ہمارے ادارے بالکل ہمارے جیسے ہیں


اچھا! تو پھر ہم کیسے ہیں؟ توبہ، استغفار، خدا کی پناہ، لا حول ولا قوۃ۔ ”وہ جو ہم نہیں ہیں، بہت خوبصورت ہیں“ ۔

پھر بھی آخر ہم ہیں کیا؟ معلوم تو ہونا چاہیے؟ اچھا، اپنے آپ کو جاننا چاہتے ہو۔ تو پھر اپنے قومی اداروں کو دیکھ لو۔ فی زمانہ اپنی پہچان، اپنے قومی اداروں سے ہی ہوتی ہے۔ ادارے، افراد کا ہی عکس ہوتے ہیں۔ جیسے ہم، ویسے ہمارے ادارے۔

کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں جو اپنے آپ کو پہچان لیتا تھا، اپنے رب کو جان لیتا تھا۔ ادارہ جاتی اس عہد میں ہماری اپنی پہچان بھی ہمارے اپنے اداروں کی مرہون منت ہو گئی ہے۔ اور اس طرح آج ہمارے ادارے ہی ہمارے تصور خدا کی پہچان بن گئے ہیں۔ افسوس کہ ہم بہت بری جان پہچان کروانے والے ہیں۔ توبہ، استغفار، خدا کی پناہ، لا حول ولا قوۃ۔

اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان، تمام مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن کیا یہی شعوری و غیر شعوری ایمان، ہمارے اداروں کا اٹوٹ انگ بھی بن جاتا ہے کہ نہیں؟ کسی قوم کے تصور خدا و تصور آخرت کے اس قوم کے افراد پر اور انہی افراد کے تخلیق کردہ اجتماعی و سماجی اداروں پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہمارا یہ ایمان ہوتا ہے ویسے ہی ہمارے ادارے تشکیل پاتے ہیں؟ اس قسم کے موضوعات پر سنجیدہ تحقیق کرنے کی آج سب سے زیادہ ضرورت ان ملکوں کو ہے جنہوں نے ریاست تک کو مشرف بہ اسلام کیا ہوا ہے۔

اور یہ موضوع شاید اس سے بھی زیادہ اہم ہو کہ ایک طرف ہمارے ہاں رحیم و کریم اور ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والے خدا کا تصور تو موجود ہو لیکن اس تصور پر قائم کوئی ایک بھی ادارہ موجود نہ ہو اور دوسری طرف جبار و قہار اور ڈرانے والے خدا کے تصور پر قائم ہر طرف ڈرانے دھمکانے والے محکمے، ادارے اور افراد دندناتے پھرتے ہوں۔ ایسا کیوں ہوا ہے؟ سوچنے سمجھنے والوں کو مذہبی و نظریاتی ریاست اور اداروں کے باہمی تعلق پر کھل کر بولنا اور لکھنا چاہیے۔

مجھے اس مرحلے پر عامر خان کی فلم ”پی کے“ کا ایک مکالمہ یاد آ رہا ہے جس میں پی کے پوچھتا ہے کہ کون سے بھگوان پر وشواس کریں، وہ بھگوان جس نے ہم کو بنایا، یا وہ بھگوان جس کو تم لوگوں نے بنایا۔

وہ بھگوان جس نے ہم کو بنایا، ان کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتا۔
اور وہ بھگوان جس کو تم لوگوں نے بنایا، وہ بالکل تمہارے جیسا ہے۔

”جھوٹا، گھونس لیتا ہے، جھوٹے وعدے کرتا ہے، امیروں کو جلدی ملتا ہے، غریبوں کو لائن میں کھڑا کرتا ہے، تعریف سے خوش ہوتا ہے، بات بات پر ڈراتا ہے۔ “

یہ بات ہمارے اپنے بنائے ہوئے اداروں اور محکموں پر بالکل صادق آتی ہے۔ ہمارے بنائے ہوئے محکمے اور ادارے بالکل ہمارے جیسے ہی تو ہیں۔ جھوٹے، دھوکے باز، منتقم مزاج، خود غرض، نمائشی، لالچی، خوشامد پسند، کرپٹ، امیروں کا کام جلد نبٹانے والے اور غریبوں کی ایک نہ سننے والے، کچھ بھی نہ کرنے کی تنخواہ اور کچھ کرنے کے لئے رشوت لینے والے۔ اور ڈرانے، دھمکانے اور بوقت ضرورت اٹھانے والے تا کہ سند رہے۔

اسی طرح ہمارے یوم آخرت کے تصور انصاف کو ہی دیکھ لیں۔ ہمارے ہاں آخرت کے انصاف پر کامل ایمان ہے۔ اب یوم آخرت کے انصاف پر یقین کرنے کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہمیں بچپن سے ہی رٹایا جاتا ہے کہ میں ایمان لایا فرشتوں پر اور انصاف والے دن پر وغیرہ وغیرہ۔

لیکن ایک مفہوم وہ ہے جو ہم نے بطور معاشرہ بالکل اپنی طرح بنایا ہوا ہے۔ یعنی دنیاوی نظام انصاف پر بالکل یقین نہ رکھا جائے۔ اور اس مفہوم پر ہماری بنائی ہوئی عدالتوں کا مکمل یقین ہے کہ اب چونکہ اللہ تعالیٰ نے بروز قیامت اصل انصاف کا وعدہ کیا ہے لہذا ہم اس فانی دنیا میں انصاف کی فراہمی سے بالکل قاصر ہیں۔ جب یقین ہی اٹھ جائے تو پھر دنیاوی انصاف کے لئے عدالتوں کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ یہ شاید اسی یقین کا کارن ہے کہ ہم بطور ریاست دنیا میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کے حوالے سے 130 نمبر پر کھڑے نہیں بلکہ لیٹے ہوئے ہیں۔ مرکز یقین شاد باد۔

ان حالات میں اس بات پر تو اب کوئی شک باقی نہیں رہا کہ ہمارے نوری اور خاکی دماغوں نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ ہم نے ایسے ادارے اور محکمے ہی بنانے ہیں جو انسانوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرنے میں مہارت رکھتے ہوں۔ اور یوں بالآخر حیوانی معاشرہ ہی تخلیق کرنا ہی ہمارے لیے شاد باد منزل مراد ہو۔

قوم کو مبارک ہو کہ پچھلے پچھتر سالوں میں یہ اعزاز حاصل کرنے میں ہمارے اداروں اور محکموں نے کافی تگ و دو کی ہے۔ اور اب کافی حد تک ہم جانوروں کا معاشرہ بنا بھی چکے ہیں اور جانوروں کے معاشرے میں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے۔ جو طاقتور ہے بس وہی صراط مستقیم پر ہے۔

بس اب ہم سب جی جلانے والوں کو کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اس حیوانی معاشرے پر چسپاں انسانی معاشرے والے لیبل کو جلد از جلد اتار پھینکیں اور معاشرے میں بڑھتی مذہبی جنونیت اور معاشرتی تقسیم کو مزید بڑھاوا دیں تا کہ یہ معاشرہ جلد از جلد اپنے انجام کو پہنچے۔ آئندہ نسلوں کو جاری عفریت سے بچانے کا اس سے بہتر حل شاید اس ہجوم کے لئے ممکن نہ ہو۔ سایہ خدائے ذوالجلال۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).