اور ایک بار پھر نگہت…


نگہت کو گئے دو سال ہو گئے۔ ہمارا رابطے اب بھی کسی حد تک باقی تھا۔ سالگرہ اور عید کی مبارکباد آتی۔ یا سالار کی کوئی نئی تصویر، اپنے بیوٹی پارلر کی تصاویر بھی بھیجتی۔ کبھی کسی دلہن کی جسے اس نے سجایا سنوارا تھا۔ مجھے بھی کہتی ”بچوں کی نئی فوٹو بھیجیں۔ اور ناروے کی برفوں کی بھی۔ اور اپنی بھی اسٹائلش سی۔ بہت یاد آتی ہیں آپ“ لمبی لمبی فون کالز اب کم کم ہی ہوتیں۔ واٹس اپ مسیجز ہوتے رہتے۔

وہ بہت مصروف تھی۔ نیا شہر نئے لوگ نیا ماحول۔ کام اور بچے کی پرورش اکیلی ماں کے لیے چیلینج سے کام نہیں۔ یوکے میں یوں بھی ناروے والی سہولیات نہیں ہیں۔ وہ زندگی بنانے میں لگی ہوئی تھی۔ میں بھی ترقی پا کر ٹیچر سے ہیڈ مسٹرس ہو گئی۔ ذمہ داری بڑھ گئی۔ اب کلاسسز کے ساتھ ساتھ منیجمنٹ کا کام بھی تھا۔

اس دن میں اپنے دفتر میں بیٹھی کام میں مصروف تھی کہ کوئی کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے کمپیوٹر سے نظریں اٹھا کر دیکھا ایک شخص کچھ جھجکتا ہوا سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ مجھے کچھ جانا پہچانا سا لگا۔ دوسری نظر میں پہچان گئی وہ ندیم تھا۔

سلام کے بعد اس نے اپنا تعارف کروایا۔
” میں ندیم ہوں۔ آپ شاید مجھے جانتی ہوں۔“
”میں نے پہچان لیا۔ کیسے آنا ہوا؟“ مجھے کچھ کچھ تشویش ہونے لگی۔
میری اجازت کے بغیر ہی وہ سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔
” نگہت کا پتہ کرنا تھا۔ وہ کہاں ہے؟“
میں چپ رہی وہ پھر بولا۔

” وہ اچانک کہاں چلی گئی؟ سوشل میڈیا پر بھی نہیں ہے۔ فون نمبر بھی شاید اس نے بدل لیا ہے۔ مجھے پتہ ہے آپ کو ضرور علم ہو گا کہ وہ کہاں ہے۔“ ۔ میں جانتی تھی کہ نگہت نے فون نمبر تبدیل کر لیا ہے اور سوشل میڈیا سے بھی دور ہے۔

” نگہت کو سکون سے زندگی گزارنے دو۔ اب کیا نئی مصیبت اس کے لیے کھڑی کرنا چاہتے ہو۔ اور مجھے نہیں علم کہ وہ کہاں ہے“

”وہ آپ پر ہی بھروسا کرتی تھی۔ آپ ہی تو تھیں اس کی دوست۔ آپ کو کیسے علم نہیں؟“
”ہاں بھروسا وہ کرتی ہے۔ اس کا بھروسا توڑ نہیں سکتی۔ تمہیں بھی اب یہ سب نہیں کرنا چاہیے“
”نگہت نے لگتا ہے آپ کو پوری بات نہیں بتائی“ وہ مسکرایا۔

”مجھے سب پتہ ہے کیسے تم اسے بلیک میل کرتے رہے اس سے پیسے لیے۔ اس پر زور ڈالا کہ گھر تمہارے نام کردے“

”جی۔ مانتا ہوں۔ لیکن اس نے پوری بات پھر بھی آپ کو نہیں بتائی“
” سب بتایا ہے۔ یہ بھی تم نے فضل کو بچانے کی کوشش نہیں کی“
وہ کچھ دیر چپ بیٹھا رہا۔
”اب جاؤ اور نگہت کا پیچھا چھوڑ دو“ میں نے سختی سے کہا۔
”اب مجھے یقین ہو گیا کہ نگہت نے آپ کو پوری بات نہیں بتائی“
وہ کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ میری طرف دیکھا۔

”سالار میری اولاد ہے“ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا میں اگر کرسی پر بیٹھی نہ ہوتی تو یقیناً گر جاتی۔ ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔ یہ میں نے کیا سنا؟ کیا یہ ممکن ہے۔

کئی دن میں اسی کشمکش میں رہی۔ ذہن میں گتھی سی بن گئی۔ سلجھانے کی کوشش کی۔ حساب لگایا۔ اگست میں نگہت کی شادی ہوئی اور مئی میں سالار کی پیدائش پورے نو ماہ بعد ۔ پھر یہ ندیم کیا کہانی سنا رہا ہے؟ یہ ممکن ہی نہیں۔ بہت ہی لغو بات کر رہا ہے۔

میں نے نگہت سے اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ یوں بھی رابطے اب پہلے جیسے نہیں تھے۔
چار دن بعد ندیم پھر میرے پاس آیا۔

”نگہت سے کہیں مجھ سے رابطہ کرے ورنہ میں پولیس میں رپورٹ کردوں گا کہ وہ میرے بچے کو اغوا کر کے کہیں گم ہو گئی ہے۔ پولیس خود اس کا سراغ لگا لے گی“

” سالار تمہارا بیٹا نہیں ہے۔ ولدیت میں سلطان کا نام ہے۔ اور اب دو سال بعد تمہیں خیال آیا؟“
” میں اپنے کاموں میں مصروف تھا۔ آپ بس اسے پیغام دے دیں۔ میں ڈی این اے کروانے کو بھی تیار ہوں“

میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ فون کر کے نگہت سے پوچھوں کہ یہ سب کیا ہے؟ لیکن فون پر ایسی بات کرنا مناسب نہیں۔

ایسے میں نگہت کا خود ہی فون آ گیا۔ حال چال پوچھنے اور بتانے کے بعد اس نے کہا۔ ”باجی ایک ضروری بات کرنی ہے۔ “ ۔ پھر ضروری بات۔ میں ہمہ تن گوش ہو گئی۔

” کرائے دار گھر چھوڑ رہے ہیں اب دوسرا کرائے دار ڈھونڈنا ہے۔ آپ بھی ذرا پوچھیں ادھر ادھر کوئی مناسب لوگ مل جایں۔ میں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں رک سکتی۔ یہاں شادی کا سیزن چل رہا ہے“ ۔ نگہت نے برمنگھم جانے سے پہلے اپنا اپارٹمنٹ کرائے پر دیا اور اپنے لیے ایک بیڈ روم کا چھوٹا سا اپارٹمنٹ خرید لیا تھا جب بھی آتی وہیں کچھ دن گزارتی۔ اب میں بے تابی سے اس کی آمد کی منتظر تھی۔

نگہت کرسمس کی چھٹیوں میں آ گئی۔ مجھ سے ملنے آئی۔ سالار اب دو سال کا تھا اور بھی پیارا ہو گیا تھا۔ میں اس کے چہرے میں ندیم کے نقوش تلاش کرنے لگی لیکن وہ تو بالکل نگہت جیسا تھا۔ میں تو سمجھ رہی تھی کہ اب نگہت کی زندگی میں میرا کوئی کردار باقی نہیں ایک بار پھر اس ڈرامے میں رول نبھانے لگی۔

اس بار ضروری بات مجھے نگہت سے کرنی تھی۔ میرے بچے دوسرے کمرے میں سالار کے ساتھ کھیلنے لگے تو میں نے موقع مناسب سمجھا۔

”ندیم آیا تھا میرے دفتر“
”کیوں؟“ اس نے ابرو چڑھائے ”وہ کیوں آیا تھا؟“
”کیا کوئی ایسی بات ہے جو تم نے ابھی تک مجھے نہیں بتائی؟“
وہ کچھ گھبرا سی گئی۔ ”نہیں باجی ایسی کوئی بات نہیں۔ آپ تو سب جانتی ہیں۔“
”ندیم کہتا ہے کہ سالار اس کی اولاد ہے“
نگہت کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ ہونٹ کانپ سے گئے اور بدن لرزنے لگا۔
”یہ جھوٹ ہے بکواس ہے۔ بہت ذلیل ہے ندیم“
”اتنی بڑی بات وہ بغیر کسی وجہ کے نہیں کہہ سکتا۔ کچھ تو ہے۔ تم نہ بتانا چاہو تو ٹھیک ہے لیکن میں ندیم کو کچھ بھی کرنے سے روک نہیں سکتی۔ تم جانو وہ جانے اور مجھے اب ہر معاملے سے دور رکھنا“ میں نے قدرے بے رخی سے کہا۔ وہ شدید تذبذب میں مبتلا تھی۔ چہرے سے پسینہ پونچھ کر بمشکل اس کے منہ سے آواز نکلی۔
”آپ کو سب کچھ بتا دوں گی“

”سچی بات یہ ہے نگہت کہ اب میں کچھ اور سننا ہی نہیں چاہتی۔ ندیم سے اپنے معاملات درست کرو ورنہ ایک اور مصیبت میں پھنس جاؤ گی“

سالار کے رونے کی آواز آئی تو وہ چونکی۔ ”کل مجھ سے ملیے پلیز۔ چاہے یہ آخری بار ہی ہو۔“

وہ سالار کو لے کر چلی گئی اور میں سوچ میں پڑ گئی۔ کچھ ہے جو ندیم نے اتنا بڑا دعوی کیا ہے۔ کیا مجھے نگہت سے ملنا چاہیے؟ ملوں گی تو پھر کسی نئے مسئلے میں الجھ جاؤں گی۔ اب دل کچھ کھٹا سے ہو گیا اس کی طرف سے۔ لیکن کیا پتہ ندیم پھر کوئی الزام لگا کر نگہت کو تنگ کر رہا ہے۔ نگہت کو اس مصیبت میں اکیلا کیسے چھوڑ دوں؟ میرے سوا اس کا یہاں اور کون ہے؟ لیکن پھر وہی خدشہ کہ اگر یہ بات درست ہے تو میں نگہت کا ساتھ کیسے اور کہاں تک دے سکوں گی؟

دل کے دروازے پر کنڈی لگا کر تالا ڈال دوں تو بھی آنکھوں کے دریچوں سے وہ جھانکتی نظر آتی ہے۔ اور جب وہ نظر آتی تو دل کے قفل بھی کسی کنجی بغیر خود بخود کھلتے جاتے۔ کیا کروں؟

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments