کیا ہمارے معاشرے میں بوڑھے والدین، اولاد کی ذمہ داری نہیں ہیں؟


آج کل ایک ٹرینڈ بہت زیادہ دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ والدین بچوں کو اپنی انوسٹمنٹ سمجھتے ہیں جو وہ بڑھاپے میں کیش کروانا چاہتے ہیں۔ اولڈ پیپلز ہاؤس کے تصور کو عام کرنا چاہیے۔ ”جب پال نہیں سکتے تھے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہیں۔ اولاد نے تو نہیں کہا کہ ہمیں پیدا کرو۔ اگر تربیت کی تو کون سا احسان کیا ہے یہ تو ذمہ داری تھی۔“ یہ اور اس طرح کے ملتے جلتے جملے اور نظریات آج کے دور میں تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔

اس رویے اور سوچ کی تبدیلی کو سماجی و معاشی حالات کے پس منظر سے ہٹا کے نہیں دیکھا جا سکتا۔

بات یہ ہے کہ اس سوچ کو ماننے والے اپنے نظریات کو ترقی یافتہ ممالک کے سماج کی مثال دے کر جواز بناتے ہیں کہ والدین بچوں کی ذمہ داری ہیں نہ ہی بچے ان کی انوسٹمنٹ کہ جس سے وہ بڑھاپے میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات سطحی تجزیے کے بعد کہی جاتی ہے۔ ایک واضح تجزیے کے لیے اس سماج کی معاشی ڈھانچے کا گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

سماجی نظام اور معاشی ڈھانچے کا بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ ترقی یافتہ ممالک جہاں اولاد اٹھارہ سال کی عمر میں مکمل بالغ سمجھی جاتی ہے اپنی زندگی کے فیصلے میں آزاد ہوتی ہے اور آزادانہ زندگی گزار سکتی اس معاشرے کی حکومت ان بچوں کو پیدائش سے مناسب وظیفہ دیتی ہے ان کی صحت، تعلیم، تربیت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ والدین کی مشکل وقت میں مدد کرتی ہے۔ وہاں بچے کسی ایک خاندان کے نہیں بلکہ سوسائٹی کے ہوتے ہیں۔ حکومت انہیں اون کرتی ہے ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔ وہی حکومت بزرگوں اور بے روزگار افراد کو بھی ایک مناسب وظیفہ دیتی ہے اور کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے ایسے معاشروں کی اخلاقیات ریفائن ہوتی ہے۔ انہیں پرسنل سپیس کے بارے میں پتہ ہوتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو خوشحال انداز سے گزار سکتے ہیں۔

اب ہم اپنے سماج کو دیکھتے ہیں یہاں بچے کی پیدائش سے لے کر زندگی کے آخری دم تک بچہ والدین کی ذمہ داری ہے۔ ایک بار بچہ پیدا ہو گیا سمجھو گیا اس کے بعد والدین کی اپنی زندگی نہیں رہتی اس کی بنیادی ضروریات سے لیکر، تعلیم، صحت، تربیت ہو ذمہ داری والدین کی ہے نہ حکومت کی طرف سے کوئی معاشی مدد ملتی ہے نہ ہی معاشرہ بچے کو اون کرتا ہے۔ مڈل کلاس والدین اپنے خواب بھول جاتے ہیں ہر خوشی قربان کرتے ہیں کہ اولاد کو سکھ مل سکے نہ وہ روپے پیسے کی بچت کر سکتے ہیں نہ ہی انشورنس پالیسی ہوتی ہے جو بڑھاپے میں سہارا بنے، نہ حکومت کی طرف سے کوئی وظیفہ یا سہولت تو ایسے میں وہ کیسے اپنے طور پہ سروائیو کر سکتے ہیں۔ اور وہ اولاد جو والدین کا خون چوس کے بڑی ہوئی ہے کیسے کہہ سکتی ہے کہ انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا جائے۔

ہمارے سماجی نظام میں والدین اور اولاد ایک دوسرے پہ ڈیپینڈنٹ ہیں وہ معاشی سماجی اور جذباتی طور پہ اپنی اپنی توانائی کے زمانے میں ایک دوسرے پہ انحصار کرتے ہیں۔ اس لیے والدین کے بڑھاپے میں ان کو گھر میں رکھنا ان کی دیکھ بھال کرنا، صحت کا خیال رکھنا اولاد پہ ویسے کی فرض خیال کیا جاتا ہے جیسے والدین نے ان کو بچپن سے لے کر جوانی تک پالا اور ان کے ہر مشکل وقت میں مدد کی۔

کوئی بھی سماجی رویہ جب وہ کسی دوسری تہذیب سے منتقل ہوتا ہے یا اسے اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے معاشی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کہ وہ رویہ کن حالات میں پروان چڑھا ہے اور اس کے عوامل کیا ہیں۔ ہمیں سماج میں یہ تبدیلی چاہیے کہ یہاں فرد کی اہمیت خاندان سے زیادہ اور ہر انسان مکمل آزادانہ زندگی گزار سکے تو معاشی نظام کو بدلنا ہو گا تب سماجی ڈھانچہ بھی بدلے گا۔ اچھی اخلاقیات کا تعلق اچھی معیشت سے جڑا ہے۔ جتنا معاشرہ غم روزگار سے آزاد اور ان سیکیورٹیز سے محفوظ ہو گا اتنا ہی اس کے افراد ذہنی، اخلاقی اور سماجی طور پہ کار آمد اور صحتمند ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments