قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ اور سید فخرالدین بلے کی شاہکار نظم ”مٹی کا قرض“ ( 3 ) تیسری قسط


برادر محترم قبلہ خالد احمد صاحب نے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کو متوجہ اور مخاطب فرمایا اور چند جملوں میں شاعر کرب آنس معین کی شاعری کا تجزیہ پیش فرمایا اور پھر ایک کے بعد ایک کر کے آنس معین کے بارہ، پندرہ اشعار پڑھ ڈالے اور اس دے قبل کہ ڈاکٹر اجمل نیازی انہیں یاد دلاتے ہیں کہ یہ قافلہ پڑاؤ جشن آزادی پڑاؤ ہے جناب خالد احمد صاحب نے آنس معین کی شہرہ آفاق اور شاہکار نظم پیش کرنے کا اعلان فرما دیا اور اعلان میں وضاحت فرمائی کہ میں میزبان کی حیثیت سے آنس معین کو شعراء کی فہرست میں شامل کر رہا ہوں اور پھر انہوں نے آنس معین کی یہ نظم کہ جو انہیں زبانی یاد تھی شاندار تحت اللفظ میں پیش فرمائی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے اور برادر محترم خالد احمد صاحب کے حافظے اور حسن انتخاب کی داد دیجے

نظم : تو میرا ہے۔
نظم نگار : آنس معین

تو میرا ہے
تیرے من میں چھپے ہوئے سب دکھ میرے ہیں
تیری آنکھ کے آنسو میرے
تیرے لبوں پہ ناچنے والی یہ معصوم ہنسی بھی میری
تو میرا ہے
ہر وہ جھونکا
جس کے لمس کو
اپنے جسم پہ تو نے بھی محسوس کیا ہے
پہلے میرے ہاتھوں کو
چھو کر گزرا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
دستک دینے والا
ہر وہ لمحہ جس میں
تجھ کو اپنی تنہائی کا
شدت سے احساس ہوا تھا
پہلے میرے گھر آیا تھا
تو میرا ہے
تیرا ماضی بھی میرا تھا
آنے والی ہر ساعت بھی میری ہوگی
تیرے تپتے عارض کی دوپہر ہے میری
شام کی طرح گہرے گہرے یہ پلکوں سائے ہیں میرے
تیرے سیاہ بالوں کی شب سے دھوپ کی صورت
وہ صبحیں جو کل جاگیں گی
میری ہوں گی
تو میرا ہے
لیکن تیرے سپنوں میں بھی آتے ہوئے یہ ڈر لگتا ہے
مجھ سے کہیں تو پوچھ نہ بیٹھے
کیوں آئے ہو
میرا تم سے کیا ناتا ہے

جب برادر محترم خالد احمد اپنے مخصوص انداز میں آنس معین کی یہ نظم سنا کر ہر طرف سے بھر پور داد سمیٹ چکے تو اس کے ممتاز اور قادر الکلام شاعر جناب اختر حسین جعفری صاحب کو جب ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے دعوت کلام دی تو حضرت طفیل ہوشیار پوری نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ انہیں کہیں دور جانا ہے اور پہنچنے میں خاصا وقت لگے گا لہذا انہیں رخصت عطا کی جائے۔ اس پر احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ یہ سید فخرالدین بلے صاحب کی اقامت گاہ ہے اور ہم سب شرکائے قافلہ پڑاؤ یہاں مہمان نہیں میزبان کی حیثیت سے شرکت کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ قافلہ کا جشن آزادی پڑاؤ ہو اور آپ کے کلام سے ہم محروم رہیں لہذا ایک ہی صورت ہے کہ آپ عمر میں ہم سب سے سینئر ہیں اور ہماری خواہش تھی کہ آپ سب سے آخر میں اپنا کلام عطا فرماتے لیکن اب مجبوری ہے تو ہماری فرمائش اور اپنی پسند کے مطابق اپنا کلام عطا فرما دیجے اور اس کے بعد آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت دی جس کے گی۔ اس طرح جناب اختر حسین جعفری صاحب سے بھی قبل جنا طفیل ہوشیار پوری صاحب سے خصوصی فرمائش کر کے بہت سا کلام سنا گیا خاص کر کہ وہ جو طفیل ہوشیار پوری صاحب قائداعظم کے جلسوں میں پڑھا کرتے تھے اور اختتام پر طفیل ہوشیار پوری صاحب نے

اے مرد مجاہد جاگ ذرا

نغمہ پیش فرمایا۔ حضرت طفیل ہوشیار پوری صاحب کے بعد ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب نے جناب اختر حسین جعفری صاحب کو زحمت کلام دی۔ تو انہوں نے شرکائے قافلہ پڑاؤ کی ہر ہر فرمائش پوری کی۔ تمام تر کلام تو نہیں البتہ حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے سے جو نظم پڑھی وہ نذر قارئین ہے۔

نظم : وہ جو تجھ سے پہلے کی راہ تھی
(قائد اعظم کے حوالے سے نظم)
نظم نگار : اختر حسین جعفری
وہ جو تجھ سے پہلے کا ذکر تھا
وہ جو تجھ سے پہلے کی راہ تھی
کہیں صبح ذات لٹی ہوئی
کہیں شام عشق بھجی ہوئی
کہیں دوپہر رہ ماندگاں پہ تنی ہوئی
سہی
کہیں چاند پچھلے وصال کے
کہیں مہر صبح کمال کے
کہیں زلف وصل مزاج پر تہہ گرد ہجر جمی ہوئی
کہیں آس تھی کہیں پیاس تھی
کہیں خشک حلق میں تیر تھا
کہیں بادبان جلا ہوا
کہیں سائبان میں چھید تھا
کوئی راز تھا کوئی بھید تھا
جسے مخبروں جسے تاجروں نے رقم کیا تو کتاب میں
مرا حکم میرے خلاف تھا
مرا عدل مری نظیر تھا
سو حقیر تھا
میرا بادشاہ بھی فقیر تھا
یہ جو تیرے ہونے کا ذکر ہے
جو تیرے ظہور کی بات ہے
میری بات ہے
میرا عشق ہے میرا درد ہے
میرے حرف و صوت کی ذات ہے
میری راہ پر میری چھاؤں ہے
میرے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے
نظم : وہ جو تجھ سے پہلے کی راہ تھی
نظم نگار : اختر حسین جعفری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments