سیاسی بحران اور پنجاب حکومت کا مستقبل


مارچ سے شروع ہونے والا سیاسی بحران جس کا آغاز تحریک اعتماد کے ذریعے عمران خان کی وزارت عظمی کے خاتمہ سے ہوا اور جس کے دوران سپیکر کی ایک غیر آئینی قرار دی گئی رولنگ کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت برقرار رکھنے کی سر توڑ کوشش دیکھنے میں آئی۔ اگرچہ پی ڈی ایم اپنی تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہو گئی مگر اس کے بعد عمران خان نے غیر ملکی سازش کے بیانیہ کے ذریعے پھر سے عوامی مقبولیت حاصل کر لی۔ ان طاقتوں کو جو عمران خان کی پارٹی کو ملکی سیاسی منظر نامے سے ہٹانے میں تقریباً کامیاب ہو چکی تھیں پنجاب میں اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی نے ایک ناقابل یقین کارکردگی دکھاتے ہوئے پنجاب میں اپنی واپسی کر لی۔

تمام تر کوششیں جن میں ڈپٹی سپیکر کی ایک رولنگ کا سہارا لے کر اقلیتی ووٹوں کے باوجود پنجاب کی وزارت اعلی برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی مگر سپریم کورٹ نے کسی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا اور چوہدری پر ویز الہی بالآخر وزارت اعلی کی کرسی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد سیاسی منظر نامے نے ایک اور پلٹا کھایا تحریک انصاف جو نئے الیکشن کے لئے پوری یکسو تھی اب اس کے لئے بھی فوری الیکشن کی بجائے پنجاب میں حکومت کے ذریعے کچھ تسلی کا سامان نظر آتا ہے۔

اب عمران خان کے لہجے میں بھی فوری الیکشن کے لئے وہ گھن گرج سنائی نہیں دیتی۔ پنجاب حکومت کے ہوتے ہوئے جس طرح پی ٹی آئی کارنر ہوتی نظر آ رہی تھی اب اس کی بجائے وفاقی حکومت کارنر ہوتی نظر آتی ہے۔ تمام مشکل فیصلے تو وفاقی حکومت کو کرنے پڑ رہے ہیں اور پی ٹی آئی پنجاب میں حکومت کے بل بوتے پر نہ صرف اپنے حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے ذریعے عوامی حمایت میں اضافہ کر رہی ہے وہیں تھانہ کچہری بھی اس کے قبضے میں آ جانے کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے چہروں پر رونق نظر آتی ہے۔

پنجاب وہ صوبہ ہے جس میں قومی اسمبلی کی اتنی سیٹیں ہیں جو اگلی حکومت بنانے کے لئے فیصلہ کن کردار کی حامل ہوں گی۔ ان حالات میں پارٹی نئے الیکشن کے لئے اتنی پرجوش نظر نہیں آتی۔ یہ حالات سب سے زیادہ مسلم لیگ نون کے لئے خفت آمیز ثابت ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے عقاب صفت رہنما جو پنجاب کی سیاسی حرکیات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان کو پتہ ہے تھانہ کچہری میں عمل دخل کے بغیر عوام ان کی طرف راغب نہیں ہوگی وہ صوبے میں اپنی مخالف حکومت کو اپنی سیاست کے لئے مہلک سمجھتے ہیں وہ کبھی تو پنجاب میں گورنر راج کے خواب دیکھتے ہیں اور کچھ کو اب نئے الیکشن میں بھی کشش نظر آ رہی ہے مگر اب نئے الیکشن ان کی مرضی سے نہیں ہو سکتے اس کے لئے ان کو تحریک انصاف سے مذاکرات کرنا پڑیں گے اور اس حوالے سے بھی مختلف افواہیں زیر گردش ہیں کہ کچھ حلقے کوئی درمیانی رستہ نکالنے کے لئے سرگرم ہیں۔

مسلم لیگ نون کے کچھ اور رہنما تو اسٹیبلشمنٹ سے بھی شاکی نظر آتے ہیں جن کے مطابق ان کے لیڈر نواز شریف کو فوری طور پر پاکستان میں ہونا چاہیے اور پنجاب میں ان کو الیکشن جتوانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو کچھ کردار ادا کرنا چاہیے تھا، معاملہ تو پانچ چھ سیٹوں کا تھا کاش وہ کسی طرح مینیج ہو جاتیں۔ مگر پنجاب میں ہارنے کی وجہ سے اب ان کے سیاسی ڈیرے ویران پڑے ہیں اور دوسری جانب راندہ درگاہ سمجھی جانے والی پارٹی تحریک انصاف کے لیڈروں کے ڈیرے پھر آباد ہو چکے ہیں۔

پنجاب میں اگر ڈی سی اور ڈی پی او آپ کی بات سننے پر مجبور نہیں تو پبلک بھی آپ کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیتی ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر پارٹی کے اندر سے میاں شہباز شریف کو بھی تنقید کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ پر عوامی غصہ کی وجہ سے مریم نواز نے بھی اپنے آپ کو اور میاں صاحب کو اس فیصلہ سے علیحدہ رکھنے کے لئے ٹویٹ کر دی۔ مگر اس کے باوجود عوام میں پی ٹی آئی کی قبولیت میں اضافہ نظر آتا ہے۔

اب وفاقی حکومت کے پاس جو ہتھیار بچتا ہے وہ پنجاب حکومت کو اپنے مرضی کے افسران خاص کر چیف سیکریٹری کی تعیناتی میں رکاوٹ ڈالنا ہے۔ اور پولیس اور انتظامیہ کے اندر اپنے وفادار افسران کے ذریعے انتظامی بحران پیدا کرنا ہے۔ مگر اس میں بھی مسئلہ یہ ہے کہ وزارت اعلی کی کرسی پر اب عثمان بزدار جیسا نو آزمودہ بندہ نہیں بیٹھا بلکہ چوہدری پرویز الہی جیسا کائیاں بندہ براجمان ہے جو مسلم لیگ نون کی تمام تر سیاسی چالوں کو ناکام بنا دینے کا ہنر رکھتے ہیں مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پنجاب حکومت کو بحران کا شکار خود عمران خان کر سکتے ہیں جیسا کہ صوبے میں وزارتوں اور افسران کے تبادلوں پر ق لیگ اور پی ٹی آئی میں کچھ اختلافات کی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔

پنجاب میں تبادلوں کے لئے ایک کمیٹی بنائے جانے کی خبریں بھی گردش میں ہیں مگر کیا چوہدری اپنے اقتدار میں اس طرح کی مداخلت برداشت کریں گے؟ اگرچہ ق لیگ کے پاس صرف دس سیٹیں ہیں مگر پرویز الہی میں اتنی سیاسی صلاحیت ہے کہ جلد ہی پی ٹی آئی کے درجنوں ایم پی ایز ان کا دم بھرتے نظر آئیں گے۔ اور ان کو بس پرویز الہی ہی بطور وزیراعلی قبول ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments