گجرات ڈویژن اور حافظ آباد کی عوام کا فیصلہ؟


وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے گجرات کو دسویں ڈویژن کا درجہ دینے کی منظوری کے بعد باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا تین اضلاع پر اس مشتمل ڈویژن میں گوجرانوالہ ڈویژن سے ضلع حافظ آباد کو الگ کر کے گجرات ڈویژن میں شامل کیا گیا ہے گجرات ڈویژن بنانے کا اعلان چوہدری پرویز الہی نے قطعی عجلت میں نہیں کیا اسے ڈویژن بنانے کی تیاری ایک عرصہ سے جاری تھی۔ گجرات کے چوہدریوں نے وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد گجرات کو ترجیہی بنیادوں پر ڈویژن کی منظوری دیتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔

حافظ آباد سے گوجرانوالہ کا فاصلہ 54.6 کلو میٹر اور گوجرانوالہ سے گجرات کا فاصلہ 48.8 کلو میٹر ہے گوجرانوالہ حافظ آباد سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر ہے جب کہ حافظ آباد سے گجرات کا سفر ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ہے اب حافظ آباد کی عوام کو ایک گھنٹہ کی مسافت طے کرنے کی بجائے ڈھائی گھنٹے کی مسافت کی خواری کے بعد اپنا کام کروانے کے لئے گجرات ڈویژن جانا پڑے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کا گجرات ڈویژن میں حافظ آباد کو شامل کرنے کا فیصلہ کس حد تک سنجیدہ ہے یہ وقت طے کر دے گا اور گجرات ڈویژن میں حافظ آباد کس حد تک اپنے آپ کو ڈویلپ کر پائے گا اس بات سے قطعی نظر پرویزالہی کے اس فیصلے نے ضلع حافظ آباد کی ساڑھے سات لاکھ کی آبادی میں اضطراب پیدا کر دیا ہے ضلع کی عوام اور سیاست نے اس فیصلے کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ اس فیصلہ کے خلاف باقاعدہ احتجاج بھی شروع کر دیا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حافظ آباد کو گجرات ڈویژن میں شامل کرنے کے خلاف عوام اور سیاست ایک صفحہ پر متحد ہیں مسلم لیگ ق پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی سیاسی جماعت ہے اور اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں اس فیصلے سے سب سے زیادہ نقصان ضلع حافظ آباد میں مستقبل کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کو اٹھانا پڑے گا۔ چاہیے تو یہ تھا چوہدری پرویز الہی اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی قیادت س کو اعتماد میں لیتے ہوئیے رائے لے لیتے یا مشاورت کر لیتے تو شاید آج پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی قیادت کو اپنے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان نہ کرنا پڑتا کیونکہ ضلع کی تحریک انصاف کے لئے یہ بڑا کڑوا فیصلہ ہے جس کو نگلنا آسان نہیں ہے۔

مسلم لیگ نون حافظ آباد کی سابقہ وفاقی وزیر محترمہ سائرہ افضل تارڑ نے اس فیصلے کے خلاف ڈسٹرکٹ پریس کلب میں بھر پور پریس کانفرنس کی اور احتجاج کا اعلان کیا بلکہ ضلعی راہنما مسلم لیگ نون محمد بخش تارڑ نے اس فیصلہ کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا بھی اعلان کیا کالم کی سطروں کی اشاعت تک شاید اس پر عمل در آمد بھی ہو چکا ہو اسی طرح جماعت اسلامی ’پیپلز پارٹی و دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے جو احتجاج دیکھنے میں آ رہا ہے وہ شاید ضلع کی سیاست کو اس حد تک مجبور کر دے کہ یہ فیصلہ واپس ہو جائے۔

چوہدری مہدی حسن بھٹی (برجدارا گروپ) پاکستان تحریک انصاف اس وقت پنجاب میں حکومت میں ہیں جب کہ چوہدری افضل حسین تارڑ گروپ کی وفاق میں حکومت قائم ہے لیکن یہ فیصلہ خالصتا پنجاب حکومت کا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس فیصلہ کی واپسی چوہدری مہدی حسن بھٹی گروپ کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ المیہ ہے کہ ضلع بھر میں اس فیصلہ پر عوام متحد جب کہ سیاست تقسیم نظر آ رہی ہے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر صوبائی اسمبلی مامون جعفر تارڑ نے پنجاب حکومت کے اس فیصلے کو نہ صرف قابل تحسین قرار دیا بلکہ ایک تائیدی وڈیو بیان بھی جاری کر دیا جس پر عوامی حلقوں اور خاص کر پاکستان تحریک انصاف کے مضبوط دھڑا برجدارہ گروپ میں اس بیان کے بعد اضطرابی کیفیت پائی جا رہی ہے اور یہ بیان ایسے وقت میں دیا گیا جب چوہدری مہدی حسن بھٹی گروپ اس فیصلہ کے خلاف عملی طور پر کھڑا ہو چکا ہے اس بیان نے تحریک انصاف میں جہاں دراڑیں واضح کر دی وہیں برجدارا گروپ کے بیانیے کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

موجودہ صورتحال میں اگر فیصلہ قائم رہا تو آئندہ جنرل الیکشن میں جہاں پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ ضلع میں پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی خدمت و محنت کو بہا لے جائے گا وہیں مسلم لیگ ق کی ضلعی سیاست کو بھی آخری غسل دے گا کیونکہ مسلم لیگ ق کی ضلعی قیادت کی جانب سے تادم تحریر اس فیصلے کے بارے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا۔ ضلع کا عام آدمی چوہدری پرویز الہی کے اس فیصلے سے نالاں ہے بے وسیلہ عوام کے لئے گجرات جیسے پسماندہ ضلع میں جا کر کام کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا ڈھائی گھنٹہ کی خواری اور اپنے کام نمٹانے کے بعد واپسی ایک عام آدمی کے لئے بڑا تکلیف دہ عمل ہے۔

چوہدری پرویز الہی کے اس فیصلے کو جہاں عوام اور سیاست نے یکسر مسترد کر دیا ہے وہیں عوام میں شدید غم و غصہ بھی پایا جا رہا ہے۔ ضلع کے اطراف کی سڑکیں خستہ حال ہیں اور آمد و رفت کے لئے لوکل ٹرانسپورٹ کا جو حال ہے ایسے میں گجرات جانے کا خواب و خیال ہی کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔ گجرات کب تک صوبائی و وفاق کے دفاتر کے نظام کو فعال کر سکے گا یہ سوال اپنی جگہ لیکن حافظ آباد کی عوام خوار ہو جائے گی گجرات ڈویژن بنانے کے لئے نزدیکی اضلاع جہلم اور سیالکوٹ کو شامل کیا جا سکتا تھا لیکن حافظ آباد کو ڈویژن گجرات کا حصہ بنانا کسی طور بھی دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حافظ آباد کی عوام نے اس فیصلہ کو رد کر دیا ہے۔

حافظ آباد میں اب تک ریکارڈ ترقیاتی کام ہو چکے ہیں اور اگر ضلع کے سیاست دان ایسے ہی اس ضلع کی نوک پلک درست کرتے رہے تو یقیے نا بہت جلد پسماندگی اس ضلع سے کوسوں دور ہو جائے گی ضلع میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے اگر اہل سیاست سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کے حل کے لئے یہاں انڈسٹریل زون کا قیام عمل میں لے آئیں تو بہت سوں کا روزگار اور غریب کا چولہا جل پڑے گا۔ سابق مشیر وزیراعظم عثمان ڈار نے دو سال قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ڈویژن بننے کا حق سیالکوٹ کا ہے کیونکہ یہ علامہ اقبال کا شہر اور ایکسپورٹ کے ذریعے کروڑوں ڈالرز کا زرمبادلہ کما کر ملکی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے انہوں نے تو انٹرویو کے دوران یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر سیالکوٹ کے علاوہ کسی اور شہر کو ڈویژن بنایا گیا تو وہ میری ڈیتھ باڈی پر بنے گا عثمان ڈار کا یہ انٹرویو گجرات ڈویژن بننے کے بعد سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہے اس سے تو ظاہر ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سیالکوٹ کو ڈویژن بنانے کے حق میں تھی بہر حال گجرات ڈویژن بن گیا پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی قیادت سیاسی و عوامی آزمائش کے کٹہرے میں کھڑی ہے پورے ضلع کے عوام کی امید بھری نظریں پاکستان تحریک انصاف کی ضلعی قیادت پر جمی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments