قومی تعلیمی نصاب میں ”بچوں کی سبز کتاب“ کا ہونا کیوں ضروری ہے؟


موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے بنیادی سطح پر بیداری پیدا کرنے کے اقدامات کرنا ایک اجتماعی قومی فریضہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ہر ایک کو متاثر کرتی ہے، لیکن پاکستان میں تحفظ ماحول کے لیے نہ تو ذرائع ابلاغ میں کوئی بڑی مہم دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی سیاسی محاذ پر۔ پالیسی ساز ادارے بھی مستقبل کی خوف ناک ماحولیاتی صورت حال کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی میں بہت کم اضافے کا باعث بن رہا ہے، لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے، جس کے نتیجے میں یہاں قدرتی وسائل اور فطری ماحول کو کافی خطرات لاحق ہیں۔ اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نئی نسل کو آگہی فراہم کی جائے اور بطور الگ مضمون کے، اسے قومی تعلیمی نصاب کا حصہ بنا کر ملک بھر کے سکولوں میں پڑھایا جائے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب نے طلباء و طالبات کو موسمیاتی تبدیلی کے مضمرات اور عوامل سے آگاہ کرنے اور سرسبز و شاداب ماحول کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرنے کے لیے سرکاری سکولوں میں موسمیاتی تبدیلی کو بطور مضمون پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں یونیسکو کی معاونت سے ”بچوں کی سبز کتاب“ منظر عام پر لائی گئی ہے جس کا پہلا مسودہ شایع ہو گیا ہے۔ رنگین تصاویر اور دیدہ زیب گرافکس سے آراستہ اس کتاب کا متن ایک لڑکے خضر اور لڑکی گل کے کردار کے گرد گھومتا ہے، جو چھٹی اور ساتویں جماعت کے طالب علم ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

اس کتاب کی اشاعت میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور اور ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر ملتان کے ماہرین کی آراء کو مدنظر رکھا گیا ہے جب کہ پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بورڈ نے بھی اسے ایک نصابی مضمون کے طور پر سرکاری سکولوں میں پڑھانے کی منظوری دے دی ہے۔ اس کتاب میں موسمیاتی تبدیلی اور اس سے جڑے متعلقہ معاملات جیسے جنگلات، زراعت، ہارٹی کلچر، کچن گارڈننگ، پانی کی اہمیت اور دیگر مضمون شامل کیے گئے ہیں۔ بچوں کی ذہنی استعداد کے مطابق کتاب کو انتہائی آسان فہم اور سادہ الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ کتاب کا ہر باب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ کہانی کاہے، دوسرے حصے میں تجزیاتی سوالات ہیں جس میں بچہ اپنا ذہن لگا کر ان سوالوں کا جواب دے گا جب کہ تیسرے حصے میں دو پریکٹیکل ہیں۔ ایک سکول کے لیے اور ایک گھر کے لیے جو اسے گھر والوں کے ساتھ مل کر کرنا ہے۔

کتاب کے مصنف ڈاکٹر احتشام انور ہیں جو اس وقت سیکرٹری سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب کے طور پر اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر احتشام انور کا اسلوب کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ”بچوں کی سبز کتاب“ میں انہوں نے اپنے کثیر مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں مختلف عنوانات کے تحت مختصر مگر پراثر مکالمے کی شکل میں طلبہ کو موسمیاتی تبدیلی کے سلسلے میں آگہی کی طرف راغب کرنے کے لیے سرسبز و شاداب ماحول کی اہمیت، شجر کاری کی ضرورت، طریق کار اور اپنے تجربات کو جمع کیا ہے۔

ڈاکٹر احتشام انور کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے، ہیٹ ویو کی حالیہ صورت حال میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ ایک ایسی نسل تیار کی جائے جو صاف اور سرسبز ماحول کی اہمیت اور اس سے متعلقہ مسائل سے پوری طرح آگاہ ہو، لہذا ”بچوں کی سبز کتاب“ کی اشاعت کا مقصد ہر سکول کو آب و ہوا کے لیے تیار کرنا ہے۔

ڈاکٹر احتشام انور نے کہا کہ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں کسی بھی جگہ موسمیاتی تبدیلی کو سکولوں میں بطور ایک مضمون نہیں پڑھایا جا رہا ۔ اسی لیے ”بچوں کی سبز کتاب“ کے منصوبے کی کامیابی کے بعد پاکستان دنیا کے لیے ایک مثال کے طور پر سامنے آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ کتاب کو یونیسکو بھی بھیجا گیا جن کی جانب سے دریائے سندھ کو مزید واضح طور پر بیان کرنے اور پانی کے حوالے سے ایک کہانی اس کتاب میں شامل کرنے کی تجاویز آئیں جن کے تناظر میں ہم نے ”پانی کہانی“ کے نام سے کتاب میں ایک اور باب کا اضافہ کیا۔

سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب کی اس کاوش سے پاکستان انتہائی ضروری اقدام کرنے والا پہلا ملک ہونے کا اعزاز حاصل کرے گا۔ پاکستان کے ثقافتی و موسمی تناظر میں یہ کتاب کہانی کی شکل میں خوب صورت اور جامع انداز میں لکھی گئی ہے اور یونیسکو کی شائع شدہ رپورٹ میں بیان کردہ رہنما خطوط کی پیروی کرتی ہے۔ ”بچوں کی سبز کتاب“ کی اشاعت، سرکاری سکولوں میں تقسیم اور تدریس کے لیے یونیسکو کا ادارہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب کو معاونت فراہم کرے گا۔ مزید برآں ”بچوں کی سبز کتاب“ اپنے مواد کے ضمن میں خود کو صرف بچوں کی تعلیم تک محدود نہیں رکھتی بلکہ خاندان کے تمام دل چسپی رکھنے والے افراد کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔

معلومات اور طرز تحریر سے ڈاکٹر صاحب اپنے قاری کو متاثر کرتے اور دل و دماغ کو اسیر کرتے نظر آئیں گے۔ کتاب واقعی پڑھے جانے کے لائق ہے، یہ موٹیویشن دیتی ہے۔ ہم نے اس کے اصل کا متن کا مطالعہ کیا تھا، جو لطف آیا ہم اس کے اظہار پر خود کو غیر قادر محسوس کرتے ہیں۔ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جنوبی پنجاب کا یہ تعلیمی اقدام موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بیداری لانے کا باعث بن سکتا ہے اور ماحول دوست طریقوں پر عمل کرنے کی اہمیت گھرانوں تک پہنچ سکتی ہے۔

والدین، اساتذہ، طلبہ اور دیگر شہریوں کی طرف سے مواد کا جائزہ لینے، تبصرے اور اس میں مزید بہتری کی آراء دینے کے لیے ویب سائٹ www.thechildrengreenbook.net پر ”بچوں کی سبز کتاب“ کا ڈیجیٹل ورژن دستیاب ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے وزیر ماحولیات شیری رحمٰن کی زیر قیادت ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے، امید ہے کہ یہ ٹاسک فورس ”بچوں کی سبز کتاب“ کو صوبائی اور وفاقی سطح پر سکولوں میں اپنانے کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments