آزادی سے حقیقی غلامی کی جانب سفر


سات دہائیوں پہلے ہمارے مورث اعلیٰ کی انتھک کاوشوں اور لازوال قربانیوں کے بعد کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے ایک ایسی اسلامی مملکت کا حصول ممکن بنا ’جو ہر طرح کی ذلت و رسوائی، رجس و نجس، اسارت و محکومی سے پاک تھی۔ چودہ اگست یہی وہ خوش نصیبی کا دن تھا کہ مسلمانان ہند نے غلامی کی رسن کو توڑ کر حقیقی آزادی کی جانب پا بہ رکاب ہوئے تھے اور ان کی دلی حسرت کے مطابق وہ پاک سر زمین کو ایک ایسی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے جہاں پر وہ اسلام کے سنہرے اصولوں کو آزما سکیں۔

آج ملک بھر میں پچھترواں یوم آزادی منا رہے ہیں لیکن اس تلخ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہم جسمانی غلامی سے نکل کر ذہنی غلامی میں داخل ہو چکے ہیں۔ آزادی کو حاصل کیے کئی برس بیت گئے ’لیکن آج بھی ہم برطانوی اور انڈین روایات کے آگے مرعوب ہیں۔ جب ہم اپنے وطن عزیز کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام، صحت کا نظام، بنکاری نظام، پولیس کا نظام، ہمارا کردار، ہماری زبان، ہمارا گفتار، ہمارا اخلاق، ہمارے رویے، ہمارا رہن سہن، ہمارے مزاج، ہمارے انداز، ہمارے کھانے پینے، ہمارے پہناوے، شادی بیاہ، آداب غرض ہر ہر چیز اور ہر ہر عمل میں برطانیہ اور انڈین کفریہ روایات کا بھرپور جھلک نظر آتا ہے جبکہ اسلامی اصول و ضوابط کا نفاذ مدہم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی بنیاد لا الٰہ الا اللہ پر رکھی گئی ہے‘ مگر ہم نے غیر اسلامی روایات کو ”لا“ کہنے کے بجائے ان کے آگے تسلیم رضا ہو گئے ہیں۔

لہو برسا، بہے آنسو، لٹے رہرو، کٹے رشتے
ابھی تک نامکمل ہے مگر تعمیر آزادی

ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ اپنے ہی دیش میں وڈیروں، نوابوں، سرداروں، جمہوری مداریوں، آمروں اور افسر شاہی کی طلسمات میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ کہی روٹی، کپڑا، مکان کے نعرے لگا کر اقدار پر براجمان ہونے والے سیاسی نوسر بازوں، دغا بازوں، سودا بازوں، خائضین، شائقین، لائعبین اور لٹیروں کی سراب میں آ گئے ہیں۔ گویا ہمیں غلامی کی زنجیروں سے ازحد پیار ہو گیا ہے اور ہم نے غلامی کے پھندے کو گلے کا ہار بنا لیا ہے۔ غلامی کی اسی کیفیت کو مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے زبور عجم میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے۔

در غلامی تن ز جاں گرد تہی
از تن بے جاں چہ امید بہی
غلامی میں جسم روح سے خالی ہو جاتے ہیں، اور بے روح جسم سے کیا امید کی جا سکتی ہے؟ مزید فرماتے ہیں۔
از غلامے لذت ایمان مجو
گرچہ باشد حافظ قرآن مجو
مومن است و پیشۂ او آزری ست
دین و عرفانش سراپا کافری ست

اگر ایک غلام حافظ قرآن بھی ہو تو اس سے لذت ایمان کی توقع نہ کرو۔ وہ کہنے کو تو مسلمان ہے، مگر دراصل وہ بت گر ہے اور اس کا دین اور عقل سراپا کفر ہے۔

ہمیں اعتراف کرنا ہو گا کہ صرف 14 اگست والے دن جھنڈیاں لگا کر، آتش بازی اور ریلیاں نکال کر دل بہلا رہے ہیں۔ ہمارے آبا و اجداد کی قربانیاں اور حصول پاکستان کا مقصد و ہدف مفقود نظر آتا ہے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں جب تک پاکستان کی پاک سرزمین بیرونی استبدادی، استکباری و شیطانی قوتوں اور اندرونی مافیاز کی بالادستی سے نجات حاصل نہیں کرے گی تب تک خاکم بدہن آزادی کا یہ کارواں حقیقی اسارت و غلامی کی جانب محو سفر رہے گا۔

کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments