دریائے عاشقاں کی جانب ایک سفر


کیا سوہنی آج بھی چناب کے پہلو میں رات ہونے کا انتظار کر رہی ہے؟
کیا اس کا گھڑا آج بھی کچا ہے؟
کیا اس کا پیار آج بھی اتنا ہی سچا ہے؟
ہمارے پاس کسی کے پیار کی سچائی ماپنے کا نہ تو اختیار تھا اور نہ ہی پیمانہ۔
لیکن ہم پھر بھی چل پڑے تھے۔
کنے کنے جانا بلو دے گھر۔
تو بلو دے گھر کون کون جا رہا تھا؟

ڈاکٹر نزہت، چوہدری عطاء میراں کو اسسٹ کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر افراح اور مس مہک، خیام جیلانی کے برادرانہ چاؤ میں مگن تھیں۔ اور ہر دو ڈاکٹران کی مادرانہ شفقت کی مظہر، نگاہ اور ابیہا کی شمولیت ایک لازمی امر تھی۔ اور ان سب کے ساتھ نام نہاد لکھاری لیموں نچوڑ بنا ہوا تھا۔

یہ قافلہ شاعر مشرق کی جنم بھومی سے چلا تھا اور اس کی منزل دریائے عاشقاں تھی۔
یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

مولانا ظفر علی خان کے شہر سے گزرتے ہوئے ہمارا لکھاری ایک مجرمانہ تاسف کا شکار ہو رہا تھا کہ اپنے تئیں اس نے بھی قلم تھام رکھا تھا لیکن اس کا حق ادا کرنے سے سراسر قاصر تھا۔

ہر شوق نہیں گستاخ ہر جذب نہیں بیباک۔
وہ اسی میں خوش تھا کہ اس کے ساتھیوں میں سے کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
اس دوران ڈاکٹر صاحبان اپنی اپنی زیر نگرانی بچوں کو تبدیل کر چکے تھے۔
خدا جانے محبت تھی۔
خدا جانے سیاست تھی۔
میٹلڈ روڈ پر لگژری گاڑی میں ہونے والا یہ سفر تاریخ کا سفر بنتا جا رہا تھا۔

جموں کی پہاڑیوں سے نکلنے والا چندر بھاگ، جو ایک نالے کی شکل میں ہوتا ہے، کیسے آہستہ آہستہ چناب میں ڈھل جاتا ہے۔ سمندر سے وصل ہونے تک تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کے سفر میں اس کے نام بدلتے رہتے ہیں۔ اور یہ پانی اپنے ساتھ محبت کی داستانیں لئے سفر کرتے رہتے ہیں۔ کہیں اس کے پانیوں میں کشمیر کی مٹی کی مہک ہوتی ہے اور کہیں اس میں سوہنی کے کچے گھڑے کی گھلاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ چناب کے کناروں پر وفا کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ سوہنی ڈوب گئی لیکن ڈوب کر بھی امر ہو گئی۔

مصطفی زیدی کہتے ہیں۔
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا

موسم بہار میں جب چناب کے کناروں پر سرسوں کے پھول کھلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کائنات ابھی ابھی وجود میں آئی ہو۔

اور چناب کا ایک حوالہ دور حاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مستنصر حسین تارڑ بھی ہیں۔

یا مستنصر حسین تارڑ صاحب کا ایک حوالہ چناب کے پانی بھی ہیں کہ وہ بھی اس کے کناروں پر واقع ایک گاؤں جوکالیاں میں پیدا ہوئے۔ اور اس مٹی سے محبت نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا ہے۔

جب ہماری گاڑی اپنی منزل پر پہنچی تو لکھاری کو زمانہ ء حال میں واپس آنے میں چند لمحے ہی لگے تھے لیکن یہ لمحے صدیوں پر بھاری تھے۔ کیا سوہنی نے یہ سوچا ہو گا کہ ایک مدت کے بعد کوئی اس کو یاد کرے گا اور اس کے لمس والے پانیوں کا قصد کرے گا۔

کنارہ دوسرا دریا کا جیسے
وہ ساتھی ہے مگر محرم نہیں ہے

کنارہ پلے لینڈ میں داخل ہوئے تو بچوں سے زیادہ ان کے بڑے الجھن میں مبتلا ہو گئے کہ کون سا جھولا ہے جو ان کے بچوں کے لیول پر پورا اترے گا۔ اور جب خریدے ہوئے ٹکٹ کئی بار تبدیل کرنے پڑے تو خواتین کی بن آئی۔ کہ خریدے گئے ٹکٹ ضائع تو نہیں کیے جا سکتے تھے۔ بدقت تمام بچوں کو جھولوں میں بٹھا کر تصویروں سے بہلایا گیا۔ صد شکر کہ ریموٹ کارز نے بچوں کی حسرت پوری کر دی۔ اور ان کی ایک مسکراہٹ نے تمام کلفت زائل کر دی۔

ریسٹورنٹ میں آرڈر دینے کے بعد لنچ سرو ہونے تک کا انتظار کسی شب ہجر سے زیادہ طویل لگ رہا تھا۔ قریب تھا کہ یہ لنچ ڈنر میں تبدیل ہو جاتا۔ اچانک مہک نے ایک طرف اشارہ کیا۔ قائد اپنے دلفریب انداز میں مسکرا رہے تھے۔

Expect the Best
Prepare for the Worst.
لکھاری کو یوں لگا جیسے وہ ہمیں ہی تسلی دے رہے ہوں۔
چناب کے پانیوں میں شام کی سرخی گھل رہی تھی۔
دور دن بھر کی اڑان کے تھکے ہارے پرندوں کے قافلے پانیوں پر اتر رہے تھے۔

شاید ان میں کچھ سائبیریا سے آنے والے مہمان بھی ہوں جو دور دراز کا یہ سفر صرف ان پانیوں کی خاطر کرتے ہیں۔

کون جانے۔
اور ان میں کونجیں بھی ہوتی ہیں۔
کہیں لمبی گردنوں والے ہنس ایک ٹانگ پر کھڑے گیان دھیان کی تیاری کر رہے تھے۔
محبتوں کی لہریں سبک خرامی سے رواں تھیں۔
سوہنی ہر دور میں موجود تھی اور ہر دور میں موجود رہے گی۔
بس اس کا نام تبدیل ہوتا رہے گا۔
اس کے محبوب تک پہنچانے والا ہر کچا گھڑا بھی موجود رہے گا۔

بس اس کی ہیئت اور نام زمانے کے مطابق بدلتا جائے گا۔ کہ یہ ایک استعارہ ہے جو محبوب تک وصل میں معاونت کرنے والی ہر چیز کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔

اور اگر یہ دونوں موجود رہیں گے تو سچا پیار بھی موجود رہے گا۔ چاہے جھوٹ کا اندھیرا کتنا ہی بڑھ جائے، سچ کی لو اپنی روشنی پھیلاتی ہی رہے گی۔

ہر قسم کے مفادات اور مشکلات سے بالاتر ہو کر۔
ہزاروں مشکلیں آئیں، محبت سرخرو ہو گی
یہ ہر کوچے میں ہوگی، کو بہ کو اور جو بہ جو ہو گی
لکھاری کو اس کے سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).