کشمیری پنڈت نشانے پر: شوپیاں میں ایک پنڈت ہلاک


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع شوپیاں کے چھوٹی گام علاقے میں رہنے والے کشمیری پنڈت سُنیل کمار اور اُن کے بھائی پِنٹو کمار منگل کی صبح اپنے باغ میں کام کر رہے تھے جب نامعلوم مسلح افراد نے اُن پر فائرنگ کر دی۔

پولیس کے مطابق ’دہشت گردوں کے اس حملے میں سُنیل کمار موقعے پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ پِنٹو کمار کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔‘

پیر کے روز بھی بڈگام ضلع میں دستی بم کے دھماکے میں ایک کشمیری پنڈت زخمی ہو گیا تھا۔

سُنیل کمار اپنے دو بھائیوں پِنٹو کمار اور روشن لال کے ساتھ چھوٹی گام میں ہی رہتے تھے۔

ان کے والدین نے 1990 میں کشمیر میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی جب اس سال ہزاروں کشمیری پنڈت خاندان کشمیر کی وادی سے جموں اور انڈیا کے دوسرے شہروں میں پناہ گزیں ہو گئے تھے۔

چھوٹی گام میں سُنیل کے خاندان کا ایک وسیع و عریض باغ ہے جہاں سیب کی کاشت ہوتی ہے۔

واردات کے وقت قریبی باغ میں موجود ایک باغبان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اچانک فائرنگ ہوئی اور ہم سب بھاگنے لگے۔ تھوڑی دیر میں پتا چلا کہ سُنیل اور پنٹو اپنے باغ میں پڑے ہیں۔ کسی نے پولیس کو فون کیا لیکن سُنیل موقعے پر ہلاک ہو چکے تھے۔‘

سُنیل کمار کی چار بیٹیاں ہیں جبکہ پنٹو کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔

یہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کشمیر میں رہنے والے پنڈتوں کی سکیورٹی کے بارے میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

چند ماہ قبل ایک کشمیری پنڈت راہُل بٹ کے قتل کے بعد سرکاری نوکریوں کے لیے واپس کشمیر آنے والے ہزاروں پنڈت شہریوں نے ایک طویل احتجاج شروع کر دیا تھا۔

یہ احتجاج گزشتہ ماہ اُس وقت ختم کیا گیا جب جموں اور کشمیر کی انتظامیہ نے اقلیتی کشمیریوں کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے کا یقین دلایا۔

پچھلے سال اکتوبر میں بھی پے در پے واقعات میں کئی کشمیری پنڈتوں اور ایک سِکھ ٹیچر کو ہلاک کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ کشمیر میں 32 سال قبل مسلح شورش شروع ہوتے ہی مسلح عسکریت پسندوں نے بڑی تعداد میں عام شہریوں کو گولی مار کر ہلاک کیا۔

ان میں کشمیری بولنے والے ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔ان پر الزام تھا کہ ’وہ ہند نواز سیاسی گروہوں کو مضبوط کرنے یا انڈین فوج اور سکیورٹی اداروں کی اعانت میں ملوث تھے۔‘

کشمیری پنڈت کون ہیں؟

کشمیری بولنے والے ہندوؤں کو کشمیر میں پنڈت کہتے ہیں۔ مسلمانوں اور پنڈتوں کی زبان، فن و ادب، بعض سماجی اور ثقافتی روایات ایک جیسی تھیں۔ یہاں تک کہ گھروں میں بچوں کے عرف بھی ایک جیسے ہوتے تھے۔ مسلمان کی لڑکی اور پنڈت کی لڑکی کا نام ڈیزی یا پنکی ہوتا تھا اور اسی طرح دونوں فرقوں کے لڑکے راجو، بیٹا، یا پرنس کہلاتے تھے۔ تاریخی طور پر کشمیری پنڈت سماج کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ رہا ہے اسی لئے صدیوں سے اقتدار کے قریب بھی تھا۔

ہزاروں نے کشمیر کیوں چھوڑا؟

سنہ 1990 میں جب کشمیر پر انڈین اقتدار کے خلاف مسلح شورش شروع ہوئی تو ہزاروں پنڈت خاندان کشمیر چھوڑ کر جموں اور دوسرے انڈین شہروں میں پناہ گزیں ہو گئے۔

ایسا کیا ہوا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں کشمیری پنڈتوں نے وطن ترک کر دیا؟ یہ سوال گزشتہ تین دہائیوں سے پنڈتوں اور مسلمانوں کی نئی نسل کے درمیان سوشل میڈیا پر بحث اور کشمکش کا مؤجب بنا ہوا ہے۔

ان مباحث میں غالب بیانیہ یہ ہے کہ ’کشمیری مسلمانوں نے صدیوں سے ساتھ رہنے والے پنڈتوں کے خلاف مسلح عسکریت پسندوں کی زیادتیوں کی حمایت کی، انھیں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا اور ان کی نسل کشی کے لیے ماحول بنایا۔‘

کُل کتنے پنڈت مارے گئے؟

سنجے تِکو 5000 ایسے کشمیری پنڈتوں میں سے ہیں، جنھوں نے اس قدر ہلاکت خیز حالات میں بھی گھر نہیں چھوڑا۔

ان کی انجمن ’کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی‘ نے پولیس تھانوں کے مقدموں، اخباری اطلاعات اور زبانی شواہد پر مبنی ایک طویل سروے کیا ہے۔

اس سروے کے مطابق کل ملا کر اب تک 667 پنڈت شہری مارے گئے ہیں، ان میں سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیوں کے علاوہ پولیس، نیم فوجی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے لئے کام کرنے والے بعض اہلکار اور افسر بھی شامل تھے۔

تاہم سنجے تِکو کے مطابق ’یہ سروے ابھی مکمل نہیں، میرا خیال ہے ہلاکتوں کی کل تعداد 800 ہوگی۔‘

عدالتی تحقیقات کا مطالبہ

انڈیا میں سرکاری طور پر اسی بیانیے کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔

وقفے وقفے سے پولیس ریکارڈز پر مبنی جو سرکاری یا غیر سرکاری دستاویزات سامنے آتے رہی ہیں اُن کے مطابق ہلاکتوں کی کل تعداد دو سے تین سو کے درمیان ہے لیکن ان ہلاکتوں کو ’کشمیر فائلز‘ میں جینوسائڈ یعنی نسل کشی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا ہے کہ اُن سب واقعات کی عدالتی تحقیقات کروائی جائے جو 1990 میں خاص طور پر اُسی سال کے 19 جنوری کے روز رونما ہوئے تھے جس کے بعد پنڈت خاندانوں نے ترک وطن شروع کیا تھا۔

’دا کشمیر فائلز‘ متنازع کیوں؟

چند ماہ قبل ریلیز ہوئی بالی ووڈ فلم ’دا کشمیر فائلز‘ پنڈتوں کے ہی حالات پر مبنی ہے لیکن اس کے اشتعال انگیز بیانیے سے انڈیا کے بیشتر خطوں میں پیدا ہونے والے مسلم مخالف رویوں پر کشمیر کے سب ہی سیاسی حلقوں نےتشویش کا اظہار کیا تھا۔

سنجے تِکو کہتے ہیں کہ ’ہم یہیں رہے، ہم کو بھی مسلمانوں کے ساتھ فوجی محاصروں کے دوران میدانوں میں جمع کیا جاتا تھا۔ ہمارے گھروں میں بھی فوج تلاشی کے لیے آتی تھی، ہمارے بھی لوگ کراس فائرنگ اور بم دھماکوں میں مارے گئے۔ اگر فلم واقعی سچ دکھا رہی ہے تو ہماری کہانی کہاں ہے؟‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہاں کشمیری پنڈتوں کو مارا گیا لیکن کیا مسلمانوں کو نہیں مارا گیا۔ پہلا قتل تو کشمیری مسلمان سیاستدان محمد یوسف حلوائی کو ہوا تھا۔ کوئی حقائق کو من پسند طرح دے کر من پسند نتائج بر آمد کرنا چاہتا ہو تو تاریخ بھی مسخ ہوتی ہے اور نفرتیں بھی پھیلتی ہیں۔‘

سنجے تو یہاں تک پوچھتے ہیں کہ فلم کی ریلیز کے لئے اترپردیش میں انتخابی نتائج کے اعلان کا دن ہی کیوں چنا گیا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments