نیوزی لینڈ کی ارضی جنت گلینورکی (Glenorchy)


اگلی صبح ہم گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کوئنز ٹاؤن کے شمال مغرب میں تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک انتہائی دلکش گاؤں، گلینورکی، جا رہے تھے۔ گلینورکی نیوزی لینڈ کے حسین ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس سے زیادہ حسین وہ راستہ ہے جو اس گاؤں کی طرف جاتا ہے۔ گلینورکی جانے والے اس راستے کے بارے میں میں نے کہیں پڑھا تھا، گلینورکی کے راستے سے حسین صرف جنت ہو سکتی ہے۔ آپ کا کیمرہ اتنی خوبصورتیاں محفوظ نہیں کر سکتا ہے۔ ”گلینورکی اور اس کے نواح کے بارے میں مختلف مشہور لوگوں کے درجنوں اقوال موجود ہیں۔ سب نے اپنے اپنے الفاظ میں اس کے قدرتی حسن کو سمونے کی کوشش کی ہے۔

ہالی وڈ کے وہ فلمساز جو حسین ترین مقامات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جب انہیں قدرتی حسن کی انتہا دکھانی ہو تو وہ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ مثلا، لارڈز آف دی رنگز، اور دوسری بہت سی فلموں میں ان حسین علاقوں کو فلم بند کیا گیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اچھے سے اچھا فلمی کیمرہ بھی اس حسن کو پوری طرح دکھانے سے قاصر ہو گا۔ کیونکہ خلاق عالم کی تخلیق کردہ یہ تصویر اتنی حسین، اتنی جامع اور اتنی بڑی ہے کہ کوئی کیمرہ، کوئی مصور یا کوئی شاعر اور ادیب اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔

گلینورکی جانے والی یہ سڑک جتنی حسین ہے اتنی خطرناک بھی ہے۔ جیسے حسینوں کا مزاج نازک ہوتا ہے ویسے ہی اس سڑک کا مزاج ناقابل بھروسہ ہے۔ یہ سڑک آخر تک جھیل کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے۔ مگر دوسری جانب بلند پہاڑ کھڑا ہے۔ اس طرح یہ سڑک پہاڑ اور جھیل کے درمیان پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی ہے۔ اس علاقے کی دوسری سڑکوں کی نسبت یہ کافی تنگ ہے۔ سامنے سے آنے والی گاڑی کو راستہ دینے کے لئے سڑک کے بالکل کنارے جانا پڑتا ہے۔ گلینورکی جانے کے لئے یہ کنارہ بائیں جانب یعنی نشیب میں بہتی جھیل کی طرف ہے۔ کنارے سے درجنوں گز نیچے گہری جھیل ہے۔ جسے دیکھ کر آنکھوں میں تازگی لیکن دل میں خوف آتا ہے۔ واپسی کے سفر میں آپ کو پہاڑ کے ساتھ چمٹ کر مخالف سمت والی گاڑی کو راستہ دینا پڑتا ہے۔

گویا یہ راستہ اور یہ سڑک جتنی دلکش و حسین ہے اتنی خطرناک بھی ہے۔ اوپر سے آج بوندا باندی ہو رہی تھی۔ جس کی وجہ سے ڈرائیونگ مزید خطرناک بن گئی تھی۔ تاہم یہ ہلکی بارش تھی اور سڑک روشن تھی۔ دوسرا یہ کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سڑکیں ایسے میٹیریل سے بنائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بارش اور گیلے پن سے پھسلن نہیں ہوتی۔ بارش میں بھی یہ سڑکیں خشک نظر آتی ہیں۔ اسی لئے اتنی زیادہ بارشوں کے باوجود یہاں گاڑیاں پھسلنے کے حادثات بہت کم ہوتے ہیں۔

کوئنز ٹاؤن سے گلینورکی کی طرف جانے والی یہ سڑک سانپ کی طرح بل کھاتی جاتی تھی۔ راستے میں اتنے خوبصورت مناظر نظر آتے تھے کہ جی چاہتا تھا وہیں گاڑی روک لیں اور ان نظاروں میں کھو جائیں۔ مگر اس سڑک پر مخصوص مقامات کے علاوہ گاڑی روکنا ممکن نہیں تھا۔

ایسی نظارہ گاہیں کئی مقامات پر تھیں۔ ہم وہاں گاڑی روک کر باہر آتے، ان حسین نظاروں کو آنکھوں میں سموتے، دل میں بساتے اور چلتے جاتے تھے۔ یوں بھی چشم دل روشن نہ ہو تو کوئی نظارہ مزہ نہیں دیتا۔ ہمارے بائیں جانب حد نظر تک نیلے پانیوں والی شفاف جھیل تھی۔ جھیل کے اس پار کچھ پودے پھولوں سے رنگین تھے اور کچھ پودے برفوں سے ڈھکے تھے۔ اسی طرح سڑک کے کنارے رنگا رنگ درخت بھی سلامی دے رہے تھے۔ نیچے ڈھلوانوں پر پھولوں کے قطعات تھے۔

کہیں کہیں گھر بنے ہوئے تھے اور فارم ہاؤس تھے، جن میں مختلف قسم کے جانور چرتے نظر آرہے تھے۔ یوں ہمارے اردگرد سبزہ تھا، درختوں کے جھنڈ تھے، مختلف رنگوں کے پھول تھے، موتیوں کی طرح نکھرا اور برفوں سے بنا نیلگوں پانی تھا، پہاڑی جھرنے تھے، برف کے تودے تھے اور آسمان سے رم جھم برستی بارش تھی۔ میں نے جگہ جگہ اپنے کیمرے میں یہ مناظر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ مگر یہ تصاویر اس منظر کا ایک محدود سا عکس پیش کرتی ہیں۔ تاہم یہ خوبصورتی میرے دل و دماغ میں نقش ہو گئی۔

گلینورکی پہنچتے پہنچتے بارش تھم گئی۔ یہ گاؤں دریا کے ڈیلٹا پر آباد ہے۔ یہاں آ کر ہمارے دائیں طرف والے پہاڑ قدرے دور ہو گئے تھے۔ یوں یہاں کے رہائشی قطعات اور فارم ہاؤس ڈھلوان زمین پر بنے ہیں۔ گلینورکی ایک چھوٹا سے روایتی اور تاریخی گاؤں ہے۔ بکھرے ہوئے گھروں کے درمیان کھلی کھلی گلیاں ہیں۔ قدرتی خوبصورتی کے علاوہ جو شے ہمیں محسوس ہوئی وہ اس علاقے میں خاموشی اور سکون کا راج تھا۔ انگریزوں کی آباد کاری سے پہلے گلینورکی ماؤریوں (نیوزی لینڈ کے مقامی باشندے ) کا یہ گرمیوں کا سفری کیمپ ہوتا تھا۔ یہ لوگ دریا کے کنارے سفر کرتے ہوئے گرمیوں میں شمال سے جنوب کی طرف آتے تھے۔ 1860ء میں یورپین آباد کار چرا گاہوں، صنعتی لکڑی اور کان کنی کے لئے یہاں آباد ہوئے۔ آج یہ قصبہ نیشنل پارک، ماؤنٹ ایسپرین، جیٹ بوٹ کے مقابلوں، سکائی ڈائیونگ، فور وہیل ڈرائیونگ اور گھڑ سواری کے لئے مشہور ہے۔

گلینورکی کی سڑک سے اونچائیوں کی طرف والا علاقہ پیراڈائیز یعنی بہشت کہلاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس علاقے کی خوبصورتی کی وجہ سے یہ نام پڑا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ نام بہشتی بطخوں کی وجہ سے رکھا گیا ہے جو اس علاقے میں پائی جاتی ہیں۔ بہرحال دونوں وجوہات کی صورت میں یہ ارضی بہشت ہر کسی کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہاں پر ہالی وڈ کی Amonhen، Lothlorien، Isengard، Orthanic جیسی کئی مشہور فلموں کی شوٹنگ ہوئی ہے۔

گلینورکی کا بازار چند دکانوں پر مشتمل ہے۔ یہ جھیل کی طرف جانے والی سڑک پر واقع ہے۔ ہم اس سڑک پر چلتے ہوئے جھیل کے کنارے تک چلے گئے۔ وہاں اس وقت ایسا ہی سٹیمر آ کر لگا تھا جس پر ہم کل سفر کرچکے تھے۔ آج کی جدید اور برق رفتار لانچوں کے مقابلے میں زمانہ رفتہ کے اس اسٹیمر کا استعمال جاری رکھنا محض نیوزی لینڈ کے باشندوں کی روایت پسندی ہے۔ یہ لوگ کسی نہ کسی شکل میں اپنی تاریخ، آبا و اجداد کی نشانیاں اور اپنی روایات کو زندہ رکھتے ہیں۔ اس جمہوری دور میں ملکہ برطانیہ کی بادشاہت کے زیر سایہ رہنا بھی اسی روایت کا حصہ ہے۔

سڈنی میں میرے ایک پڑوسی بروس کا تعلق نیوزی لینڈ کے اس خطے سے ہے۔ بروس کا والد اسی قصبے گلینورکی کا باسی تھا۔ وہ انہی اسٹیمرز پر کام کرتا تھا۔ اس کا انتقال 1966ء میں ہوا۔ بروس اور اس کے بہن بھائی یہیں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم یہ فیملی بعد میں ڈونیڈن منتقل ہو گئی۔ بروس کا بچپن اور جوانی ڈونیڈن میں گزرا ہے۔ تاہم گلینورکی کی خوبصورتیوں کا وہ اکثر ذکر کرتا ہے۔ بروس اپنی جوانی میں ٹرک ڈرائیور تھا۔ اس لیے وہ نیوزی لینڈ کے شہر شہر اور قریے قریے سے واقف ہے۔

اس نے نیوزی لینڈ خصوصاً ڈونیڈن اور گلینورکی کا اتنا ذکر کیا تھا اور اس کے قدرتی حسن کا اتنا مداح تھا کہ اس کی باتیں سن کر ہمیں بھی یہ جنت نظیر خطہ دیکھنے کا اشتیاق ہوا۔ ڈوینڈن بھی جنوبی نیوزی لینڈ کے اسی حصے میں واقع ہے۔ تاہم کوئنز ٹاؤن سے بہت لمبی ڈرائیو تھی۔ اس لئے ہم اس دورے میں وہاں نہیں جا سکے۔

بروس ان نیلے پانیوں، برفیلے پہاڑوں اور سرسبز چرا گاہوں کو چھوڑ کر آسٹریلیا گیا تو وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ شروع میں روزگار نے اس کے پاؤں جکڑ رکھے۔ جب بیمار ہو کر ریٹائر ہوا تو پھر وسائل آڑے آ گئے۔ کیونکہ دوران ملازمت اس نے جو کچھ کمایا تھا وہ عیاشیوں میں اڑا دیا تھا۔ وہ پچھلے 27 برس سے اپنے ملک، اپنے شہر اور اپنے عزیز و اقارب سے دور سڈنی میں تنہا زندگی بسر کر رہا ہے۔ وہ ہمیشہ ڈونیڈن اور گلینورکی کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔ مگر اب وہاں جا نہیں سکتا۔ کیونکہ اب تو اس کی صحت اور عمر ایسی ہو گئی ہے کہ اس کے لئے کہیں آنا جانا مشکل ہو گیا ہے ۔

بروس نے جس گلینورکی میں ستر برس پہلے آنکھ کھولی تھی اس میں اور آج کے گلینورکی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یہاں اب بھی آبادی محدود ہے اور گنے چنے گھر ہیں۔ یہ گھر اور گلیاں پرانے دور کی ہیں۔ یہاں جدید اور بڑے گھر نظر نہیں آتے اور نہ یہاں کوئی کمرشل سنٹر ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ گاؤں موجودہ دور کی تیز رفتار ترقی سے دور کہیں ماضی میں جی رہا ہے۔ گلینورکی جو 1860سے آباد ہے، اس کی اور اس کے مضافات میں بسنے والوں کی کل تعداد صرف 363نفوس پر مشتمل ہے۔

ڈیڑھ سو سال پہلے آباد ہونے والے اس جنت نظیر خطے کی آبادی میں اب تک یہی اضافہ ہوا ہے۔ جس رفتار سے یہاں آبادی بڑھ رہی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ اگلے ڈیڑھ سو سال تک بھی اتنی ہی آبادی رہے گی۔ حالانکہ یہ علاقہ اتنا وسیع ہے کہ یہاں ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ رہ سکتے ہیں۔ اسی تناسب سے یہاں زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور دیگر صنعتیں بھی موجود ہیں۔ اس کے باوجود آبادی بڑھ نہیں رہی بلکہ گھٹ رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments