پبلک ٹوائلٹس پر گفتگو کرنا ہمارا ناپسندیدہ موضوع کیوں ہے؟


پروفیسر صاحب شہری منصوبہ بندی کی ایک کلاس پڑھا رہے تھے۔ سامنے پندرہ بیس طلباء متوجہ تھے۔ ہمارے شہروں کے کیا مسائل ہیں؟

ان کی طرف سے سوال پوچھا گیا جس پر اس طرح کے جواب جماعت کے ہر طرف سے آنے لگے۔ ہاؤسنگ، ماحولیاتی آلودگی، پبلک ٹرانسپورٹ، سولڈ ویسٹ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن ایک خاتون طالب علم نے جواباً برملا کہا کہ پبلک ٹوائلٹس کی فراہمی اور کوالٹی۔ ساری کلاس گردنیں موڑ کر اس کو حیرانی، ناپسندیدگی، تنبیہی اور مستفر نظروں سے دیکھنے لگی۔ مگر وہ اپنے نکتہ نظر پر قائم رہی۔ کیونکہ سبھی خواتین طلباء میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس کی طرح دور دراز علاقے سے اس جامعہ میں آیا تھا۔ جس کے لئے اسے چھ گھنٹوں کا سفر ایک طرف کا کرنا پڑتا تھا۔ گھر سے بس اڈے پر پہنچنے تک یہی خوف رہتا تھا کہ اگر بس دیر سے آئی اور اس دوران لیٹرین استعمال کرنی پڑی تو وہ کیا کرے گی۔

اس مسئلے کا حل تو اس کے والد کے پاس بھی نہ ہوتا۔ سوائے اس کے کہ یا برداشت کرو یا کسی کونے میں برائے نام، بدبو دار ٹوائلٹ کے نام پر جو جگہ مردوں کے لئے بنی ہوئی ہے، اسے استعمال کرو۔ جس میں وہ خود بھی بہت ناگزیر حالت میں جاتے۔ اور یہ حال راستے میں جہاں جہاں بس دوسرے شہروں میں رکتی، کم و بیش ہوتا۔ یا ٹوائلٹ ہے ہی نہیں اور اگر کسی جگہ یہ عیاشی میسر بھی ہے تو صرف مردوں کے لئے۔ اور اس کی صفائی کا تو نہ ہی پوچھیں۔ تو اس ساری ان چاہی مشکل سے بچنے کے لئے اس نے جس دن جامعہ سے گھر اور گھر سے واپس یونیورسٹی جانا ہوتا تو وہ سارا دن کھانا پینا ہی چھوڑ دیتی۔

اور ان میں سے کسی کی ماں کو شوگر کا مرض نہیں تھا جو اس بیماری کے بعد سے پاس کے بازار میں بھی نہیں جا پاتی تھیں کہ ادھر حاجت ہوئی، ادھر مصیبت شروع۔ اور اس بیماری میں تو ویسے بھی کنٹرول نہیں رہتا۔ اور پورے بازار میں پبلک ٹوائلٹس کا ملنا محال۔ وہ خود تو تکلیف سہتیں، ساتھ جانے والے بھی اذیت برداشت کرتے۔ اس لئے انھوں نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا۔

اور اسے تو اپنی وہ جاننے والی بھی یاد آ رہی تھیں جو پچھلے دس سال سے فالج زدہ بستر پر ہیں۔ گزشتہ سالوں میں اس بیماری نے اسے گردوں کے مرض میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ ہر وقت کی محتاج ہوں۔ سہارے سے اٹھ کر خو بیٹھ جاتیں۔ ڈنڈے کے سہارے چل لیتیں۔ اپنا کھانا خود کھاتیں۔ مسئلہ تو تب بنتا جب ان کے طبی معائنے کے لئے دوسرے شہر لے جانا پڑتا۔ تین گھنٹے کے سفر میں دو دفعہ انھیں لیٹرین جانا ہوتا۔ انگریزی کموڈ کی ضرورت ہوتی۔ لیکن انھیں تو انڈین کموڈ بھی سارے راستے نہ ملتا۔ مردوں کے لئے بنے گندے واش رومز میں وہ جانا پسند نہ کرتیں کہ بلا کی صفائی پسند تھیں۔ اس لئے مجبوری کا نام شکریہ، ہر ڈرائیو میں گاڑی کی صرف ان کے موبائل کرسی ٹائپ کموڈ کے لئے مختص ہوتی۔

چلو یہ واقعات تو دس پندرہ سال پرانے ہیں۔ نہ ہونے کے کئی بہانے تراشے جا سکتے ہیں۔ وہی وسائل کی کمی وغیرہ۔ لیکن اس کی طالبہ جو اب خود بھی پروفیشنل بن چکی ہے، کا سوال تو ادھر ہی منہ چڑاتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اس کے ہاں مہمان لڑکی آئی۔ ساتھ تین سال کا بچہ بھی تھا۔ جس کا بغیر پیمپر کے پہلا سفر شہر کے باہر تھا۔ بتاتی تھیں کہ سارا راستہ دعائیں کرتی رہی کہ اس کو واش روم نہ جانا پڑے۔ خیر بخیریت اڈے سے میٹرو پر میرے گھر آنے کو اترے تو پوچھا کہ بیٹا ٹوائلٹ جانا ہے اور دل میں ڈرتی رہی کہ ہاں ہی نہ کہہ دے۔ ورنہ کہاں لے جاؤں گی۔ میٹرو سٹاپ پر ٹوائلٹس تو تھا لیکن نجانے قابل استعمال ہوتا کہ نہیں؟ ادھر بچے نے نہ میں سر ہلایا، ادھر میں نے سکون کا سانس لیا۔

آج ہمارا پچھترواں یوم آزادی ہے۔ یعنی ساڑھے سات دہائیاں۔ اور میں ابھی بھی اتنے بنیادی مسئلے پر بات کر رہی ہوں۔ پاکستان کے اندرون سندھ، کے پی کے، بلوچستان، چولستان اور پنجاب کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ٹوائلٹس ہیں ہی نہیں۔ دور کھیتوں میں جانا پڑتا ہے۔ اور مرد حضرات تو اس کا بھی تکلف نہیں کرتے۔ جہاں دل ہو وہیں بیٹھ جاتے ہیں۔ بھلے راہ چلتی سڑک ہو یا گلی محلے۔ اور ان کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔ ہمارے ہاں بازاروں، سفری قیام گاہوں، تاریخی و تفریحی مقامات، گورنمنٹ دفاتر، ریسٹورنٹ یہاں تک کہ مساجد میں بھی ٹوائلٹس کے حالات نہ گفتہ بہ ہیں۔ بھلے وہ فیصل مسجد اسلام آباد ہی کیوں نہ ہو۔

اور ہم نے خود سے ہی سمجھ لیا ہے کہ گھر سے باہر ٹوائلٹس کی ضرورت صرف مردوں کو ہے۔ خواتین اس سے مستثنی ہیں۔ حالانکہ کھاتے بھی دونوں ہیں اور سانس بھی لیتے ہیں۔ کام بھی دونوں کرتے ہیں تو پھر حاجت بھی تو دونوں کو ہی آئے گی۔ پھر اسے برداشت کا بھاشن کیوں دیا جاتا ہے؟ چلو خاتون صبر کر بھی لے تو چھوٹے بچوں کے پیمپر کہاں بدلوائیں؟

میں پھر کہوں گی کہ آزادی کے اتنے سال ہم نے کہاں گزار دیے ہیں؟ میں تو سر اٹھا کر، فخر سے یہ نہیں کہہ پاتی کہ ہم اتنے برسوں سے آزاد ہیں۔ جب ہم نے اپنے عہدوں کا حق ادا نہیں کیا۔ شہریوں کو بنیادی ضروریات کے قابل نہیں سمجھا۔ خواتین اور بچوں اور کئی معاملات میں مردوں کو بھی اپنے منصوبوں کا حصہ نہیں بنایا۔ پبلک ٹوائلٹس کی فراہمی، سہولیات اور صفائی کو یقینی نہیں بنا سکے۔ اور ان کے مناسب استعمال پر اپنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments