نصیر خان بلوچ: عجب آزاد مرد تھا


شاعری تب شاعری ہے جب حسن خیال، لفاظی، اوزان و بحر، قافیہ پیمائی، زمین اور صنائع بدائع کے حسین امتزاج میں ایک خوب صورت، مربوطیت، معنی کی گیرائی و پہنائی، صوتی آہنگ، مٹی، کلچر کی خوشبو، زبان کی چاشنی، حسین انداز بیان اور کلام میں ایک پر جوش توانائی نمایاں طور پر موجود ہوں۔ بہت کم شاعر ان سب چیزوں کا احاطہ کر پاتے ہیں۔ مگر جو اپنے صحیح معنی میں استاد کے مقام پر فائز ہوتے ہیں وہ بجا طور ان سب مذکورہ چیزوں کو اپنے فکر و فن میں سمو لینے کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ بھی ایسا نیا تخلیق کرتے ہیں۔ جس کے آنے والے زمانے شکر گزار ہوتے ہیں۔ میرے مطابق ہماری شاعری میں استاد دو طرح کے ہوتے ہیں :ایک ریاستی، سیاسی یا نصابی اور دوسرا عوامی۔ پہلے سے مراد، ایسا استاد جسے ریاستی سرپرستی حاصل ہو۔ جس کے نام سے پڑھی لکھی کلاس کی واقفیت قومی سطح پر ہوتی ہے۔

اس لیے وہ ریاست کے بیانیے کا علمبردار ہوتا ہے۔ اس علم برداری سے وفاداری کے نتیجے میں ریاست کے تمام ادارے مثلاً تعلیمی، نشریاتی جس میں موجودہ دور میں ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبار وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ یہ سب اپنے نصاب اور کوریج کے ذریعے اور ریاست کا خاص دنوں پر ان کے کلام کی مصنوعی تشہیر کا خاص بندوبست کرنا شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے شاعری کی بجائے ان کے نام سے واقفیت نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔ عوامی استاد وہ ہوتا ہے جو ریاست کی سرپرستی سے کوسوں دور اپنا جہان بساتا ہے۔ اس کا کلام پہلے اس کے اپنے علاقے میں شہرت حاصل کرتا ہے۔

جس سے وہ عوامی مشاعروں تک رسائی حاصل کرتا ہے اور کلام کی طاقت اسے ہر مشاعرے کے ساتھ سننے والوں میں مقبولیت عام عطاء کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ پذیرائی عام لوگوں کی آنکھوں اور کانوں سے اتر کر نہ صرف دلوں میں گھر کرتی ہے بل کہ معاشرے کی روح میں رچ بس جاتی ہے۔ اس شہرت سے متاثر ہو کر نئے شعراء نہ صرف اس کی عظمتوں کا اعتراف کرتے ہیں بل کہ اس کے فکر و فن اور طرز اسلوب، فصاحت و بلاغت کا معیار قرار دیتے ہیں اور یوں استادی شاگردی کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی مقبولیت ہر خاص عام تک پہنچ جاتی ہے۔ عوامی استاد شاعر کون ہے؟ وہ ایسا شاعر ہو گا جو عوام سے جڑا ہو گا، ان کے مسائل کا ادراک رکھتا ہو گا، اپنی زبان اور مٹی سے جڑا ہو گا، وہ بغیر لالچ کے اپنے شاگردوں کو اپنا فن منتقل کرتا دکھائی دے گا۔ ان تمام باتوں کی بناء پر وہ دلوں میں بستا ہے۔ میری نظر میں نصیر خان بلوچ ( 2021۔ 1956 ) نہ صرف عوامی استاد شاعر تھے بل کہ اس سے آگے اپنے فن میں ایسے یکتا و یگانہ تھے کہ بے شمار شعراء کو ان کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے۔

ان کی استادی کا ایک خاص پہلو جو ان کو باقی استاد شعراء کرام سے منفرد بناتا ہے وہ یہ کہ ان کے شاگردوں پر ان کی چھاپ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے تمام شاگرد اپنے قد اور مقام کے ساتھ ہمارے شعری منظر نامے میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ورنہ تو عام طور پر استاد کا رنگ شاگرد پر اتنا غالب ہوتا ہے کہ دونوں کی شاعری کی علیحدہ سے شناخت کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس طرح دونوں استاد اور شاگرد مل کر تخلیقی عمل کی بجائے صرف شاعروں کی گنتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ یوں تھوڑے عرصے بعد استاد کا اپنا فن اور شہرت زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔

نصیر بلوچ ساندل بار کے اس ضلع کی مٹی کا بیٹا ہے جس نے انگریزوں کے خلاف جہاد آزادی کے لیے رائے احمد خاں کھرل ( 1857۔ 1785 ) ، آزادی ہند کا نعرہ لگانے والے بھگت سنگھ ( 1931۔ 1907 ) ، تصوف و معرفت کے چراغ روشن کرنے والے صوفی برکت علی ( 1997۔ 1911 ) ، شہنشاہ موسیقی استاد نصرت فتح علی خان ( 1997۔ 1948 ) ، دنیا بھر میں اپنی گائیکی کا لوہا منوانے والے راحت فتح علی خان، ادبی دنیا میں اپنا سکہ جمانے والے افضل احسن رندھاوا ( 2017۔ 1937 ) اور نیاز خیالوی ( 2010۔ 1947 ) ، مائیکرو سافٹ میں پیروں کی استادی کرنے والی نو نہال ارفع کریم رندھاوا ( 2012۔ 1995 ) ، ملک و بیرون ملک اپنی اداکاری و صداکاری کے جوہر دکھانے والے ضیاء محی الدین، شائقین کرکٹ کے دل جیتنے والے سعید اجمل، اسنوکر کے عالمی چیمپین محمد آصف، ہاکی کے ناقابل شکست کھلاڑی شہباز احمد سینیئر اور مایہ ناز کامیڈین نسیم وکی جیسے قابل فخر سپوت اور قومی ہیروز پیدا کیے ہیں۔ ان اوپر بیان کی گئی ہستیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لائل پور کی مٹی میراہ ہے جس میں ہر طرح کی فضل اگنے کی صلاحیت ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں مذکورہ نامور شخصیات کے شعبہ جات میں تنوع نظر آ رہا ہے۔ اس تنوع نے اپنی مٹی کا سر پوری دنیا میں فخر کے ساتھ بلند کیا۔ اتنی نامور اور قد کاٹھ والی شخصیات میں سے کسی نئے بندہ کا اپنے فن میں علیحدہ سے پہچان بنانا، اپنے لیے استاد کا لقب مشہور کروانا اور وہ بھی مضافات میں رہتے ہوئے، یہ سچ میں ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ کسے معلوم تھا کہ ”آہلو آلی جھوک“ (چک نمبر 592 گ ب) میں دان محمد بلوچ اور عالم خاتون کے گھر میں نصیر احمد نامی جو بچہ پیدا ہوا ہے، وہ اپنے جنگجو جد امجد میر چاکر خاں رند بلوچ ( 1565۔ 1468 ) کی نسل میں سے ہو کر ایک ادبی استاد کے درجہ پر براجمان ہو گا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہڑپہ کی تہذیب اور مٹی نے اس بلوچ بیٹے کو اپنے اندر سمو لیا۔ تب ہی تو ہڑپائی تہذیب میں جنما یہ پنجابی بلوچ بیٹا کہتا ہے :

”میں آں ساد مرادہ بندہ
میتھوں بہتی گل نہیں ہندی
میتھوں کبھ دے کا ں نہیں بندے
لوکی سجن تاں نہیں بندے ”

جہاں یہ چار سطریں جد امجد کی legacy سے فرار ہے وہیں اوپر بیان کی گئی عوامی استاد شاعر والی بات پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انہوں نے شہروں سے دور افتادہ ایک گاؤں میں رہتے ہوئے شعر و ادب کے ایک جہان کو فکر و فن سے منور کیا۔

نصیر خان بلوچ پیشے کے اعتبار سے ایک سرکاری سکول میں استاد کے عہدے پر فائز رہے۔ اب تک ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ پہلا پنجابی شعری مجموعہ ”ہجر تیرا گلاب جیہا“ جو 2007 ء میں شائع ہوا اور دوسرا اردو شاعری کا ”ڈھارس“ جو 2022 ء میں ان کے مرنے کے بعد چھپ کر سامنے آیا۔ نصیر بلوچ کی شاعری کلاسیکی اور جدید انداز کا حسین امتزاج نظر آتی ہے۔

مقامی ثقافت کے رنگ میں غزل کہنے والا یہ شاعر پنجاب کے عوامی لہجے کی حفاظت کرتا دکھائی دیتا ہے۔
”اشک بلھے کی طرح رقصاں تھے پلکوں پر نصیر
درد جب شہنائیوں کی اوٹ میں روتا رہا
مفلسی میں اور کیا دیتے بھلا احباب کو
درد کی دولت بچی تھی، دوستوں میں بانٹ دی ”
ان کی شاعری میں تاریخی شعور بھی بھرپور انداز
میں موجود نظر آتا ہے۔ یہ شعر میری اس بات کی دلیل ہے
”چبھا تھا جو مرے پاؤں میں کانٹا
مرے سر سے نکالا جا رہا ہے ”
یہ شعر ہندوستان پر برطانوی راج کے بیانیے، جسے ششی تھرور نے اپنی کتاب ”An Era of Darkness“ میں de۔ construct کیا کو اسی طرح شاعری کی زبان میں ننگا کرتا ہے۔ آپ شاعر اور تدریسی استاد کے علاوہ ایک مجلسی انسان تھے۔ جس طرح وہ اپنے زور بیان اور طرز اظہار سے مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ اسی طرح جب کسی نجی محفل میں وہ بات کرتے تو ۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ کہ مصداق سب انہی کی طرف متوجہ رہتے تھے۔ وہ بذلہ سنج ہونے میں بھی اپنی مثال آپ تھے اور برجستہ گفتاری میں گویا پوری بزم کی نبض پہ ان کا ہاتھ ہوتا تھا۔

وہ روز مرہ کے ملنے والوں، دوستوں، شاعروں کے ساتھ گزرے وقت میں سے صرف مزاح سے بھرپور واقعات اور لمحات کو اپنے حافظے کا حصہ بنا لیتے تھے۔ اور گاہے بگاہے مشاعروں سے پہلے یا بعد میں برپا ہونے والی محفلوں میں اتنی روانی اور برجستگی سے ان قصوں اور واقعات کو سناتے تو سننے والوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو جاتا۔

کچھ مزاحیہ واقعات جو میں نے ان کی زبانی سنے۔

جھنگ میں ایک مشاعرہ ہونے جا رہا تھا۔ ایک نیا شاعر دو دن پہلے میرے پاس گاؤں آ گیا۔ مجھ سے کہنے لگا: ”استاد جی مینوں وی مشاعرہ پڑھاؤ“ میں آکھیا: ”ایہہ مشاعرہ غزل تیں نظم دا اے جد کہ توں دو ہڑے دا شاعر ایں“ ۔ پر اوہ اپنی ضد تے اڑیا رہیا تے نال و نال میری خوب آوبھگت وی کر دا رہیا۔ اخیر میں اوہنوں نال لے گیا۔ ممتاز بلوچ سٹیج سیکٹری تھا۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ مشاعرے کے آغاز میں اس کو موقع دے دیں تو بہت نوازش ہوگی۔ جب اسے اسٹیج پر بلایا گیا تو سب سے پہلے اس نے اپنے بازو اوپر چرہائے۔ شرکاء کی طرف دیکھا یوں دیکھا جیسے کوئی پہلوان ہو اور پھر سینہ تان کر اپنا کلام سنانا شروع کر دیا۔

”جدوں سوچ سوچینا
میرا سر بھوندا اے
نالے آکھیں اگے طوطے اڈدے نیں ”
”جدوں سوچ سوچینا
میرا سر بھوندا اے
نالے آکھیں اگے طوطے اڈدے نیں ”
جب تیسری چوتھی بار اس نے انہی مصرعوں کو
دہرایا تو

شرکاء میں سے کسی بزرگ نے کھڑے ہو کر کہا ”پتر تینوں مردانہ کمزوری اے۔ میرا تینوں مشورہ اے کہ توں کسے چنگے حکیم توں علاج کروا“

ایک مشاعرے کی نظامت نصیر خان بلوچ کر رہے تھے مشاعرے کی صدارت نیاز خیالوی فرما رہے تھے۔ ایک شاعر سٹیج پر آیا تو اپنے آپ کو نیاز خیالوی کا شاگرد بتایا اور کہا: ”آج میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں یہ مشاعرہ اپنے استاد کی صدارت میں پڑھنے جا رہا ہوں“ ۔ اس پر نیاز خیالوی فخریہ مسکرایا۔ اس نے شاعری پڑھنی شروع کردی۔ پہلا شعر بے وزن پڑھا تو نصیر بلوچ نے نیاز خیالوی کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ دوسرا پڑھا تو وہ بھی بے وزن، اب نصیر بلوچ نے نیاز خیالوی کی طرف طنزیہ انداز میں ہلکی سے مسکراہٹ دی تو نیاز خیالوی غصے سے لال پیلا اٹھ کھڑا ہویا اور شاعر سے کہا: ”ابے رک“ اور اس سے مائیک چھین کر کہنے لگا: ”مجھے قسم ہے اس پیدا کرنے والے کی، مجھے قسم ہے علی کے بیٹوں کی، یہ شخص سراسر بکواس کر رہا ہے۔ یہ قطعا میرا شاگرد نہیں ہے اور نہ میں نے اس سے پہلے کبھی اسے دیکھا ہے۔ یہ ایسے ہی منہ اٹھا کے آ جاتے ہیں نا معقول لوگ۔ ”۔

نصیر بلوچ کے مزاح کی خوب صورت بات یہ تھی کہ وہ پہلے سے مشہور دوسرے لوگوں کے چٹکلے یا واقعات کا سہارا نہیں لیتے تھے بل کہ اپنی ذات سے متعلق ہونے والی روداد میں سے وہ اپنا مزاحیہ مواد تیار کرتے تھے یہ ہی وجہ تھی کہ وہ سننے والے کو نیا اور اوپر سے ان کا سنانے کا انداز سونے پہ سہاگہ، اسی لیے ان کا مزاح اپنی بھرپور توانائی کے ساتھ سننے والوں پر اپنا سحر طاری کرتا تھا۔ میں اپنے ایک دو رشتہ داروں کو جانتا ہوں جن کو شاعری سے کوئی خاص لگاؤ نہ تھا لیکن وہ ان کے مزاح کے دلدادہ تھے اور مشاعرے کے بعد ان سے مزاحیہ واقعات سنتے اور محظوظ ہوتے تھے۔ اور تو اور یہ رشتہ دار نصیر بلوچ کے یاد کیے ہوئے قصوں سے نجی محفلوں میں اپنا رنگ جما لیتے ہیں۔

مجموعی طور پر نصیر خان ایک استاد شاعر، رونق محفل اور اپنی مزاح پسندی سے غمزدوں کو بھی ہنسانے والے انسان تھے۔ اس لیے وہ اپنے شاگردوں، دوستوں، اور چاہنے والوں کے دلوں میں ہر حوالے آباد رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments