ٹرین مجرا، ریلوے منافع بخش بنائیں


ٹویٹر بہت کم استعمال کرتا ہوں، جب بھی ٹویٹر کھولو، سیاسی جماعتوں کے کارکن ایک دوسرے پر آگ کے گولے برسا رہے ہوتے ہیں، سیاسی جنگ میں وہ اخلاقیات کا جنازہ نکالتے ہوئے ہر حد پار کر جاتے ہیں، اوپر سے ایک ہینڈ سم نے اپنے ٹائیگروں کی تربیت ایسی کی ہے کہ ان سے بچ کر گزرنا ایسے ہی ہے جیسے گلی میں کسی جانور کے غول سے بچ کر نکلنا

بدھ کی رات ٹویٹر کھولا تو ڈان کے رپورٹر آصف چودھری کی ٹویٹ کی ہوئی ایک ویڈیو دیکھی جس کو دیکھ کر کچھ راحت محسوس ہوئی، ویڈیو تیزگام ایکسپریس ٹرین کی تھی جس کی ڈائننگ کار میں ایک خاتون (شاید خواجہ سراء تھی) رقص کر رہی تھی، میزوں کے ساتھ لگی کرسیوں پر بیٹھے لوگ ٹرین مجرے سے لطف اندوز ہو رہے تھے، رقاصہ جس گانے پر رقص کر رہی تھی وہ نصیبو لعل کا مشہور گانا ہے، ”بڈھے وارے وی عشق پیا کر دا اے، پاندا ہووئے گا جوانی چ ہنیر ظالما“

نصیبو لعل کا ویسے ہی فین ہوں کیونکہ انہوں نے ”کرتی اے گلی گلی، لاچا اے گلا گلا“ سے لیکر ”تو جھوم جھوم“ تک ہر گانے سے بھرپور انصاف کیا ہے، ویڈیو میں مجرہ مکمل تو نہیں تھا مگر چند منٹوں کی ویڈیو سے خوشگوار حیرت ضرور ہوئی، رات کو فیس بک اوپن کی تو وہاں اسی ڈائننگ کار میں ایک دوسرے مجرے کی ویڈیو تھی، اس ویڈیو میں دوسری رقاصہ نے اعضاء کی شاعری تو بہت کم کی مگر نصیبو لعل کا گانا ”چلی ساون دی ہنیری، دو انار ہل گئے“ یاد کرا دیا، پھر رقاصہ ٹرین میں سوار ایک مولوی صاحب پر لیٹ گئی

بچپن میں ٹرین پر بہت سفر کیا، بہت دلچسپ سفر ہوتا ہے اگر سفر لمبا ہو اور آپ کو برتھ مل جائے اور اگر چھوٹا ہو تو سیٹ مل جائے تو سفر کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے، لاہور ہمارا مرکز تھا، والد صاحب کاروبار کے سلسلہ میں رحیم یار خان سیٹ ہو گئے، ہر دو ماہ بعد غمی و خوشی میں شرکت کرنے کے لئے لاہور آنا پڑتا تھا، 70 اور 80 کی دہائی میں ٹرین واحد ذریعہ سفر ہوتا تھا جو کم خرچ بھی ہوتا اور محفوظ بھی، جس سٹیشن پر ٹرین رکتی، پہلی آواز کانوں میں یہ پڑتی، چائے والا، چائے والا، گرما گرم چائے والا، پھر ٹرین چلنے تک کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والوں کی آوازیں سننا پڑتی تھیں، ٹرین چلنے پر سکھ کا سانس ملتا

چائے والا سے اتنا تنگ تھا کہ رات کے سفر میں برتھ پر آرام سے سو رہے ہوتے اور ٹرین کسی سٹیشن پر رکتی تو چائے والے کی کرخت آواز کانوں میں پڑتی تو آنکھ کھل جاتی، پھر یہ ہوتا کہ فجر کی اذان کا وقت ہوتا تو تبلیغی بھائی ٹرین میں فجر کی اذان دینے لگتے، پھر ٹرین میں نماز فجر باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا، نماز مکمل ہونے کے بعد تبلیغی بھائی بوگی میں پھیل جاتے اور تبلیغ شروع کر دیتے، کئی بار یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملتے کہ لوگ ان سے بحث کرنا شروع کر دیتے اور بعض اوقات بات بڑھ جاتی اور ماحول گرم بھی ہوجاتا، پھر صلح جو لوگ بیچ، بچاؤ کراتے

ٹرین میں مجرا دیکھ کر تھوڑا سا برا بھی لگا کہ کسی دور میں ٹرینوں میں تبلیغی بھائی مسلمانوں کو اسلام کی راہ پر لایا کرتے تھے مگر آج ٹرین میں مجرے شروع ہو گئے ہیں، نہیں جانتا کہ اب تبلیغی بھائی ٹرینوں میں کیوں نہیں جاتے، شاید وہ ان مجروں کے خوف سے ٹرینوں پر چڑھنا چھوڑ گئے ہیں کہ کہیں ایمان خراب نہ ہو جائے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے تبلیغی بھائیوں نے انداز تبلیغ بدل لیا ہو اور واٹس ایپ یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اسلام کی دعوت دے رہے ہوں، بہرحال یہ بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہی تھا

اگلے روز پیارے بھائی مسعود اختر نے بتایا کہ شاہ جی قراقرم ایکسپریس میں بھی مجرے کی ویڈیو سامنے آ گئی ہے اور پھر اس نے وہ ویڈیو پر بھیج دی، نئی ویڈیو کو دیکھ کر دل مزید خوش ہو گیا، اس میں رقاصہ ملکو کے گانے پرفن کا مظاہرہ کر رہی ہے، گانے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرین راولپنڈی جا رہی ہے، ایک بار دل میں خیال آیا کہ تبدیلی تو خان صاحب نے لانا تھی، مگر یہ تبدیلی مسلم لیگ نون کی حکومت اور لیگی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے دور میں ہی کیوں آئی ہے

بیڑا غرق ہو ان ٹی وی چینلز کا ، جو ہر بات پر کھپ ڈال دیتے ہیں جس پر وزیر ریلوے نے نوٹس لے لیا اور کہا کہ تیزگام نجی شعبہ چلا رہا ہے، مگر اس طرح کے کاموں کی اجازت نہیں دے سکتے، کمپنی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے، اب بھلا اس میں شوکاز نوٹس دینے کی کیا بات ہے، رقاصاؤں نے وزیر ریلوے کو بہترین ٹپ دی ہے اگر وزیر ریلوے ٹھنڈے دل سے غور کریں تو یہ بہت بڑا منافع بخش کام ہو سکتا ہے

جب سے ہوش سنبھالا ہے، ریلوے کو خسارے میں ہی سنا ہے، درجنوں وزیر آئے، درجنوں حکومتیں آئیں کوئی بھی ریلوے کو خسارے سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ، ماضی کی حکومت وزیر ریلوے شیخ رشید عوام کو سہانے خواب ہی دکھاتا رہا ہے کہ ٹریک بدل دیں گے، ٹرینوں دو سو کلومیٹر کی رفتار سے چلیں گی اور ریلوے کو منافع بخش بنا دوں گا، پھر وہ نالہ لئی میں غرق ہو گئے

خواجہ سعد رفیق کو غصہ نہیں کرنا چاہیے اور اس شتر بے مہار میڈیا سے نہیں ڈرنا چاہیے، ان کو ریلوے کو منافع بخش بنانے کے لئے ہر ٹرین میں مجروں کا اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ ان کی اجازت کی بغیر بھی تو مجرے ہو رہے ہیں، پھر باقاعدہ اجازت دے کر کروڑوں روپے کمائیں، سٹیج پر اس طرح کے مجرے دیکھنے کے لئے لوگ دس، دس ہزار کے ٹکٹ لیتے ہیں اگر یہی سہولت مسافروں کو دیدی جائے تو لاہور، راولپنڈی کے سفر کا ٹکٹ دس ہزار روپے کر دیا جائے اس کے لئے باقاعدہ تشہیری مہم چلائی، اس کی نعرہ بازی ایسے ہونی چاہیے، لاہور، راولپنڈی سبک رفتار ریل کار، سفر پانچ گھنٹوں میں طے کریں، پانچ بہترین رقص آئٹمز پیش کیے جائیں گے، ٹرین کی قتالہ، معروف رقاصہ ببلی، ڈولی کی شاندار پرفارمنس

ٹرینوں کے اکثر انجن فیل ہو جاتے ہیں، ان حالات میں ریلوے کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، جب تک نیا انجن نہ پہنچے، دو رقص بڑھا دیں، مسافر پرسکون ہو کر نئے انجن کا انتظار کریں گے اور ریلوے کے خلاف احتجاج کریں گے نہ نعرہ بازی، اس طرح ریلوے کا کاروبار خوب چمکے گا، اس اقدام سے جب ٹرین سٹیشن پر رکی گی تو چائے والے کی کرخت آواز کانوں میں نہیں پڑے گی، سٹیشن سے چڑھنے والے نئے مسافر مختلف بوگیوں میں ہونے والے مجروں کے گانے باہر ہی سن لیں اور پھر فیصلہ کریں گے کہ کون سی بوگی میں سوار ہونا ہے، بوگیوں سے ان گانوں کی آواز آئے گی، ”نیڑے آ ظالما وے، میں ٹھر گئی آں“ ”اسی کڑیاں شیر دیاں آں، دبئی آئیاں، پیراں وچ پائیاں لچھیاں“ ”ببلو پا پا۔“ ”میں جتھوں جھتوں کینی اے کیو نئی چھیڑ دا“

ملتانی دوست ناصر شیخ کے خواجہ سراؤں سے بہت اچھے تعلقات ہیں کیونکہ وہ پروموٹر ہیں، بیرون ملک ثقافتی طائفے لے کر جاتے ہیں، ان کا مشورہ ہے کہ سعد رفیق ہر دو ماہ بعد ملک کے نامور خواجہ سراء مہک ملک کی پرفارمنس بھی ٹرین میں رکھیں، سال میں تین، چار پرفارمنس مہک ملک کی کرالیں، ریلوے کا سارا خسارہ ختم ہو جائے گا کیونکہ مہک ملک کے چاہنے والے شادیوں کی تاریخ مہک ملک کی دستیابی کے حساب سے ہی رکھتے ہیں

ناصر شیخ کی تجویز تو بہت اعلی ہے، بہتر ہو گا ریلوے سرکاری طور پر رقاصاؤں کو بھرتی کر لے، اس فائدہ یہ ہو گا کہ جس طرح ریلوے افسران نے ریلوے کی کوئی چیز نہیں چھوڑی اسی طرح رقاصائیں بھی افسروں کے ایکڑوں پر محیط بنگلوں پر مفت پرفارمنس دیں گی اور آخر میں ان کا کا مفت میں مساج بھی کر دیا کریں گی، اس طرح ریلوے کے افسران کو بھی اس کاروبار پر اعتراض نہیں ہو گا اور وہ بھی ریلوے کو منافع بخش بنانے میں رقاصاؤں کا پورا ساتھ دیں گے

اس تجویز پر اگر سعد رفیق عمل کر لیں تو دو سے تین سال میں ریلوے نہ صرف خسارے سے نکل جائے گا بلکہ پشاور سے کراچی تک نیا ٹریک بھی بچھانے کے قابل ہو جائے گا، ہر شہر میں بڑے بڑے بینر لگائے جائیں، تیز گام کی شان، مسافروں کی جان، ماریہ جان کی بہترین پرفارمنس، ایک ٹکٹ میں دو مزے، سفر بھی، مزا بھی، حکومتی سرپرستی میں محفوظ سفر، تیز رو نئی فنکاراؤں کے ساتھ، فوری بکنگ کرائیں، چند سیٹیں باقی ہیں اور ہاں وزیر ریلوے چاہیں تو رقاصاؤں کو ہونے والی ویلوں سے بھی 25 فیصد حصہ سرکاری خزانے میں جمع کرایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments