یوم آزادی: قوم کا مجوزہ عہد نامہ


اگست ہماری آزادی کا موسم ہے۔ کسی قوم کے لیے آزادی سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی کیونکہ آزادی کے بغیر قوم کی تکمیل ہی نہیں ہو سکتی۔ قوم (Nation) کی تعریف یہ ہے کہ ”لوگوں کا ایسا گروہ جن میں کچھ مشترک خصوصیات کی وجہ سے یگانگت کا احساس پختہ ہو، وہ ایک آزاد قومی وطن کے باسی ہوں، یا کسی بیرونی تسلط کی وجہ سے آزادی حاصل نہ ہو تو اس کی شدید خواہش رکھتے ہوں“ ۔

قومیت کا تصور جدید دنیا کی پیداوار ہے۔ قومیت، جمہوریت، حریت فکر، سیاسی آزادی، آزاد معیشت، سیکولر ازم، سائنسی طرز فکر وغیرہ باہم مربوط تصورات ہیں۔ ان میں سے ایک یا کچھ کی ایک معاشرے میں عدم موجودگی دوسرے تصورات کو بے معنی بنا دیتی ہے۔

قومیت کا تصور یورپ کی بادشاہتوں میں پروان چڑھا۔ قدیم یورپ ایک مرکزی شہنشاہیت یعنی رومن ایمپائر کے ماتحت تھا۔ اس کے زوال کے بعد کوئی ایک ہزار سال یہ خطہ انتشار کا شکار رہا۔ رفتہ رفتہ یہاں مستحکم بادشاہتیں قائم ہونے لگیں جن کی سرحدیں کم و بیش لسانی اور نسلی بنیادوں پر استوار ہوئیں۔ ان ریاستوں میں علم اور روشن خیالی کے زیر اثر ایسے تصورات جم لینے لگے کہ ریاست کسی بادشاہ کی نہیں بلکہ اس کے باشندوں کی ہوتی ہے۔

نیز یہ کہ بادشاہ ملک اور اس کے باشندوں کا مالک نہیں، سربراہ ہوتا ہے۔ ان تصورات نے لوگوں میں جذبہ افتخار پیدا کیا اور وہ اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کو اپنی زندگیوں کا مقصد قرار دینے لگے۔ اس قومی جذبہ افتخار کی کچھ انتہائی شکلوں کے نقصان دہ اثرات جنگوں کی صورت میں بھی نکلے، لیکن بطور مجموعی قومیت کے تصور نے انسانی تمدن کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔

قومیت کا یہ تصور یورپ سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ جن ملکوں میں یورپی اقوام کا استعماری غلبہ رہا وہاں قومیت کے تصور نے آزادی کی خواہش کا روپ اختیار کیا۔ ورنہ اس سے پہلے دنیا میں بادشاہ اور شہنشاہ بدلتے رہتے تھے اور اس تبدیلی سے عام آدمی کی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی۔ ہندوستان میں بھی ابتدائے آفرینش سے بادشاہتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں لیکن یہاں کے لوگوں کو نہ کبھی غلامی کا احساس ہوا اور نہ آزادی کی خواہش نے ان کے دلوں میں جنم لیا۔

یہ حقیقت ہے کہ حریت فکر اور جمہوریت کے تصور سے آشنائی نہ ہوتی تو ہندوستان کے ہندو لوگ انگریز بادشاہ کے تحت اسی طرح ہنسی خوشی رہتے جیسے صدیوں مسلمان بادشاہوں کے زیر سایہ رہتے آئے تھے۔ اسی طرح مسلمان بھی مہاراجہ رنجیت، گلاب سنگھ ڈوگرہ، مہاراجہ بڑودہ، مہاراجہ پٹیالہ بلکہ نظام حیدر آباد کی رعایا ہونے اور انگریز وائسرائے کی رعایا ہونے میں زیادہ فرق محسوس نہ کرتے۔ چنانچہ ہندوستان کی آزادی کی خواہش محض ایک غیر ملکی حکمران کی حکمرانی سے نجات کی خواہش نہیں تھی بلکہ ہندوستان میں ایک یا ایک سے زیادہ قومی جمہوری ریاستوں کے قیام کی طلب تھی۔ انگریزوں سے ہم نے نہ صرف قویت کا تصور ادھار لیا تھا بلکہ اس کے ساتھ لازم و ملزوم جمہوری نظام حکومت بھی۔

جمہوریت ایک نظام حکومت ہے جو اس اصول کے گرد گھومتا ہے کہ ریاست کے مالک اس کے باشندے ہیں اور اقتدار بھی ان کا ہے۔ عوام اپنے اقتدار کو اپنے نمائندوں کے ذریعے استعمال کرتے ہیں جو ایک مخصوص مدت کے لیے چنے جاتے ہیں۔ ہر ملک اپنے مخصوص حالات کے مطابق اس کی کوئی نہ کوئی شکل مقرر کرتا ہے لیکن اس کی بنیاد عوام کی حکمرانی ہی ہوتی ہے۔ جمہوریت اور قومیت کے تصورات ایک دوسرے جڑے ہوئے ہیں اور جمہوریت کے بغیر قومیت اور آزادی کے کوئی معنی نہیں بنتے۔

جمہوری مملکتوں کی بنیاد ایک قانونی دستاویز پر ہوتی ہے جسے دستور یا آئین کہا جاتا ہے۔ دستور قوم کی اجتماعی رائے کی تحریری شکل ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے مملکت کے مختلف اجزاء کی تشکیل، ذمے داریوں، حقوق، فرائض، اور ان کے کام کرنے کے طریقے طے پاتے ہیں۔ دستور کا ایک بنیادی وظیفہ یہ بتانا ہوتا ہے کہ ملک کے اندر قانون کون بنائے گا اور کس طریقے سے بنائے گا۔ جمہوریت کا بنیادی اصول عوام کی حکمرانی ہے اس لیے قانون سازی بھی عوام کے نمائندے ہی کرتے ہیں۔

پاکستان کے مطالبے کی بنیاد ہندوستان میں مسلم قومیت کا ظہور تھا۔ ایک بار جب مسلمانوں نے اپنے آپ کو ایک الگ قوم قرار دیا تو الگ وطن ان کا حق بلکہ مقدر بن گیا۔ اس کا حصول اب صرف وقت کی بات تھی۔ پاکستان کے لیے جد و جہد خالص جمہوری انداز میں کی گئی۔ انگریزوں نے ملک میں جس قدر سیاسی عمل کی اجازت دے رکھی تھی، اس کے اندر رہتے ہوئے مزید سیاسی حقوق کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش بتدریج زیادہ سے زیادہ سیاسی آزادیوں اور حقوق کے حصول کے لیے تھی اور اس کا نقطہ انتہاء ایک مکمل آزاد وطن کی صورت میں سامنے آیا۔ چونکہ پاکستان کسی جنگجو رہنماء کی قیادت میں تلوار اور بندوق کے زور پر حاصل نہیں کی گئی تھی، اس لیے یہاں خالص جمہوری نظام کے سوا کسی اور طریقے جیسے خاندانی بادشاہت، فرد کی آمریت یا کسی مخصوص گروہ کی سربراہی کا کوئی امکان نہیں تھا۔

ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک الگ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ برطانوی ہند کے مسلم اکثریتی علاقے متحدہ ہندوستان میں نہیں رہنا چاہتے۔ تقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے میں ان علاقوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ مجوزہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں۔ ان علاقوں نے با اخر پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ اصولی طور پر یہ علاقے پہلے برطانیہ سے آزاد ہو گئے اور اس کے بعد ایک واحد مملکت کی شکل میں متحد ہوئے۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی آزاد علاقے مل کر ایک ملک بناتے ہیں، اس ملک کو وفاق کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ریاست کا حصہ بننے والے علاقے اپنی آزادی (اختیار) کا کچھ حصہ وفاق کے سپرد کرتے ہیں اور باقی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ان کی تفصیل ملک کے آئین میں وضاحت کے ساتھ درج ہوتی ہے۔ وفاق اپنے ان اجزاء سے سے اختیارات نہ تو واپس لے سکتی ہے اور نہ ان میں کمی کر سکتی ہے۔ اگر وفاق ایسا کرے تو ملک کا آئین اور وفاق دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

پاکستان بننے کے بعد چاہیے یہ تھا کہ لوگوں کے نمائندے آزادانہ طور پر منتخب ہو کر جمہوریت اور وفاقیت کی بنیادوں پر مبنی ایک دستور بناتے۔ لیکن ہوا یہ کہ غیر جمہوری اور غیر منتخب لوگوں نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ انہوں نے انتخابات نہ ہونے دیے جس کی وجہ سے ملک کا آئین نہ بن سکا۔ آئین نہ ہونے کی وجہ سے عوام اور مملکت کے اجزاء کی کوئی اہمیت نہ رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اجزاء (صوبے ) وفاق میں رہنے سے زیادہ اس سے علیحدہ ہونے پر غور کرنے لگے۔

بالآخر ملک کا سب سے بڑا یونٹ ایک الگ ملک بن گیا۔ ایسا ہونے کے بعد باقی ماندہ یونٹوں نے ایک نیا وفاق تشکیل دیا اور جس کی بنیاد 1973 کے آئین پر رکھی گئی۔ غیر جمہوری مزاج کے لوگ 1971 کے تجربے سے سبق حاصل کر کے آئندہ احتیاط کرنے کے بجائے جمہوریت اور وفاقیت کے ساتھ کھلواڑ جاری رکھی اور دستور کو بار بار معطل کیا۔ جب دستور بحال بھی ہوا تو اس پر عملدرآمد کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے۔ جمہوریت، دستور، وفاق، عوامی نمائندگی وغیرہ کو غیر ضروری بلکہ بہتر حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا۔

لوگوں کی ذہن سازی کی زبردست مہم چلائی گئی اور عوام کے بڑے حصوں کو باور کرایا گیا کہ جمہوریت اور وفاقیت کی بات کرنے والے ملک دشمن ہیں۔ اب پاکستانی عوام کی ایک بڑی تعداد یقین رکھتی ہے کہ انہیں جمہوری اور آئینی حقوق نہیں بلکہ ایک اچھا لیڈر اور اچھی حکومت چاہیے۔ ان کے ذہن اس سے آگے کی سوچنے کے قابل نہیں کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ اچھا لیڈر کون ہے، نیز وہ لیڈر کس طریقے سے اقتدار میں آئے گا، کتنے عرصے کے لیے آئے گا اور اگر وہ اچھا ثابت نہیں ہوا تو اسے تبدیل کون کرے گا۔

آج اگر اس ملک کو ایک بہتر ملک بنانا ہے، بلکہ اس کا وجود ہی باقی رکھنا ہے تو کچھ بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے ، جیسے :

1۔ پاکستان ایک وفاقی جمہوری ملک ہے جس کی بنیاد ایک آئین پر ہے اور جسے لوگوں کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے۔ ملک کو اسی آئین کے مطابق چلانا ہے، کسی مخصوص فرد، ادارے یا گروہ کی مرضی اور سمجھ پر نہیں۔

2۔ ملک کے لوگ اور اس کے اجزاء رضاکارانہ طور پر اس ملک کا حصہ ہیں۔ انہیں آزادی، جب الوطنی اور قوم پرستی کے مصنوعی نعروں کے پیچھے نہیں لگانا چاہیے۔ ان کو ملک سے اپنے تعلق کی نوعیت پر آزادی سے سوچنے اور فیصلہ کرنے دیا جائے۔

3۔ ملک کا اقتدار حقیقی معنوں میں عوام کے ہاتھ میں ہو، جس کو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کریں۔ پارلیمنٹ کثرت رائے سے کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے، کوئی بھی قانون بنا سکتی ہے، یہاں تک کہ آئین میں تبدیلیاں بھی کر سکتی ہے۔ کوئی اور ادارہ پارلیمنٹ کے اس اختیار کو کسی بہانے سے محدود نہیں کر سکتا۔ یہاں تک کہ قومی سلامتی جیسے اصطلاحات کی آڑ میں بھی نہیں۔ قومی سلامتی سے کیا مراد ہے اور اس کا تحفظ کیسے ممکن ہے، یہ فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے کرنا ہے۔ مملکت کے تمام ادارے پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہوں گے ، سوائے عدلیہ کے جو فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی۔ تاہم عدلیہ بھی فیصلے پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق کرے گی۔

4۔ ملک کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں اور ان کا تحفظ کیسے ہو، اس کا تعین بھی پارلیمنٹ کرے۔ کسی فرد یا ادارے کو حق نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نکات کو نظریے کے نام سے قوم پر مسلط کر دے۔

5۔ وفاق کی تمام اکائیوں کو برابر حیثیت حاصل ہے اور آئین کے تحت حاصل خود مختاری ان سے کسی بہانے واپس نہیں لی جائے گی۔ اگر کسی کائی کو وفاق سے شکایت ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے نہ کہ ان کی آواز کو زبردستی دبایا جائے۔

6۔ عوام کے ہر فرد اور اس کے ہر طبقے کے بنیادی حقوق (جو عالمی طور پر تسلیم شدہ ہیں ) کی مکمل حفاظت کی جائے گی۔ ان کی خلاف ورزی کے لیے کسی بہانے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ بنیادی حقوق میں جان کی حفاظت، اظہار رائے کی آزادی، تنظیم بنانے کی آزادی، ملک کے اندر گھومنے پھرنے کی آزادی، کوئی پیشہ اختیار کرنے اور کام کر کے کمانے کی آزادی، جائیداد رکھنے کی آزادی، کوئی بھی عقیدہ رکھنے اور اس کا اظہار کرنے کی آزادی وغیرہ شامل ہیں۔

7۔ ملک کے شہریوں کو زندگی کی سہولیات کی فراہمی مملکت کی ذمے داری ہے، ان پر کوئی احسان نہیں۔ حکومت ان سے جو ٹیکس لیتی ہے وہ واپس عوام پر خرچ ہونا چاہیے۔

8۔ ملک میں رواداری، برداشت، باہمی مشاورت کو فروغ دیا جائے اور نفرتوں میں کمی لانے کی کوشش کی جائے۔ ایک دوسرے کو غدار ٹھہرانے کا رجحان ترک کر دینا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا گروہ اپنے علاقے، اپنی ثقافت یا زبان سے محبت کا اظہار کرتا ہے یا ان کے تحفظ کی کوشش کرتا ہے تو اسے ملک دشمنی نہ سمجھا جائے۔

9۔ ملک میں قانون کی عملداری اور بالا دستی کے اصول کو تسلیم کیا جائے۔ یہ توقع نہ رکھی جائے کہ قانونی تقاضوں پر مکمل عمل کیے بغیر کسی کو سزا دی جائے۔

10۔ ملک کی خارجہ پالیسی کا نقطہ عمود یہ ہو کہ اس سے ملک کے عوام کی زندگیوں کو محفوظ اور با سہولت بنایا جائے۔

ملک کے بقاء اور ترقی کی ضمانت صرف اور صرف ان جیسے اصولوں کی پاسداری میں ہے، اور موجودہ خراب صورت حال انہی اصولوں کو پس پشت ڈالنے کا نتیجہ ہے۔ اگر آئندہ بھی یہ روش جاری رہی تو ملک بھلے سے نہ ٹوٹے، اس کی حالت بد سے بد تر ہوتی جائے گی۔ کوئی ”اچھا“ ڈکٹیٹر کسی ملک بچا سکتا ہے نہ اس کی حالت میں بہتری لا سکتا ہے۔

ممتاز حسین، چترال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ممتاز حسین، چترال

ممتاز حسین پاکستان کی علاقائی ثقافتوں اور زبانوں پر لکھتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی خطے کی تاریخ، ثقافت اور زبانوں پر ایک ویب سائٹ کا اہتمام کیے ہوئے ہے جس کا نام makraka.com ہے۔

mumtaz-hussain has 11 posts and counting.See all posts by mumtaz-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments