ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی بحالی، سفارتکار واپس بھیجنے پر اتفاق


طیب رجب اردوغان اور ہیرزوگ
اس سال مارچ میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی دعوت پر اسرائیلی صدر آئزک ہیزروگ ترکی کے دو روزہ دورے پر دارالحکومت انقرہ آئے تھے
اسرائیل اور ترکی نے بدھ کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم یائیر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک اعلان کے مطابق تعلقات کی مکمل بحالی کے معاہدے میں تل ابیب اور انقرہ میں سفارتکار واپس بھیجنا بھی شامل ہے۔

بیان کے مطابق وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ ترکی کے ساتھ تعلقات کی تجدید اسرائیلی عوام کے لیے ایک اہم اقتصادی اثاثہ ہے۔

’یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان مکمل سفارتی نمائندگی کی سطح کے تعلقات دوبارہ بحال کیے جائیں اور دونوں ممالک کے سفیر اور قونصل جنرلز کو واپس بھیجا جائے۔‘

تاہم ترکی نے کہا ہے کہ سفارتی تعلقات کی بحالی کے فیصلے کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ انقرہ نے فلسطینیوں کی حمایت کرنا بند کر دیا ہے۔

ترکی کے وزیرِ خارجہ میولت کاسوگلو نے بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم فلسطینیوں کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو رہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے اہم ہے کہ یہ پیغام سفیر کے ذریعے براہ راست پہنچے۔‘

یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کی دعوت پر اسرائیلی صدر آئزک ہیزروگ ترکی کے دو روزہ دورے پر دارالحکومت انقرہ آئے تھے۔

ہیزروگ سنہ 2008 کے بعد پہلے اسرائیلی رہنما تھے جنھوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ اردوغان نے جولائی میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہیزروگ سے چار مرتبہ فون پر بات کی تھی جسے اسرائیلی میڈیا کی جانب سے تعلقات میں ایک خوشگوار پیش رفت قرار دیا گیا تھا۔

اسرائیلی صدر نے دورے سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا دورہ ’اسرائیل، ترکی اور تمام خطے کے لیے اہم ہیں۔‘

ہیرزوگ نے دورے سے قبل اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس دورے پر ہونے والی تمام باتوں پر اتفاق نہیں کریں گے۔ ’حالیہ برسوں میں ہمارے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آیا ہے، ہم اس رشتے کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔‘

طیب رجب اور ہیرزوگ

انھوں نے کہا تھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ اس دورے کے بعد ترکی کے ساتھ گہرے اور سنجیدہ مذاکرات کا سلسلہ مختلف سطحوں پر شروع کیا جا سکے گا اور ہم رشتوں میں بہتری دیکھیں گے۔‘

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 2010 میں ایک واقعے کے بعد خراب ہو گئے تھے جب ماوی مارمارا فلوٹیلا (چھوٹے بحری بیڑے) میں بیٹھے فلسطینیوں کے حامی مظاہرین کی اسرائیلی فوجیوں سے جھڑپ ہوئی تھی۔ اس جھڑپ میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بیڑے پر اترنے والی اسرائیلی کمانڈوز نے دس ترک شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

سنہ 2018 میں یروشلم میں امریکی سفارخانہ کھلنے کے بعد غزہ کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں میں اسرائیلی فوج نے 60 فلسطینی ہلاک کر دیے، جس پر ترکی نے احتجاج کیا اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیر ایک دوسرے کے ملک سے واپس بلا لیے۔

یہ بھی پڑھیئے

14 برس میں پہلے اسرائیلی رہنما کا دورہ ترکی کیا معنی رکھتا ہے؟

ترکی اور اسرائیل پھر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں؟

گیس ترکی اور اسرائیل کو قریب لانے لگی

ترکی اور اسرائیل کے درمیان تلخ بیانات کا تبادلہ

یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

اس سے قبل گذشتہ دسمبر ترکی میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہونے والے اسرائیلی جوڑے کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔

اگست کے اوائل میں اسرائیل نے گذشتہ تین سال سے بند اکنامک آفس کو بھی ترکی میں دوبارہ کھولا ہے۔

یہ اقدام دو سال قبل نام نہاد ابراہم معاہدے کے بعد کیا گیا ہے جس میں اسرائیل نے علاقائی طاقتوں سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے نتیجے میں بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش کے درمیان تعلقات بحال ہوئے تھے۔

اس کے بعد ترکی نے بھی 2020 میں علاقائی قوتوں سے تعلقات بہتر کرنے کی مہم چلائی اور مصر، متحدہ امارات اور سعودی عرب کے ساتھ بات چیت شروع کی۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوششیں ابھی کارگر ثابت نہیں ہو سکیں ہیں لیکن ترک حکام کہتے ہیں کہ ریاض اور ابو ظہبی کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا عمل رنگ لا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments