State of Pakistan. You may belong to any region or caste or creed –that has nothing to do with the business of the State.—

We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State.

Now, I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual but in the political sense as citizens of the state.

(Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947)

ترجمہ:آپ آزاد ہیں۔ اس ریاست پاکستان میں آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لئے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مساجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے۔ آپ کا کسی بھی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔

ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے برابر کے شہری ہیں۔

میرے خیال میں ہمیں اسے اپنے مطمح نظر کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور آپ دیکھیں گے کہ وقت کے ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں۔ مذہبی طور پر نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی طور پر ریاست کے شہری ہونے کے ناتے۔

ریاست کے بارے میں اپنے اس نظریہ کے اظہار سے پہلے بھی قائد اعظم نے عملاً ہمیشہ سیاست کو مذہب سے الگ رکھا۔ اخبار نوائے وقت 10 اکتوبر 1953 کے مطابق 1944میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں یہ کوشش کی گئی کہ یہ قانون بن جائے کہ کوئی احمدی مسلم لیگ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ کافی حمایت بھی حاصل کر لی گئی تھی لیکن خود قائد اعظم نے مداخلت کر کے یہ قرار داد واپس لینے پر آمادہ کر لیا۔

آج کا پاکستان:قائد اعظم کی اس سوچ کے برعکس پاکستان میں ریاست نے شہریوں کے عقائد سے تعلق جوڑے رکھا۔ قرار داد مقاصد سے آغاز ہوا۔ پھر 1974 میں دینی اور قانونی حدود سے تجاوز کر کے آئین کی دوسری ترمیم کے ذریعہ آبادی کی ایک حصہ کے مذہبی تشخص کا فیصلہ بھی ریاست کا اختیار ہو گیا۔ بعد میں مزید ردہ رکھتے ہوئے 1984 میں ایک آرڈینینس کے تحت اس جماعت کو اپنے عقیدہ کے اظہار، عمل اور اشاعت کو قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا۔ ریاست کے مذہب سے اس تعلق کا یہ بد نتیجہ بھی نکلا کہ اب کسی شہری کا شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور بوقت نکاح اپنے مسلم ہونے کا اقرار بھی قانون کی نظر میں اس وقت تک قابل اعتبار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ باوجود با علم ہونے کے غلط بیانی سے اتہام لگا کر ایک جماعت کے پیشوا پر زبان درازی نہیں کرتا۔

8۔ بلا امتیاز انصاف اور غیر جانبداری
قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا

’1. I shall always be guided by the principles of justice and fair-play without any— prejudice or ill-will, in other words, partiality or favoritism. My guiding principle will be justice and complete impartiality.‘

(Presidential Address to the Constituent Assembly of Pakistan on 11th August, 1947)

ترجمہ:میں ہمیشہ انصاف کے اصول پر قائم رہوں گا۔ یعنی کسی تعصب، بغض یا دوسرے لفظوں میں جانبداری اور ترجیح کے بغیر میرا رہنما اصول سب کے ساتھ انصاف اور مکمل غیر جانبداری رہے گا۔

’He wanted the law to be supreme and wanted to see justice dispensed without fear or favour.‘ 2.

(Whither Quaid ’s Vision, in The Jinnah Anthology, compiled & edited by Liaquat H. Merchant &Sharif Al Mujahid, Page 196, Oxford University Press, 2009)

ترجمہ: قائد اعظم پسند کرتے تھے کہ قانون بالا رہے اور یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ بلا کسی خوف یا جانبداری کے سب کو انصاف ملے۔

قرآنی طریق حکومت بھی انصاف ہی ہے جیسا کہ فرمایا:
ترجمہ:اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ ) النساء4:59 (

آج کا پاکستان:دی ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی قانون کی حکمرانی پر 2021 کے لئے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 139 ملکوں میں سے پاکستان کا نمبر 130 ہے۔ پروجیکٹ کے طریق کار اور اس کے نتیجہ سے قطع نظر ملک میں انصاف ملنے میں دشواریوں اور تاخیر سے ہر وہ شخص واقف ہے جسے اس رائج نظام عدل سے واسطہ پڑتا ہے۔ کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر، انصاف کا نہ ملنا ہے۔ جون 2021 میں جیو ٹی وی کی ایک خبر کے مطابق اس وقت ملک کی اعلی اور ماتحت عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی تعداد 2,159,655 تھی۔ جبکہ ان ججز کی تعداد جو ان مقدمات کو سن رہے تھے یا سنیں گے صرف 3,067 تھی۔ اس طرح ہر جج کے پاس 704 کیس تھے۔ اگرچہ مقدمات کئی کئی نسلوں تک بھی چلتے ہیں لیکن اگر بالفرض ایک مقدمہ اوسطاً ایک سال میں فیصل ہو جاتا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ ان سب مقدمات کا فیصلہ اگلے 700 سالوں میں متوقع ہے۔

جہاں تک سب کے ساتھ برابر کے انصاف کا تعلق ہے تو اس کا حال ان مقدمات سے خوب ظاہر ہے جن میں کتنے ہی جرم بے گناہی میں سزائیں بھگت رہے ہیں یا ضمانت نہ ہو سکنے کے سبب سالہا سال سے اسیر ہیں۔

9۔ مذہبی رواداری:
قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا

’1. Islam stands for justice, equality, fair play, toleration and even generosity to non-Muslims who may be under our protection. They are like brothers to us and would be the citizens of the State.) ‘ Address at The Muslim University Union, Aligarh,2 November, 1941 (

ترجمہ: اسلام اپنے ذمہ تمام غیر مسلموں کے لئے انصاف، برابری، یکساں سلوک، برداشت بلکہ فیاضی کا ضامن ہے۔ وہ ہمارے لئے بھائیوں کی طرح ہیں ریاست کے شہری ہوں گے۔

2۔ 14جولائی 1947 کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں فرمایا:

2۔ ’اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے گا ان کا تعلق خواہ کسی فرقے سے ہو۔ ان کا مذہب یا دین یا عقیدہ محفوظ ہو گا۔ ان کی عبادت کی آزادی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ انہیں اپنے مذہب، عقیدے، اپنی جان اور اپنے تمدن کا تحفظ حاصل ہو گا۔ وہ بلا امتیاز ذات پات اور عقیدہ ہر اعتبار سے پاکستان کے شہری ہوں گے‘ ۔

3۔ 19 فروری 1948 کو آسٹریلیا کے عوام سے اپنے نشری خطاب میں قائد نے فرمایا:

’ پاکستان میں کوئی نظام پاپائیت رائج نہیں ہے۔ اس طرح کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اسلام ہم سے دیگر عقائد کو برداشت کرنے کا تقاضا کرتا ہے اور ہم اپنے ساتھ ان لوگوں کے گہرے اشتراک کا پر تپاک خیر مقدم کرتے ہیں جو خود پاکستان کے سچے اور وفادار شہریوں کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے آمادہ اور رضا مند ہوں‘ ۔

4۔ فروری 1948 میں امریکی عوام سے نشری خطاب میں فرمایا:

’مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ بہر نوع پاکستان ایک ایسی مذہبی مملکت نہیں ہوگی جس پر علماء ایک خدائی مشن کے ساتھ حکومت کریں۔ غیر مسلم ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں لیکن وہ سب پاکستانی ہیں۔ انہیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو کسی اور شہری کو حاصل ہو سکتی ہیں اور وہ امور پاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کرسکیں گے۔ ‘

آج کا پاکستان: انسانی حقوق پر نظر رکھنے والے عالمی اداروں کی ہر سال کی رپورٹ میں ملک کی غیر مسلم اقلیتوں، عیسائی، ہندو، سکھ سے ترجیحی سلوک کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مشکلات کا بیان ہوتا ہے۔ ملکی میڈیا میں بھی آئے دن اقلیتی جماعتوں کے افراد، ان کے گھروں اور عبادت گاہوں پر مسلح حملے، ان کی عورتوں کی تبدیلی مذہب اور جبری شادیاں اور توہین مذہب کے قوانین کے تحت ان پر مقدمات کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حالات سازگار نہ پاتے ہوئے گزشتہ دہائیوں میں بڑی تعداد میں اقلیتی آبادی کی نقل مکانی بھی اس پر شاہد ہے۔

10۔ اتحاد، تنظیم اور ایمان
قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا
’Never forget our motto ”Unity, Discipline and Faith‘ .
) Speech from Radio Pakistan,Lahore,30 October, 1947 (
ترجمہ: اتحاد، تنظیم اور ایمان کے اصول عمل کو کبھی فراموش نہ کرنا

آج کا پاکستان:عقیدے، زبان، ذات اور رہائشی صوبے کی بنیاد پر پر گروہوں میں بٹے ہوئے، قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار نہ کر سکنے والے اور دین کا علم نہ رکھنے کے سبب اپنے بچے کے کان میں اذان دینے سے جنازہ پڑھوانے تک پیشہ وروں کے محتاج اور جعلی پیروں، فقیروں اور مذہب کا کاروبار کرنے والوں کے پیچھے لگے ہوئے یہ عوام آج اپنے عمل سے ثابت کر رہے ہیں کہ قائد نے اتحاد، تنظیم اور ایمان کے جن اصولوں کو کبھی نہ بھولنے کی نصیحت کی تھی وہ انہیں مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔

11۔ انسانی مساوات، معاشرتی انصاف اور انسانی حقوق میں برابری:
قائد اعظم کا پاکستان:فرمایا

1. ’Brotherhood, equality and fraternity of man—these are all the basic points of our religion, culture and civilization. And we fought for Pakistan because there was a danger of denial of these human rights in this sub-continent.‘

(Address to Public Reception,Chittagong, 26 March, 1948)

ترجمہ: انسانی اخوت مساوات اور بھائی چارہ ہمارے مذہب ثقافت اور تہذیب کے بنیادی نکات ہیں اور ہم نے پاکستان کے لئے جدوجہد اس لیے کی کہ برصغیر ہندوستان میں ان انسانی حقوق کو خطرہ لاحق تھا۔

2۔ 1 جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر تقریر میں فرمایا:

’انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے حقیقی اسلامی تصور پر مبنی ایک معاشی نظام دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم بحیثیت مسلمان اپنے مشن کو پورا کریں گے اور انسانیت کو امن کا پیغام دیں گے جو اکیلا ہی اسے بچا سکتا ہے اور انسانیت کی فلاح و بہبود، خوشحالی اور معاشی ترقی کو محفوظ بنا سکتا ہے‘

قائد اعظم کا پاکستان میں انسانی مساوات کے قیام کا یہ عزم غالباً مدینہ کی اس پہلی اسلامی ریاست کے تتبع میں تھا جس کے میثاق میں مہاجر اور انصار مسلمانوں کے ساتھ، مدینہ کے مشرکین اور یہود کو بھی برابری کی بنیاد پر شامل کیا گیا۔ بطور مثال اس میثاق کی ایک شق یہ تھی:

’ 19۔ قبیلہ بنی عوف کی یہود بھی اس معاہدہ میں شامل ہیں۔ اگرچہ مسلمان اور یہودی ہر ایک اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا مستحق ہو گا لیکن مشترکہ مقاصد میں دونوں ایک جماعت کے حکم میں داخل ہوں گے‘ ۔ (حیات محمدﷺ از محمد حسین ہیکل مترجم ابو یحییٰ امام خان صفحہ 269 ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور طبع نہم اپریل 2002)

آج کا پاکستان:انسانی مساوات، معاشرتی انصاف اور انسانی حقوق میں برابری کے ان سنہری اصولوں پر پاکستان میں جس حد تک عمل ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ عملاً یہ سب نہ ہونے کے برابر ہیں۔ برابری کا سلوک اپنے جیسوں کے ساتھ تو ہے لیکن حیثیت میں کم والے عزت و احترام برابری تک نہیں پہنچتے اور کم درجہ ہی شمار ہوتے ہیں۔ بے حسی اور خود غرضی معاشرے کا عام مزاج ہے اور دوسروں کے لئے ایثار و قربانی مستثنیات میں سے ہیں۔ انصاف کی پلہ طاقتور کی طرف جھکا رہتا ہے۔ اور سارے حقوق بھی اسی پیمانے سے ملتے ہیں۔ نتیجہ میں ملک میں خوشحالی اور معاشی ترقی بھی اسی کے بقدر ہے۔

12۔ بیوروکریسی کی حدود:

قائد اعظم کا پاکستان:آپ نے 14 اپریل 1948 کو گورنمنٹ ہاؤس پشاور میں سول افسروں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے فرمایا:

’ پہلی بات جو میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاستدان کے سیاسی دباؤ میں نہیں آنا چاہیے۔ اگر آپ پاکستان کے وقار اور عظمت کو بڑھانا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنا فرض منصبی عوام اور ملک کے خادم بن کر بے خوفی اور دیانتداری کے ساتھ سر انجام دینا چاہیے۔ عمال حکومت، ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں۔ حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں، وزرائے اعظم اور وزراء آتے جاتے رہتے ہیں لیکن آپ حسب معمول برقرار رہتے ہیں اور اس کے لئے آپ پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

یہ سیاسی جماعت یا وہ سیاسی جماعت، یہ سیاسی رہنما یا وہ سیاسی رہنما اس سے آپ کو کچھ سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ آپ کا کام ہے ہی نہیں۔ آئین کے تحت جو بھی حکومت بنتی ہے اور جو کوئی بھی معینہ آئینی راستوں سے وزیر اعظم یا وزیر بن کر آتا ہے آپ کا فرض نہ صرف یہ ہے کہ آپ حکومت کی فرمانبرداری اور وفاداری کے ساتھ خدمت کرتے رہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ شہرت، اپنے وقار، اپنی عزت اور اپنی ملازمت کی نیک نامی کو بھی برقرار رکھیں۔ اگر آپ اس عزم کے ساتھ آغاز کریں گے تو آپ ہمارے تخیل اور ہمارے خوابوں کے مطابق پاکستان یعنی ایک پرشکوہ مملکت کی اور دنیا کی عظیم ترین قوموں میں سے ایک قوم کی تعمیر میں بہت بڑا کردار ادا کرسکیں گے۔ ‘

آج کا پاکستان:آج کی بیوروکریسی کس حد تک قائد اعظم کے اس فرمان پر عمل کر رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ خود حکومتیں بھی بیوروکریسی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بڑے پیمانے پر رد و بدل اسی غرض سے ہوتا ہے۔ اسی سبب بڑے بڑے بیوروکریٹ وقت کے ساتھ احتساب کا سامنا کرتے ہیں۔ اور پاکستان کو ایک پر شکوہ مملکت بنانے کے خواب بدستور ادھورے چلے جاتے ہیں۔

13۔ فوج کا کردار:

قائد اعظم کا پاکستان:آپ نے 14 جون 1948 کو اسٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں کو آئینی حلف پڑھ کر سنایا اور ان کی آئینی حدود بتاتے ہوئے فرمایا:

’I should like you to study the Constitution— and understand its true constitutional and legal implications when you say that you will be faithful to the Constitution of the Dominion.

I want you to remember …that the executive authority flows from the Head of the Government of Pakistan, who is the governor-general and, therefore, any command or orders that may come to you cannot come without the sanction of the Executive Head. This is the legal position. ’

ترجمہ: میں چاہتا ہوں کہ آپ آئین کا مطالعہ کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ جب آپ ملک کے آئین سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں تو اس کے حقیقی آئینی اور قانونی مضمرات کیا کیا ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس بات کو یاد رکھیں کہ اصل اختیار حکومتی سربراہ کے پاس ہے جو کہ گورنر جنرل ہے۔ اور آپ کے پاس کوئی قابل عمل حکم اس سربراہ کی منظوری کے بغیر نہیں آ سکتا۔ قانون یہی ہے۔

آج کا پاکستان: قائد کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا گیا جس کا یہ نتیجہ ہے کہ پاکستان میں تیس سال سے زیادہ عرصہ فوج کے چیف براہ راست سربراہ حکومت رہے ہیں۔ اور بالواسطہ یہ حکومت کسی نہ کسی شکل میں تو شاید ہمیشہ رہی ہے۔

14۔ حاصل کلام:

قائد اعظم کے سامنے پاکستان کے لئے اعلی اصولوں پر مشتمل ایک واضح دستور عمل تھا جن پر عمل کے نتیجہ میں پاکستان کے روشن مستقبل اور اقوام عالم میں ایک اونچے درجہ کے خواب ان کی آنکھوں میں بسے ہوئے تھے۔ جن کا وہ بار بار اظہار بھی کرتے۔ اپنے ایک سالہ دور میں انہوں نے ان اصولوں پر عمل کر کے بھی دکھایا۔ انہوں نے اہل اور فرض شناس افراد کی ایک چھوٹی سی کابینہ سے کام چلایا۔ سادگی کو رواج دیا۔ کابینہ کے اجلاسوں میں چائے کا ایک کپ بھی پیش نہ ہوتا۔

انہوں نے قومی خزانے کو عوام کی امانت سمجھ کر خرچ کیا رات کو سونے سے پہلے گورنر جنرل ہاؤس کی فالتو بتیاں بجھا دیتے۔ انہوں نے کسی پروٹوکول کے بغیر قانون کا عملی احترام کیا ریلوے کی ٹرین کے گزرنے کا انتظار کیا اور ریلوے کا پھاٹک کھلوا کر آگے جانے سے انکار کیا۔ انہوں نے گورنر ہاؤس میں اپنے اوپر ہونے والے معمولی خرچ کو بھی خود ادا کیا۔ قائد اعظم نے اپنی محنت کی کمائی کے ساتھ بنائی جائیدادیں اور اثاثے فلاحی اور تعلیمی اداروں کو وقف کر دیے۔ انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے ان تھک محنت کی اور وفات تک اپنے فرائض ادا کرتے رہے۔

یہ بد قسمتی ہے کہ بعد میں آنے والوں ان اعلی روایات کو قائم رکھنے کے بجائے ان کے برعکس راہوں کو اختیار کیا۔ حکومت کو حصول منفعت کا ذریعہ سمجھا اور اس غرض سے ہر بے اصولی کو راہ دی۔ کنبہ پروری کی۔ کرپشن خود بھی کی اور دوسروں کو بھی اس کا موقعہ دیا۔ عوام کی فلاح و بہبود کا ہمیشہ نظر انداز کر کے اسے آخری ترجیح پر رکھا۔ بے انصافی کا راستہ اپنایا۔ قانون صرف مجبور اور بے کسوں کے لئے رہ گیا اور سب طاقتور اس کی پہنچ سے باہر رکھے گئے۔ اور یوں انصاف کا خون کیا۔ جبکہ انصاف ہی وہ واحد طریق ہے جو قوموں کو ترقی کے راستوں پر گامزن کرتا ہے۔

قائد کے فرمودات سب کے لئے تھے لیکن کسی نے ان پر عمل نہ کیا۔ مقننہ، عدالتیں، حکومتیں، بیوروکریسی، فوج اور عوام سب نے ان کو پس پشت ڈالے رکھا۔ آج سب نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ اگر اب بھی ایک عزم کے ساتھ قائد کی بتائی ہوئی راہوں کو اختیار کیا جائے تو ان کے کرچی کرچی خواب پھر زندہ ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments