قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم مٹی کا قرض ( 1 ) ۔ پہلی قسط


بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم قافلہ کے زیر اہتمام جشن آزادی پاکستان کے حوالے سے پروقار انداز میں پڑاؤ ڈالا گیا۔ نظامت کے فرائض معروف صحافی اور راوی نامہ کے عنوان سے گزشتہ پچاس برس سے زائد عرصے سے مسلسل کالم نگار کی حیثیت سے جانے پہچانے جانے والے سرفراز سید المعروف شاہ جی انجام دے رہے تھے۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب اور شاعر پاکستان جناب کلیم عثمانی صاحب، جناب اختر حسین جعفری، جناب خالد احمد صاحب، طفیل ہوشیار پوری اور میر قافلہ، قافلہ کے بانی اور قافلہ پڑاؤ کے مستقل میزبان سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے ان کا شاہکار کلام سنا گیا۔

شرکائے گفتگو میں حضرت اشفاق احمد، علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ، جناب مختار مسعود، ڈاکٹر محمد اجمل خان نیازی، اسلم کمال، قائم نقوی، اسرار زیدی، بیدار سرمدی، شہزاد احمد، محترمہ صدیقہ بیگم اور اداکار محمد علی سمیت دیگر مستقل شرکائے قافلہ پڑاؤ بھی شامل تھے۔ حضرت احمد ندیم قاسمی صاحب نے گفتگو کے لیے ”مٹی کا قرض“ کا موضوع تجویز فرمایا تھا۔ یہاں یہ وضاحت یقیناً بے محل نہ ہوگی کہ میر قافلہ سید فخرالدین بلے صاحب کی وطن عزیز کے حوالے سے ایک شاہکار نظم کا عنوان ”مٹی کا قرض“ ہے۔ اسی کی نسبت سے جناب احمد ندیم قاسمی صاحب نے گفتگو کے لیے یہ عنوان تجویز اور طے فرمایا تھا۔

پاکستان کے جشن آزادی کے موقع پر قافلہ کے اس پڑاؤ میں عجیب اور رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ ہم نے پہلی مرتبہ جناب مختار مسعود صاحب، علامہ سید غلام شبیر بخاری، جناب اشفاق احمد خاں صاحب، احمد ندیم قاسمی صاحب، جناب کلیم عثمانی، جناب اختر حسین جعفری، جناب طفیل ہوشیار پوری، سید فخرالدین بلے صاحب، اداکار محمد علی اور ڈاکٹر اجمل نیازی سمیت دیگر بہت سے حاضرین محفل کی آنکھوں میں آنسو، گفتگو میں ملال اور لہجہ کرب سے لبریز تھا۔

ان میں سے اکثر نے قیام پاکستان کے اذیت ناک مراحل اور ہجرت کے لہو رنگ مناظر اپنی آنکھوں دیکھ رکھے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب لگ رہا ہے کہ جھیل رکھے تھے۔ علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ اور سید فخرالدین بلے علیگ کی رفاقت میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے جذبے سے سرشار نوجوانان ملت کے بہت سے واقعات تو جناب مختار مسعود صاحب نے بیان فرمائے اور اس کے بعد احمد ندیم قاسمی اور کلیم عثمانی اور طفیل ہوشیار پوری نے تو تحریک پاکستان کی نم ناک آنکھوں اور سوگوار انداز اور الفاظ سے جو منظر کشی فرمائی اس کو سن کر سامعین و حاضرین پر عجیب کیفیت طاری ہو گئی جسے کم از کم میں تو رقت کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دے سکتا۔

معروف اور ممتاز ترین اداکار محمد علی صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ اپنی بے سروسامانی کی حالت میں ہجرت کے لرزہ خیز واقعات بیان فرمائے۔ جناب محمد علی نے بھری محفل میں میر قافلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کو بیٹھے سے کھڑے ہو کر خراج پیش کیا اور کہا کہ لاہور میں باب پاکستان کے نام سے تعمیر کی جانے والی یادگار کا سہرا جن عظیم المرتبت شخصیات کے سر ہے ان میں جناب سید فخرالدین بلے صاحب بھی سرفہرست ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس منصوبے کے تصور میں بھی کلیدی کردار سید فخرالدین بلے بھائی صاحب کا ہے۔

جناب محمد علی صاحب اپنے خطاب اور اپنے خیالات کا اظہار فرمانے کے دوران متعدد بار غمگین ہو گئے اور ان کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں نم ناک نظر آئیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں سید فخرالدین بلے صاحب کی متعدد نظموں کے حوالے بھی دیے اور اپنے خطاب کے اختتام پر وضاحت فرمائی کہ میں اور اہل خانہ اسی راستے سے ہجرت کر کے آئے تھے کہ جہاں آج باب پاکستان کے نام سے یادگار قائم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments