عمران خان اور عوام کی امیدیں


پچھلے چار ماہ میں سیاسی صورتحال یکسر بدل کر رہ گئی ہے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا بعد ازاں یہی کچھ پنجاب میں ہوا۔ مگر یہ بات جس کو میں نے دو جملوں میں بیان کر دیا وہ یقیناً اتنی سادہ نہیں اس کے پیچھے بہت سے حقائق ہوں گے جن میں سے کچھ ہمارے سامنے آ گئے ہیں اور کچھ وقت کے ساتھ سامنے آ جائیں گے۔ میں اس بحث میں جائے بغیر اپنے اصل موضوع کی طرف آتی ہوں

عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان شاید تھوڑا انتظار کریں گے اور ٹی وی اسکرینوں سے تھوڑے وقت کے لئے غائب ہو جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا عمران خان نے عوام کو احتجاج کرنے کا کہا۔ پھر ان کی کال پہ دس اپریل کی رات کو جس طرح عوام ان کے حق میں باہر نکلی اس سے عمران خان کو مزید حوصلہ ملا اور وہ باقاعدہ سڑکوں پہ آ گئے اور اسمبلیوں سے استعفی دے دیے البتہ خان صاحب نے یہ ایک غلط فیصلہ کیا جس کا انہیں جلد ہی احساس ہو جائے گا وہ چاہتے تو ان کی جماعت ایک بہترین اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی تھی کیونکہ عمران خان وزیراعظم سے زیادہ اپوزیشن لیڈر اچھے بن سکتے ہیں مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ ان ”چوروں“ کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے جنہوں نے ”سازش“ کے تحت حکومت بنائی ہے۔ حالانکہ اگر ان کی اس بات کو مانا جائے تو پنجاب حکومت بھی اسی ”سازش“ کے تحت گرائی گئی مگر وہاں ان کی جماعت نے پارلیمان کے اندر ہی رہنے کا فیصلہ کیا جو کہ میری نظر میں درست تھا

گزشتہ چار ماہ میں عمران خان اپنی مقبولیت کے عروج پر نظر آئے انہوں نے تمام بڑے شہروں میں جلسے کیے اور اپنے ہی ماضی کے جلسوں کا ریکارڈ توڑا، لانگ مارچ بھی کیا۔ ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ اس وقت انہیں سپورٹ کر رہے ہیں ان کی بے پناہ مقبولیت کی ہلکی سی جھلک سترہ جولائی کو نظر آئی جب پنجاب میں 20 نشستوں پہ ضمنی انتخابات ہوئے ان چار ماہ میں وہ عوام کی امیدوں کو بہت اوپر لے گئے جس کے بعد میرے ذہن میں کچھ خدشات نے جنم لیا اور ان ہی خدشات کی نشاندہی کے لئے میں نے یہ کالم لکھنے کا فیصلہ کیا

عمران خان نے عوام کی امیدوں کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ ان سے امیدیں باندھ کر بیٹھ گئے ہیں کہ وہ حکومت میں آئیں گے تو بہت کچھ تبدیل کر دیں گے اور عوام کو حقیقی آزادی دلائیں گے کسی کے آگے جھکیں گے نہیں، کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، انصاف کے نظام کو بہتر کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کیا یہ سب کچھ کرسکیں گے اور اگر وہ یہ سب نہ کر سکے اور عوام کی امیدوں پہ پورا نہ اترے تو کیا ہو گا؟

لوگوں کی امیدیں اگر اس بار ٹوٹی تو کیا عوام آئندہ کسی سیاست دان پر بھروسا کر سکیں گے؟ عمران خان نے 2018 کے الیکشن سے پہلے کرپشن کے خاتمے کو لے کر عوام کی امیدیں اسی طرح بہت بڑھا دیں تھی بڑے بڑے دعوی اور وعدے کر لئے تھے مگر پھر ہم نے دیکھا کہ وہ کچھ نہ کر سکے ان ہی کے دور میں نواز شریف جو کہ عدالتوں سے سزا یافتہ تھے، جیل سے چھوٹ کر باہر گئے ان ہی کے دور میں کرپشن کیسز میں نیب نے تاخیری حربے آزمائے اس بارے میں اپنی ناکامی کا اظہار وہ برملا خود بھی کرتے رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ نیب ان کے کنٹرول میں ہی نہیں تھا وہ کرپشن کا بیانیہ جسے وہ 20 سال تک پروان چڑھاتے رہے جب ان کی حکومت آئی تو اس بیانیے کو عملی طور پر پورا نہ کرسکے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اپنی حکومت کے ساڑھے تین سال وہ چومکھی لڑائی لڑتے رہے انہوں نے ہر ایک سے لڑائی مول لے لی اور اپنا زیادہ وقت مخالفین کو سیاسی طور پہ کنٹرول کرنے میں گزارا۔

عمران خان نے ابھی تک واضح طور پہ یہ نہیں بتایا کہ اپنے حالیہ وعدوں کو پورا کرنے کے لئے کیا کریں گے؟ عمران خان کی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وہیں سے شروعات کریں گے جہاں چھوڑ کر گئے ہیں۔ گو کہ یہ مستقبل کی بات ہے جس کے بارے میں کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ مجھے صرف اسی ایک بات کا ڈر ہے کہ عمران خان لوگوں کی امیدوں پہ پورا نہ اترے اور اپنے وعدوں کے برعکس کچھ کیا جو کہ امکان ہے کریں گے تو کیا عوام آئندہ کسی لیڈر پہ بھروسا کرنے کے قابل رہے گی؟

عمران خان نے جتنی امیدیں بڑھا دی ہیں اس کے بعد انہیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے ہوں گے اقتدار میں واپس آنے کی صورت میں وہ کوئی بہانہ بنانے کے قابل نہیں ہوں گے اور انہیں اپنی کہی ہوئی ہر بات اور ہر وعدہ اپنے ذہن میں رکھنا ہو گا کہ انہوں نے عوام سے کیا کیا وعدے کیے ہیں؟ نہ صرف ذہن میں رکھنا ہو گا بلکہ انہیں پورا بھی کرنا ہونا ہو گا۔ کیونکہ بار بار آپ کو چانس نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments