معتبر قومی شناختی کارڈ کے باوجود طلبہ کے لئے غیر معتبر سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کی شرط کیوں؟


کراچی کے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا اعلان ہو چکا ہے۔ جن میں طلبہ کے داخلوں کے لئے مطلوبہ تعلیمی قابلیت کے علاوہ سکونتی اسناد، سرٹیفیکٹ آف ڈومیسائل اور مستقل سکونتی سند (پی آر سی) جمع کرانے کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ چند روز قبل مجھے اپنے چھوٹے صاحبزادہ ہمایوں اسرار کے انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ کی غرض سے سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سی کے حصول کے لئے ڈپٹی کمشنر کراچی وسطی کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔

یہ صبح تقریبا آٹھ بجے کا وقت تھا، ہم جونہی ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے وسیع و عریض احاطہ میں داخل ہوئے تو وہاں سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور مستقل سکونتی سند (پی آر سی) کے حصول کے متلاشی طلبہ اور ان کے والدین کا ایک اژدہام سا نظر آیا۔ جو تعلیمی اداروں میں داخلوں کی خاطر لازمی قرار دیے گئے سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سی کے حصول کے لئے صبح سویرے سے ہی وہاں پہنچ گئے تھے اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد ڈومیسائل دفتر کے باہر ایک طویل اور بل کھاتی قطاروں میں کئی گھنٹوں سے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی کھڑی ہوئی تھی اور پسینہ میں شرابور اور تھکن سے چور ان طلبہ کے چہروں سے پریشانی اور بیزاری پوری طرح عیاں تھی۔ ملک کے مستقبل کی باگ ڈور سنبھالنے والی تعلیم یافتہ نئی نسل کو بلا جواز مستقل سکونتی سرٹیفیکیٹ کے حصول کی خاطر قطاروں اور طویل انتظار کرنے اور افسر شاہی کی نا اہلی کے ہاتھوں ان کی حالت زار اور تذلیل دیکھ کر دل بے حد رنجیدہ ہوا۔

اگرچہ حکومت نے سرکاری دفاتر کے اوقات کار صبح 8 بجے تا 4:00 بجے سہ پر مقرر کیے ہیں۔ لیکن جب میں نے ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے احاطہ میں قائم ڈومیسائل دفتر میں سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سیکے لئے فارم کے حصول اور طریقہ کار دریافت کر نے کی غرض سے کسی اہلکار کو تلاش کرنا چاہا تو ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر یا ڈومیسائل دفتر کا کوئی متعلقہ افسر یا ذمہ دار عملہ صبح 10 بجے تک دستیاب نہیں تھا اور ان کے دفاتر کے دروازے بند پائے گئے۔

پوچھتے پوچھتے کسی نے بتایا کہ سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سیکے فارم ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں دستیاب نہیں ہوتے، آپ اس سلسلہ میں باہر کسی ایجنٹ سے رابطہ کر لیں۔ چنانچہ صاحبزادہ کے ساتھ باہر کا رخ کیا تو دیکھا کہ ڈپٹی کمشنر ہاؤس کی ناک کے عین نیچے عرائض نویسوں، ایجنٹ، دستاویزات اور حلف ناموں کی تصدیق کرنے والے نوٹری پبلک، اوتھ کمشنروں اور فوٹوکاپی اور پرنٹ نکالنے والوں کا ایک بازار گرم ہے۔ چنانچہ میں نے بھی اپنے صاحبزادہ کے ساتھ کسی معقول ایجنٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔

اسی دوران ایک بھلے سے ایجنٹ نے مجھے بتایا کہ پہلے تو ہم اپنے منہ مانگے معاوضہ کے عوض درخواست گزار کی دستاویزات کی مدد سے از خود درخواست فارم اور دستاویزات ٹائپ اور اس کی تصدیق کرا کے ڈپٹی کمشنر ہاؤس سے سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سی تیار کرا کے ضرورت مند طلبہ کو فراہم کر دیا کرتے تھے۔ لیکن اب سرکار نے نیا طریقہ اختیار کیا ہے، جس کے لئے ہم آپ کو صرف سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سی کے متعلق مکمل معلومات فراہم کریں گے اور تمام دستاویزات کی تصدیق کرائیں گے۔ لیکن ڈومیسائل دفتر میں درخواست فارم اور بینک میں چالان کی رقم جمع کرانا آپ کی ذمہ داری ہوگی اور ہم اس کام کا جائز معاوضہ لیتے ہیں۔

ایجنٹ نے یہ بھی بتایا کہ سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سی کے حصول کے لئے آپ کو کم و بیش 15 کی تعداد میں اصل اور نقول پر مشتمل دستاویزات فراہم کرنا ہوں گی اور پھر ڈومیسائل دفتر میں امیدوار کی تصویر بنے گی اور بینک میں چالان کی رقم جمع کرانا ہوگی۔ امیدوار کی شناختی دستاویزات میں والد کا قومی شناختی کارڈ (اصل) معہ تصدیق شدہ نقل، یوٹیلٹی بل کی تصدیق شدہ نقل، نادرا کا جاری کردہ ”ب“ فارم، نادرا ویریفیکیشن پرنٹ آؤٹ، اصل، دو علیحدہ علیحدہ پڑوسیوں کے قومی شناختی کارڈ کی تصدیق شدہ نقول، جملہ تعلیمی اسناد اصل اور دستاویزات کی تصدیق شدہ نقول کا سیٹ درکار ہو گا۔

آپ ان تمام دستاویزات کے ساتھ علی الصبح ڈپٹی کمشنر ہاؤس پہنچ جائیں اور وہاں قطار میں کھڑے ہوجائیں۔ جس وقت بھی ڈومیسائل دفتر کھلے گا تو باری آنے پر آپ کی درخواست پر کارروائی عمل میں آئے گی۔ اس طریقہ کار کے مطابق آپ کو سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور پی آر سی جاری ہو سکے گا۔ یہ داستان بیان کر کے ایجنٹ موصوف نے ہم سے اپنے قیمتی اور پیشہ ورانہ مشورہ اور جملہ دستاویزات کی نقول کی تصدیق کرانے کے لئے اپنی منہ مانگی فیس کھری کرلی۔

وطن عزیز پاکستان کو معرض وجود میں آئے اب 75 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ یہ وطن دنیا کے نقشہ پر ہماری علیحدہ شناخت اور اس کا وجود ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ آزادی کے بعد کسی بھی ملک کا نظم و نسق چلانے کے لئے مختلف قوانین اور قواعد تشکیل دیے جاتے ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں طویل وقت گزرنے کے ساتھ، زمینی حقائق اور عوام الناس کی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے متعلقہ قوانین اور قواعد میں وقتاً فوقتاً ضروری ترامیم اور ان پر نظر ثانی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے آج کے دور جدید میں بھی ہمارے ملک میں طلبہ کی مستقل سکونت کی تصدیق کے لئے بے حد فرسودہ، قدیم اور سیاہ قوانین رائج ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران میں ملک میں جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی، قومی سطح پر اکثریتی طبقہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر حق تلفی اور حقوق سے محرومی کے باعث مادر وطن کی دو حصوں میں تقسیم، ریاست کے بنیادی ڈھانچہ، سماج، شہریوں کی نفسیات، تعلیم، صنعت و حرفت اور اقتصادیات میں ان گنت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

اس طویل مدت کے دو ان شہریوں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات میں تبدیلی، پسماندہ طبقوں میں تعلیمی شعور کی بیداری کے باعث ملک کے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں میں بھی تعلیم کی روشنی بے حد پھیلی ہے۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ 70 برسوں سے جو کے توں رائج اس فرسودہ اور دقیانوسی سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل نظام اور مستقل سکونتی سند (پی آر سی) جیسے سیاہ قوانین کا خاتمہ آج تک ممکن نہ ہوسکا۔

حیرت انگیز طور پر ملک میں رائج نوآبادیاتی دور کے سیاہ قوانین پرایک طویل مدت گزر جانے کے باوجود آج تک کبھی کوئی ترامیم یا نظر ثانی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ ان میں قدیم قوانین میں سے ایک اہم قانون، فوجداری قوانین پر مشتمل مجموعہ تعزیرات پاکستان ہے، جس کا بنیادی ماخذ تعزیرات ہند ہے۔ جسے ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران 1862 ء میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرمان کی سزاؤں کے لئے نافذ کیا گیا تھا۔ ہمارا محکمہ پولیس اور عدلیہ نوآبادیاتی دور کے اسی 160 سالہ فرسودہ قانون کے بل پر آج تک من و عن عمل پیرا ہیں۔ اسی طرح مستقل سکونتی سند یا سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کا قانون بھی کم از کم 71 برس قدیم اور سیاہ قانون میں شمار کیا جاتا ہے۔ جو آج بھی کسی شہری کے لئے شہر کا مستقل سکونتی یا اس کے مستقل رہائشی ہونے کے ثبوت کی لازمی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قانون کے مطابق سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل متعلقہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں یا ان کے نامزد کردہ ضلع کے اعلیٰ انتظامی افسران جاری کرنے کے مجاز ہیں۔ سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل عموماً مقررہ کوٹہ کی بنیاد پر طلبہ کے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں مختص نشستوں پر داخلوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں اور خود مختار اداروں میں حصول ملازمت کے لئے ایک لازمی دستاویز ہے۔

اگر ہم ملک میں سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد ہندوستان اور پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت اور ان کے حقوق کے متعلق حکومت ہند اور حکومت پاکستان کے درمیان نئی دہلی میں 8 اپریل 1950 ء کوایک معاہدہ عمل میں آیا تھا، جسے وزارت خارجہ کی دستاویز میں ”لیاقت نہرو پیکٹ“ کہا جاتا ہے۔ نہرو لیاقت پیکٹ کی منظوری کے بعد پاکستان میں دی پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 ء کے تحت متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ قانون 13 اپریل 1951 ء کو نافذالعمل ہوا تھا اور اس کا مقصد پاکستانی باشندوں کی شہریت کا تعین کرنا تھا۔ اس قانون شہریت کے مطابق وہ شہری جن کے والدین، والدین کے والدین موجودہ ریاست پاکستان کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں وہ پاکستانی شہری کہلائیں گے۔

دی پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 ء کی دفعہ 17 اور حکم 23 کے تحت درکار شرائط و ضوابط کے تحت سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کو پاکستانی شہریوں کے لئے ایک مستقل سکونتی دستاویزی ثبوت قرار دیا گیا تھا۔ دی پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ 1951 ء کے تحت پاکستان کا کوئی شہری اگر کسی بھی صوبہ کے کسی ضلع میں ایک برس تک مستقل قیام کرے تو وہ اس شہر کے قانونی سرٹیفیکٹ آف ڈومیسائل کا حقدار بن جاتا ہے۔

جبکہ صوبہ سندھ میں اس سکونتی قانون کی ایک نرالی تشریح کی گئی ہے جس کے مطابق صوبہ سندھ میں ایک برس کی مدت کے بجائے تین برس تک مستقل سکونت رکھنے والا شہری ہی سندھ کے سرٹیفیکٹ آف ڈومیسائل کا اہل قرار پاتا ہے۔ علاوہ ازیں صوبہ سندھ میں سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کے ساتھ شہری کی سکونت کی تصدیق کے لئے مستقل سکونتی سند (پی آر سی) کا متوازی قانون بھی لاگو کیا گیا ہے ۔ جسے 1971 ء میں Sindh Permanent Residence Certificate Rules of 1971 کے تحت متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ قانون پارلیمنٹ سے منظوری کے بجائے صرف ایک انتظامی حکم نامہ کی بنیاد پر نافذ کیا گیا تھا۔ لیکن افسوس 51 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس فرسودہ مستقل سکونتی سند (پی آر سی) کو صوبہ سندھ میں آج بھی طلبہ کے لئے اعلیٰ و پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری اداروں میں ملازمت کے حصول کے لئے لازم قرار دیا جا رہا ہے۔

اگر ہم ملک میں شہریوں کی شناخت کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ ملک اور بیرون ملک مقیم پاکستانی شہریوں کے کوائف کی رجسٹریشن اور انہیں قومی شناخت عطا کرنے کی غرض سے دی نیشنل رجسٹریشن ایکٹ 1973 ء کے تحت ایک ادارہ نیشنل رجسٹریشن سسٹم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ جس کے تحت 18 برس کی عمر کے حامل ہر پاکستانی شہری کی رجسٹریشن کی بنیاد پر اسے قومی شناختی کارڈ جاری کرنا تھا۔ جس کے تحت ملک میں 1973 ء میں پہلا قومی شناختی کارڈ نمبر 501۔28۔000091 اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاری کیا گیا تھا۔

بعد ازاں اس نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی آرڈیننس مجریہ 2000 ء کے تحت ایک اور قومی ادارہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) ، حکومت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعہ شہریوں کے کوائف کی مکمل جانچ پڑتال، تصدیق اور ان کی بائیو میٹرک تصدیق کے بعد اہل پاکستانی شہریوں کو ان کی شناخت کی غرض سے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) یا شناس نامہ جاری کرتا ہے۔ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ایک جدید کمپیوٹرائزڈ نظام سے مربوط کارڈ ہے۔ جو ہر پاکستانی شہری کے ذاتی کوائف اور معلومات کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ابتدائی قدم ہے اور کسی بھی پاکستانی شہری کی شہریت کی ضمانت اور اس کی پہچان کا معتبر ذریعہ ہے۔

نادرا پاکستانی شہریوں کو ان کی مستند اور معتبر شناخت فراہم کرنے کے لئے مختلف اقسام کے کارڈز، کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) ، 18 برس سے کم عمر نابالغ بچوں کے لئے چائلڈ رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ (CRC) ، بیرون ملک مقیم پاکستانی شہریوں کے لئے (NICOP) ، اہل غیر ملکی پاکستانیوں کے لئے پاکستان اوریجن کارڈ (POC) ، فیملی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ (FRC) اور تنسیخی کارڈ (Cancellation Card بھی جاری کرتا ہے۔

نادرا کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ میں شہری کے جملہ کوائف، قومی شناختی کارڈ نمبر، نام، جنس، ولدیت/شریک حیات، شناختی علامت، حامل کے دستخط، خاندان نمبر، شجرہ نسب (Family tree) ، موجودہ پتہ، مستقل پتہ، تاریخ اجراء، تاریخ تنسیخ اور barcode کے علاوہ پرانے قومی شناختی کارڈ کے نمبر بھی درج ہوتے ہیں۔ نادرا کے جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی طبعی بناوٹ میں کئی حفاظتی پرت اور خصوصیات (Security Features) استعمال کی گئی ہیں۔

2012 ء میں نادرا نے قومی شناختی کارڈ کو عالمی معیار کے مطابق ڈھالنے کے لئے جدت کا ایک اور راستہ اختیار کرتے ہوئے ایک نئے اور جدید قومی شناختی کارڈ اسمارٹ نیشنل آئیڈینٹیٹی کارڈ (SNIC) کا اجراء کیا تھا۔ اس کارڈ میں ایک کمپیوٹر چپ کا اضافہ کیا تھا۔ جس میں 36 حفاظتی خصوصیات (Security Features) شامل کی گئی ہیں۔ جس کے باعث اس کارڈ میں موجود معلومات کی ہیکنگ، کسی قسم کی تحریف اور جعلسازی کرنا ناممکن ہے۔

وفاقی سطح پر قائم نادرا کے قیام کا مقصد ملک میں بسنے والے تمام اہل شہریوں اور ان کے گھرانوں کی رجسٹریشن اور بائیو میٹرک تصدیق کے ذریعہ ان کے جملہ کوائف کا ریکارڈ محفوظ رکھنا ہے۔ نادرا کے ڈیٹا بیس میں ملک کے ہر نابالغ اور بالغ شہری اور اس کے خاندان کے جملہ کوائف، معلومات اور شجرہ نسب (Family tree) موجود ہے۔

نادرا کا جاری کردہ قومی شناختی کارڈ جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔ جس کے 13 ہندسوں پر مشتمل کوڈ نمبرز تین علیحدہ علیحدہ حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کوڈ ہندسوں کی بدولت شہریوں کے ذاتی کوائف اور بنیادی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ قومی شناختی کارڈ کے 13 کوڈ ہندسے تین حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ قومی شناختی کارڈ پر درج پہلے پانچ کوڈ نمبروں کے مطابق پہلا ہندسہ شہری کے صوبہ، دوسرا ہندسہ ڈویژن، تیسرا ہندسہ ضلع، چوتھا ہندسہ تحصیل اور پانچواں ہندسہ اس کی یونین کونسل ظاہر کرتے ہیں۔ اگر قومی شناختی کارڈ کا پہلا کوڈ ہندسہ 1 ہے تو وہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہری کی، 2، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) کی، 3، صوبہ پنجاب کی، 4، صوبہ سندھ کی، 5 بلوچستان کی، 6، وفاقی علاقہ اسلام آباد کی اور 7، صوبہ گلگت بلتستان کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے بعد سات کوڈ نمبروں پر مشتمل ہندسے نادرا کی اپنی شماریاتی ترتیب ہیں۔ جبکہ قومی شناختی کارڈ پر درج کوڈ نمبروں کے آخری طاق ہندسے یعنی 1,3,5,7,9 مرد کی جنس کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ جفت ہندسے 2,4,6,8 عورت کی جنس کی نشاندہی کرتے ہیں۔

نادرا کا جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ایک کثیر المقاصد شناختی کارڈ کی حیثیت سے ملک کے شہریوں کے لئے ان کے معتبر اور مستند شناخت نامہ کی) (ID کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ نادرا، حکومت پاکستان کے ڈیجیٹل پاکستان وژن منصوبہ کے تحت قومی شناختی کارڈ کو ایک ڈیجیٹل والٹ (Digital Vallet) کی صورت دینے میں کوشاں ہے۔ جس کی بدولت شہریوں کو جلد ہی ایک منفرد ڈیجیٹل شناخت (Digital ID) کی سہولیات میسر ہوں گی۔ جس کی مدد سے نادرا شہریوں کی روایتی طبعی شناخت (Physical Identification) کے مروجہ طریقہ کار کو ختم کر کے نیشنل آئی ڈی ایکو سسٹم نافذ کرے گا۔

نادرا کے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کو شہری کے لئے بطور ID قرار دے کر اسے موبائل فون SIMکی خرید، گیس، بجلی، پانی اور فون کے کنکشن کے حصول، بینک اکاؤنٹ کھولنے، اے ٹی ایم کارڈ کے اجراء، مالیاتی لین دین، پنشن کے حصول، انکم ٹیکس کی ادائیگی، حیات، طبی اور حادثاتی بیمہ پالیسی، عام انتخابات میں رائے شماری، ریل اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ، ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی اور املاک کی خرید و فروخت، کرایہ داری، تعلیمی اداروں میں داخلوں، اور پاسپورٹ کے اجراء کے لئے ایک لازمی شناختی دستاویز قرار دیا گیا ہے۔

نادرا، وفاقی وزارت داخلہ، حکومت پاکستان کا ایک قابل فخر ادارہ ہے۔ نادرا نے ذاتی شناخت کے حل، ای گورننس، محفوظ دستاویزات، شناخت کی چوری کی روک تھام کے لئے کثیر المقاصد رہنماء اصول، اپنے گاہکوں کے مفادات کے تحفظ اور عوام الناس کے لئے شناخت کی مستند اور معتبر دستاویزات کی سہولیات فراہمی کی کی بدولت عالمی سطح پر اپنی نمایاں پہچان حاصل کی ہے۔ نادرا شناخت اور محفوظ ڈیٹا کے شعبہ میں اپنی عمیق تحقیق اور ترقی کی کوششوں کی بدولت سافٹ ویئر انٹیگریشن، ڈیٹا ویئر ہاؤسنگ اور نیٹ ورکس اسٹرکچر کے شعبوں میں ایک اہم رہنماء کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

نادرا نے ملک میں متعدد الیکٹرانک شناخت سسٹم کو کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد بنگلہ دیش میں نیشنل ڈرائیونگ لائسنس سسٹم، کینیا میں پاسپورٹ کے اجراء کے نظام اور الیکٹرانک پاسپورٹ کے نظام، سوڈان میں سول رجسٹریشن، نائیجیریا میں نیشنل آئیڈینٹیٹی مینجمنٹ سسٹم اور بحرالکاہل کے ملک فجی میں الیکشن مینجمنٹ سسٹم کے منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب نے 2021 ء میں سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کے حصول میں طلبہ کو درپیش شدید مشکلات، مشتبہ ڈومیسائل کی بڑھتی ہوئی شکایات، جعلسازیوں، رشوت ستانی اور اس کے اجراء کی مد میں ہونے والے بھاری اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس اہم مسئلہ کے حل کے لئے سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کی شرط کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ اب کسی بھی شہری کے لئے اس کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ پر درج مستقل پتہ کو ہی اس کا سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل تصور کیا جائے گا۔

یقینا یہ حکومت پنجاب کا ایک انتہائی قابل تعریف اقدام ہے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ملک کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے برعکس صوبہ سندھ میں اب بھی طلبہ کے اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کے ساتھ ساتھ مستقل سکونتی سند (پی آر سی) کو بھی لازمی قرار دیا گیا اور دلچسپ بات ہی ہے کہ سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل کے ساتھ ساتھ مستقل سکونتی سند (پی آر سی) کا متوازی قانون صرف صوبہ سندھ میں لاگو ہے۔ جسے 1971 ء میں Sindh Permanent Residence Certificate Rules of 1971 کے تحت متعارف کرایا گیا تھا۔ لیکن یہ قانون پارلیمنٹ سے منظوری کے بجائے صرف ایک انتظامی حکم نامہ کی بنیاد پر نافذ کیا تھا۔ لیکن 51 برس کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس فرسودہ سکونتی سند کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری اداروں میں ملازمت کے حصول کے لئے آج بھی لازم قرار دیا جا رہا ہے۔ جس پر صوبائی حکومت اور ارباب اختیار کی عقل پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک عوام الناس کے منتخب نمائندوں نے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں نوجوان نسل کو عذاب میں مبتلا رکھنے والے ان 70 اور 51 برس قدیم، فرسودہ اور سیاہ قوانین کے خاتمہ پر صدائے احتجاج تک بلند کیوں نہیں کی۔ ان نا اہل منتخب نمائندوں کی غفلت اور لاپروائی کے باعث ہماری نئی نسل اپنی مستقل سکونتی سند کے حصول کے لئے سزائے مشقت بھگتنے پر مجبور ہے۔

بادی النظر میں نادرا جیسے نامور اور عالمی شہرت یافتہ ادارہ کے جاری کردہ مستند اور معتبر کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے اجراء کے بعد طلبہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور وفاقی، صوبائی سرکاری اور دیگر خودمختار اداروں میں ملازمتوں کے حصول کے لئے ایک بلا جواز متوازی دستاویز ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ اور مستقل رہائشی سرٹیفیکیٹ (پی آر سی) طلب کرنے کا جواز قطعا باقی نہیں رہتا۔ جس کے باعث ملک بھر میں خصوصاً صوبہ سندھ میں سرٹیفیکیٹ آف ڈومیسائل اور مستقل سکونتی سند (پی آر سی) کے فوری خاتمہ اور شہری کے قومی شناختی کارڈ پر درج اس کے مستقل پتہ ہی کو اس کی مستقل سکونت تصور کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments