میاں مان جاتا ہے کام والی نہیں مانتی


میری کام والی بہت چھٹیاں کرتی ہے۔ کوئی اچھی کام والی ہے تو بتاؤ، اکثر خواتین کی گفتگو اسی بات سے شروع ہوتی ہے۔ کام والیوں کا اتنا کال پڑا ہے کہ انھیں بلانے کے لیے اداروں کو کال کرنا پڑتی ہے۔ لوگ ترسنے لگے ہیں کہ انھیں گھر کے کام کاج کے لیے کام والی مل جائے۔ لیکن کام والیاں ہیں کہ مل کے نہیں دیتیں اور جو مل جائیں تو ان کی ڈیمانڈز ایسی ہوتی ہیں کہ سن کر ناک سے دھواں نکلنے لگتا ہے۔ اور پھر اچھی کام والیاں ملنا تو ایسا ہی ہے جیسے امریکہ کا افغانستان فتح کرنے کا خواب دیکھنا۔

کام والیوں کے معیار پر پورا اترنا آسان کام نہیں۔ اسے دریا نہیں تو آگ کی جھیل ضرور سمجھیں جسے پار نہیں کیا جا سکتا۔ کسی کام والی کو آپ کے گھر کا سادہ فرش پسند نہیں تو کوئی سادہ جھاڑو کی بجائے مہنگے پھول جھاڑو کا تقاضا کرے گی۔ کسی کو اعتراض ہوتا ہے کہ اس کو دیے گئے رات کے بچے سالن سے بوٹیاں کیوں غائب ہیں۔ اور کوئی اس لیے کام چھوڑ جاتی ہے کہ آپ نے راشن تالے میں کیوں رکھا۔ اتوار کی چھٹی کے علاوہ ہفتے میں دو مزید چھٹیاں کرنا اپنا حق سمجھتی ہیں۔

پندرہ دن کام کر کے پورے مہینے کی تنخواہ لینے کو ہی یہ جمہوریت کا حسن مانتی ہیں۔ آپ ان سب باتوں پہ سمجھوتہ کر بھی لیں تب بھی آپ سے کچھ نہ کچھ کوتاہی ہو ہی جاتی ہے۔ کام والیوں کے مزاج ہمیشہ آٹھویں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر گھروں میں آئے دن کام والیاں بدلنی پڑتی ہیں۔ کہ اگر ان کام والیوں کو نہ بدلا جائے تو پھر وہ خود اپنی مالکن بدل لیتی ہیں۔ میں اس آئے روز کے ادل بدل سے سخت عاجز آ چکی ہوں۔ مجھے وہ کام والی چاہیے جو بچپن میں آئے اور پچپن میں بھی ساتھ نہ چھوڑے۔

وفادار ہو، گھر کے معاملات میں مداخلت نہ کرے بس اپنے کام سے کام رکھے۔ جو کہوں فٹ سے کردے۔ سیدھی سادھی اللہ میاں کی گائے ہو۔ شکل صورت پہ مجھے اعتراض نہیں، ہاں خوبصورت نہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن ایسی من پسند کام والیاں اوپر آسمانوں پہ ہی محو انتظار ہو سکتی ہیں، یہاں تو کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وجہ اس کی یہ مت سمجھیے گا کہ میں بہت مزاج والی ہوں۔ اور مجھے کوئی کام والی پسند نہیں آتی بلکہ وجہ یہ ہے کہ کسی بھی کام والی کو میں پسند نہیں آتی۔

گو کہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرتی ہوں کہ ان کے معیار پہ ہر صورت پوری اتروں لیکن ہمیشہ کچھ نہ کچھ غلط ہوجاتا ہے کہ ان کی رخصتی یقینی ہو جاتی ہے۔ سال میں چار بار موسم بدلتا ہے تو آٹھ بار کام والیاں۔ ایک کی وجہ سے دیر سے اٹھنے کی عادت ڈالتی ہوں تو دوسری نہار منہ آ کر سر پہ سوار ہو جائے گی۔ لاکھ سر پٹخوں لیکن ان کی بلا سے۔ ابھی پچھلی ملازمہ ”شیلا کی جوانی“ کا قصہ ہی سنیئے جسے جبری رخصت کیا تھا۔ اگر وہ رخصت نہ ہوتی تو چند ماہ بعد میری رخصتی کروا دیتی، سو اسی کو رخصت کرنے میں بہتری جانی۔

کجا کہ کام والیاں ٹکتیں نہیں تھی اور کہاں یہ کام چھوڑ کر جا نہیں رہی تھی۔ ڈبل میجک گم کی طرح چپک گئی تھی۔ ایک تو نام تھا اس کا شیلا، اوپر سے بھری جوانی۔ گانا بھی زیادہ یہی گاتی، شیلا کی جوانی، تیرے ہاتھ کبھی نہ آنی۔ میوزک لگائے بنا اس سے کام اور سنگر کا ساتھ دیے بنا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ جب وہ سنگر کے ساتھ اپنا سر لگاتی تو اکثر سنگر بے سرا لگتا، کہ جو بھی تھا آواز اس کی خاصی سریلی تھی۔ آنکھوں میں بھر بھر کے کاجل لگاتی، جو اس کی فارمولہ کریموں سے تازہ تازہ گورے ہوئے رنگ پہ بھلا ہی لگتا۔

نخرہ بھی بہت تھا۔ کام پہ لگنے سے پہلے ہی اس نے بتا دیا تھا وہ واش روم صاف نہیں کرے گی۔ جس دن کپڑے دھونے ہوں اس دن صفائی نہیں کرے گی۔ رنگت نہ سنولا جائے اس لیے دھلے ہوئے کپڑے چھت پہ ڈالنے نہیں جائے گی۔ میں جب بھی کوئی نیا سوٹ پہنتی تو مجھے یہی کہتی باجی تم پر تو یہ بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ یہی سوٹ اگر میں پہنتی تو قسم خدا کی تم دیکھتی رہ جاتی۔ اور میں اس کا یہ بیان سن کر ہی اس کو دیکھتی رہ جاتی۔

وہ اکثر کام والیوں کی طرح اتوار کو چھٹی ہرگز نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس دن تو خاص اہتمام سے تیار ہو کر آتی۔ آتے ہی کچن میں گھس جاتی، آج تو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ بنا کر کھلاؤں گی۔ صاب جی کیا یاد کریں گے کس شیلا سے واسطہ پڑا ہے۔ آنے بہانے عزیر کے گرد گھومتی رہتی۔ عزیر بھی اس کی ”قابلیت“ کے سحر میں مبتلا ہو رہے تھے۔ اس دن تو حد ہی ہو گئی۔ شیلا سے ہی کچھ سیکھ لو، اتنے گھروں میں کام کرتی ہے لیکن فریش لگتی ہے۔ اور تم گھر والی ہو کر ماسی لگتی ہو والے۔ اس بات نے مانو تن بدن میں آگ ہی لگا دی۔

مانا شکل سے کترینہ نہیں لگتی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میاں گھر آئی ملازمہ سے موازنہ ہی کرنے لگے۔ چھچھوندر جئی نہ ہووے۔ اگلے دن ہی اس کا حساب کر دیا۔ وہ کام چھوڑنے کو ذرا تیار نہ تھی، لیکن میں اب اسے مزید رکھنے کو تیار نہ ہو سکی۔ اس کے جانے کے دو مہینے بعد تک مجھے کوئی کام والی نہیں ملی۔ بھلے ساری زندگی نہ کام والی ملتی لیکن اس شیلا کو تو میں کبھی واپس نہ لاتی۔ اللہ اللہ کر کے اب ایک بلی نامی نئی کام والی ملی ہے یہ ادھیڑ عمر عورت ہے۔

کام اپنی مرضی سے کرتی ہے۔ جو کہو وہ تو ہرگز نہیں کرتی۔ میں اس کے کسی کام میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ وہ جیسا بھی کام کرے مجھے خاموش رہنا ہے۔ صبح سات بجے آجاتی ہے۔ دروازہ کھولنے پہ ذرا سی دیر ہو جائے تو خوب بولتی ہے۔ لیکن یہ دیر مجھ سے آج پھر ہو گئی۔ کتنی دیر لگاتی ہو دروازہ کھولنے میں، پہلی بیل پہ نہیں کھول سکتی۔ وہ سخت غصے میں تھی۔

آپ ہی تھوڑا لیٹ آ جایا کرو۔ پورا احترام دیتے بہت محتاط انداز میں بس اتنا ہی کہا تھا کہ وہ وہیں دروازے پر ہی رک گئی۔ خود جلدی نہ اٹھنا مجھے دیر سے آنے کا کہو۔ نہیں کام کروانا تو مت کرواؤ۔ تمھیں پہلے ہی کہا تھا کہ یہی وقت ہے میرے پاس۔ اگر کام کروانا ہے تو اسی وقت آؤں گی۔ پہلے تم لوگوں کی منتیں ختم نہیں ہوتیں کام کردو، کام کردو اور بعد میں باتیں سناتی ہو۔ کام کروانا ہے تو اسی وقت آؤں گی، ابھی بھی سوچ لو۔

بس جی یہ سننے کی دیر تھی کہ میرا کلیجہ ہاتھ کو آنے لگا۔ روک سکو تو روک لو بلی آئی رے۔ اسے کاندھوں سے پکڑ کر اندر کھینچا۔ میں تو یونہی کہہ رہی تھی اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے آپ کا اپنا گھر ہے جس وقت چاہے آئیں۔ ناشتہ کریں گی۔ کیا بناؤں آپ کے لیے ۔ لہجے میں مٹھاس بھر کے خوشامدانہ لہجے میں اس سے کہا۔

آملیٹ اور بل دار پراٹھا بنا لے۔ گھی زیادہ لگانا، پچھلی بار کی طرح سوکھے بل ڈال کر نہ لے آنا۔ اور چائے کالی سیاہ مت بنانا۔ تمھیں پتہ میں دودھ میں ہلکی سی پتی ڈالتی ہوں۔ یہ فرما کر بلی صاحبہ صوفے پہ نیم دراز ہو گئی اور ٹی وی لگا لیا۔ آفس دور ہونے کی وجہ سے عزیر گھر سے جلدی نکلتے تھے۔ بلی کے چونچلوں میں عزیر کو دیر ہو رہی تھی۔ لیکن ان کی گھوریاں نظر انداز کر کے بلی کے کے لیے ناشتہ بنانے لگ گئی کہ کام والی کو خوش رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ میاں کا کیا ہے، وہ تو مان ہی جاتا ہے پر کام والی نہیں مانتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments