کیا تصادم سے بچنا ممکن ہو سکے گا؟


پاکستان میں جاری سیاسی فریقین یا طاقت کے مراکز میں جاری سیاسی محاذ آرائی، بداعتمادی کا ماحول اور ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم نہ کرنے کے عمل نے ملکی سیاست کو ایک بڑے بحران کی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ محض ایک سیاسی بحران نہیں ہے جو سیاسی فریقین کے درمیان موجود ہے بلکہ اس بحران کی حیثیت ایک بڑے تناظر میں ریاستی بحران سے بھی جڑی نظر آتی ہے۔ کیونکہ سیاسی فریقین اور ریاستی سطح پر موجود اداروں یا اسٹیبلیشمنٹ میں جو تناؤ یا ٹکراؤ کی کیفیت ہے وہ خود بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

اس لیے اس حالیہ بحران میں جہاں سیاسی سطح پر موجود فریقین ذمہ دار ہیں وہیں اسٹیبلیشمنٹ یا طاقت کے مراکز بھی اس بحران سے خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتے۔ یہ اصولی اتفاق تمام سیاسی یا غیر سیاسی فریقین میں موجود ہے کہ ہم داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر ٹکراؤ کی کیفیت کا شکار ہیں۔ اسی طرح یہ نقطہ بھی موجود ہے کہ اس سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ سب فریقین کے درمیان مل بیٹھنا اور کوئی ایسی مشترکہ حکمت عملی کو ترتیب دینا ہے جو سب کے لیے سب کو قابل قبول ہو۔

حالیہ دنوں میں بحران کے حل کے تناظر میں بارش کا ایک پہلا قطرہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی پھینکا ہے۔ ان کے بقول حالات کی سنگینی ظاہر کرتی ہے کہ یہ بحران کسی ایک فریق نے حل نہیں کرنا اور ہمیں قومی سطح پر ایک بڑے اتفاق رائے پر مبنی سیاست درکار ہے۔ اگرچہ ان کا عہدہ ایک آئینی عہدہ ہے مگر وہ ایک قدم آگے بڑھ کر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان جاری سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت کو کم کر کے حالات کی درستگی کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر عارف علوی کے بقول اگر دونوں سیاسی فریقین اتفاق کر لیں تو وہ ان معاملات میں بڑا پہل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ جو پچھلے دنوں ہم نے سیاسی محاذ پر ایک لفظ ”نرم مداخلت“ کا سنا تھا تو ہمیں فوری طور پر اسٹیبلیشمنٹ کا پہلو سامنے آیا تھا مگر شاید وہ براہ راست اس میں پہل کرنے سے ہچکچاہٹ کر رہے ہوں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر عارف علوی کی پیش کش کو اسی نرم مداخلت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ کیونکہ ایک بات کافی حد تک طے ہے کہ جب تک کوئی تیسرا فریق حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک درمیانی راستہ یا پل کا کردار ادا نہیں کرے گا، معاملات نہیں سدھر سکیں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے پیش کئی گئی یہ تجویز ایک بڑے سیاسی ایجنڈے کی سبب بن سکے گی اور کیا دونوں سیاسی فریقین صد رکی اس پیش کش کا فائدہ اٹھا کر سیاسی معاملات کے حل میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہو سکیں گے، کیونکہ یہ کام آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں۔ اگرچہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق براہ راست پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ ان کو عمران خان کا بہت قریبی ساتھی بھی سمجھا جاتا ہے۔

آج کا حکمران اتحاد ان پر اپنے تحفظات ہی نہیں رکھتا بلکہ ان کے خلاف عدم اعتماد بھی لانا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی حیثیت اگرچہ سیاسی نوعیت کی ہے مگر وہ صدر مملکت بھی ہیں اور اگر وہ ایسی پہل کریں تو موجودہ مسائل کے حل میں ایک قدم آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کسی تو پہل کرنی ہے اور اگر یہ پہل صدر مملکت کی جانب سے ہوتی ہے تو اس کا ہر سطح پر خیر مقدم ہونا چاہیے۔ لیکن سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ کیا صدر مملکت کی اس پہل کو ہماری اسٹیبلیشمنٹ کی بھی حمایت حاصل ہوگی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ کیونکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سیاسی تنہائی یا اس بداعتمادی کے ماحول میں محض اپنی خواہش یا تنہا ہو کر کچھ نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ اس وقت جو قومی بحران ہے اس میں سیاسی فریقین کے درمیان اعتماد سازی کا ماحول کا پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے خلاف سیاسی کشیدگی یا سیاسی دشمنی کا خاتمہ اہم پہلو ہے۔

سازگار ماحول کو یقینی بنانے اور ایک دوسرے پر اعتماد سازی کی بحالی یا سیاسی تلخیوں کے خاتمہ کے لیے سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اور جے یو آئی کی قیادت کو ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا ہو گا کہ ان کی جماعتوں کا کوئی فرد یا اہم قیادت ایک دوسرے کے خلاف ذاتیات پر مبنی الزام تراشی یا کردار کشی کی سیاست نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ یہ جو سیاسی ماحول یہاں ہم سیاسی میدان یا میڈیا کے محاذ پر دیکھ رہے ہیں اس کشیدگی کے خاتمہ کے لیے ایک دوسرے کو اپنی اپنی زبان میں موجود منفی لہجوں کو ختم کرنا ہو گا اور یہ عمل سیاسی قیادت کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔

کیونکہ یہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت کو خوش کرنے کے لیے ہی ان کے اپنی جماعت کے لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن جاتے ہیں جو سیاسی ماحول کی تلخی کا سبب بنتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پر بات چیت کے معاملات کو ایک مثبت انداز میں نئی جہت دی جا سکتی ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے سیاسی وجود، مینڈیٹ اور اپنے اختلافات کے باوجود سیاسی جماعتوں کی وجود کو تسلیم کریں گے تو بات چیت کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

اسٹیبلیشمنٹ کے حلقوں کو بھی یہ بات غور کرنی چاہیے کہ موجودہ حالات میں سیاسی فریقین سمیت دیگر فریقین میں بات چیت ہی مسائل کے حل میں بنیادی کنجی کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس لیے اسٹیبلیشمنٹ کی کوشش یہ ہی ہونی چاہیے کہ سیاسی فریقین مل بیٹھیں اور ان کو واضح پیغام دیا جائے کہ مل بیٹھنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ اس میں اسٹیبلیشمنٹ کی محض خواہش ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ وہ پس پردہ بیٹھ کر اس میں جس حد تک مدد گار کا کردار ادا کر سکتی ہے وہ کیا جانا چاہیے۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ خود اسٹیبلیشمنٹ بھی ایک نیوٹرل کردار میں خود کو محدود رکھے اور بلاوجہ یہ تاثر نہیں بننا چاہیے کہ وہ کسی کی حمایت یا مخالفت میں کھڑی ہے۔ اسی طرح مفاہمت کا راستہ کوئی بہت بڑے ایجنڈا کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں مختصر ایجنڈا جو سیاسی معاملات کو آگے بڑھا سکے اس تک ہی خود کو محدود رکھنا ہو گا۔ نئے اور شفاف انتخابات کی تاریخ کا تعین، انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کی فعالیت، نگران حکومت کا قیام، الیکڑانک ووٹنگ مشین اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق سمیت انتخابی عمل میں جو بھی بدانتظامی یا عدم شفافیت سے جڑے مسائل ہیں ان کو بنیاد بنا کر سیاسی فریقین آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر سکتے ہیں۔

کیونکہ اس وقت اہم ایجنڈا اگلے انتخابات کی شفافیت کا ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ خطرہ بدستور ہم پر موجود رہے گا کہ ہارنے والے ان انتخابات کی حیثیت کو بھی متنازعہ بنا کر ایک نیا سیاسی بحران پیدا کر سکتے ہیں۔ ان تمام معاملات میں تمام جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے کے ساتھ مل بیٹھیں اور مل کر کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں لیں تاکہ ملک میں موجود سیاسی ڈیڈ لاک کو توڑا جا سکے۔ اسی طرح یہ اتفاق بھی ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کا کردار کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہم اداروں اور سیاسی فریقین کے درمیان ٹکراؤ سے خود کو بچا سکتے ہیں۔

ایک نئے رولز آف گیم ہمیں درکار ہیں اور یہ اصول مل بیٹھنے سے ہی طے ہوسکتے ہیں۔ سیاسی مسائل کو سیاسی میدان میں حل کرنے کی حکمت عملی کو ہی زیادہ طاقت دینی چاہیے اور بلاوجہ سیاسی معاملات میں عدالتی یا اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت یا اپنی مرضی کے فیصلے کی خواہش کسی بھی سطح پر قومی مفاد کے زمرے میں نہیں آتی۔ ایک چیلنج یہ ہے کہ اس وقت ایک قسم کی سیاسی فریقین میں ایک دوسرے پر سیاسی برتری کے لیے سیاسی جنگ جاری ہے۔ کیونکہ انتخابات کا عمل بھی کوئی بہت زیادہ دور نہیں تو ایسے میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سیاسی جنگ انتخابی حکمت عملی کی ضرورت بھی بن جاتی ہے۔ اس لیے خواہش کا ہونا ایک بات جب کے سیاسی حقائق دوسری سیاسی حقیقت ہے جسے ہم آسانی سے نظرانداز نہیں کر سکتے۔

لیکن اس وقت ہماری ریاست کا بڑا چیلنج داخلی سطح پر موجود سیاسی اور معاشی استحکام کی جنگ ہے۔ اس جنگ کو جیتنا محض ہماری یا سیاسی فریق کی ضرورت نہیں بلکہ خود ریاست کی بھی ضرورت بنتی ہے۔ کیونکہ ہم کسی بھی طور پر مزید محاذ آرائی، تناؤ، ٹکراؤ اور الجھاؤ کی سیاست سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس وقت ذاتی ایجنڈے کی سیاست، انا پرستی، سیاسی گھمنڈ سے باہر نکل کر قومی مفادات سے جڑے معاملات پر سنجیدگی دکھانا ہوگی۔ یہ سنجیدگی تمام فریقین کی ہونی چاہیے اور سب کو واضح اور شفاف طور پر نظر بھی آنی چاہیے تاکہ ہم مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا محفوظ راستہ تلاش کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments