بچوں کا کانٹینٹ کہاں غائب ہو گیا


نئی نسل کتاب نہیں پڑھتی، اس کا رجحان موبائل اور انٹر نیٹ میں لگا رہتا ہے۔ ان سے ہمیشہ تفریح کروا لو، ایسے الزامات کی گردان کا سامنا ہر وقت نئی نسل کو رہتا ہے۔ کوئی تو وکیل ہو ان کا بھی، اب جب نظر دوڑاتے ہیں تو اپنا مواد یا کانٹینٹ ملتا نہیں، تو مطالعے کا ذوق کہاں سے آئے، پھر تاریخ پڑھنے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے، یا کہاں سے نئی نسل میں انجیکٹ کیا جائے، اس کی اہمیت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔

دو مختلف جنریشن والے لوگ جب بات کر رہے ہوتے ہیں تو ایک بڑا خلاء محسوس ہوتا ہے۔ بڑی جنریشن وہ میں ایک وہ جو صبح شام یہ کہتے رہتے ہیں نئی نسل کو مطلع کا ذوق نہیں، جی مان لیتے ہیں کہ ذوق مر کھپ گیا لیکن جناب دوسری جانب دیکھیں وہ مٹیریل بھی تشکیل نہیں دیا جا رہا جو زمانے کی ضرورت ہے جس کو دیکھا جائے، جس سے تحریک حاصل ہو کچھ نیا کچھ اچھا کرنے کی، اس کا ذمہ کون ہے جس یوں کہیے کون کون ہے۔ میں پاکستان کی اس نسل سے تعلق جو نونہال اور تعلیم و تربیت پڑھ کر بڑے ہوئے، یہ دونوں رسالے اب بھی چھپتے ہیں۔

اس زمانے میں یقیناً یہ رسالے حاصل کرنا ہر مہینے کی ایک ترجیح ضرور ہوتی تھی۔ اسی طرح میرے پرائمری اسکول کے زمانے میں بچوں کی کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابیں یا چھوٹے کتابچے پچاس پیسے سے ایک روپے تک میں مل جاتے تھے۔ سستا زمانہ تھا۔ شہزادوں شہزادیوں، ٹارزن، عمر و عیار چچا بہادر کی کہانیوں کے مرکزی کردار ہوا کرتے تھے۔ یہ خیالی کہانی زندگی کے سچے سبق سکھاتی تھیں، شاید اب بھی چھپتی ہوں اور بکتی ہوں، بازار میں نظر نہیں آتیں، ایسے ہی پی ٹی وی پر بچوں کے خصوصی ڈرامے چلا کرتے تھے۔

الف لیلیٰ، عینک والا جن اور بہت سے مشہور ڈرامے بچوں کے لئے لکھے جاتے تھے۔ اے حمید ایک بڑا نام یقیناً اے حمید صاحب کی ہی تحریر عینک والا جن تھا۔ میرا خیال ہے ایک اچھی خاصی مارکیٹ خراب کی گئی۔ اب بھی پرائیویٹ چینلز پر چند ایک پروڈکشنز نظر آتی ہیں لیکن معیار ایک سوالیہ نشان ہے لیکن کچھ نہ ہونے سے ہونا بہرحال بہتر ہے لیکن ویورشپ موجود ہے جس کی کمی آج یو ٹیوب کے زمانے میں بچوں کے لئے محسوس ہوتی ہے۔ یوٹیوب پر بچوں کے لئے خاص پاکستانی کانٹینٹ شدید کمی کا شکار ہے جس کی کمی ہندوستانی کانٹینٹ سے پوری کی جاتی ہے۔

بظاہر ایک جیسے دکھنے والے بھی خاصے مختلف ہیں ظاہر ہے ہندوستان کا کانٹینٹ ان کی ثقافت اور ان کی معاشرتی ضروریات پر بیسڈ ہوتا ہے۔ ان کی واقعہ نگاری، ہندی جملوں میں ہی ہوتے ہیں۔ تلفظ ان کا اپنا ہے پھر ہندوستانی بھی خالص ہندوستانی کانٹینٹ بہت پروڈیوس زیادہ نہیں کر رہے وہ مغربی کانٹینٹ کا ہندی میں ترجمہ کر کے پیش کر رہے ہیں۔ نئے خیالات کی آمیزش ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس پر فلٹر نہیں ہوتا یہ ممکن بھی نہیں۔

نام جہاں شناخت ہوتے ہیں شخصیت کی، وہیں نام کے ذریعے مذہب پہچانے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ مذہب سوچ کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ ایک منفی پہلو جو میں نے خاص طور پر انڈین کانٹینٹ میں نوٹ کیا وہ یہ ہے کہ کسی کارٹون سیریز کو اگر انگریزی سے ہندی میں ڈھالا گیا تو منفی کردار کا نام شیر خان اور مثبت یا ہیرو کردار کو شیر سنگھ ڈکلیئر کر دیا گیا۔ ہم کیا جواب دیں، ہمارا تو کانٹینٹ ہی خاموشی ہے۔ ایک خالی سلیٹ کی مانند، بچے تو ہندوستان میں بھی تھے اور اب ہیں بھی، اور یہاں بھی ہیں وہاں پہلے مارکیٹ بنائی گئی اور اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں دنیا کے بڑے پروڈکشن ہاؤسز کی جانب سے بھی ہندی کانٹینٹ بنایا جا رہا ہے۔

ہم تو اپنے دیکھنے وار پڑھنے والے کو خود موبائل پکڑا کر پتلی گلی سے نکل چکے، جیسے اب ہماری ذمہ داری ختم ہی ہو گئی۔ یہ تو الیکٹرانک میڈیا کی بات تھی۔ اب تھوڑی بات ہو جائے پبلشنگ میٹریل کی یعنی رسالے کہانی اور بچوں کے میگزینز کی اپنی بات کروں گا مجھے انگریزی کم ہی سمجھ آتی تھی۔ اس لئے کبھی خود کامکس نہیں پڑھتا تھا۔ ہاں جب ڈرائنگ میں انٹرسٹ بڑھا تو، بہت خریدیں، انگریزی کامکس بازار میں باآسانی مل جاتی ہیں لیکن اس میں ہمارے کردار مسنگ ہیں۔

ظاہر جس نے بنائی وہ کامکس وہ ہماری کہانی، ہمارے کردار کیوں دکھائے گا۔ یہ کام تو ہمارا ہے۔ انٹرنیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں اب بھی ہندی زبان میں کامکس چھپ رہی ہیں۔ اپنے کرداروں کو پیش کرنا ان بھی حق ہے۔ ہم اپنا کام نہیں کر رہے تو دوسروں نے آنکھیں تھوڑی بند کی ہوئی ہیں۔ یہاں کلاکس کے نام سے مختلف پبلکیشن ہاؤسز نے کامکس جیسے فارمیٹ میں کتابیں چھاپیں، قائد اعظم، کے حوالے سے مختلف کمپنیز کی کتابیں میری نظر سے گزریں، پھرکیوں کہ میرا انٹرسٹ فوج اور تاریخ سے ہے تو سوچا کہ کیوں نہ خود کامکس بناؤں، اس جانب کام شروع بھی کیا بھی اور کامک بنائی جس میں یکم ستمبر 1965 میں ہونے والے پاک فضائیہ کے پہلے معرکے کو تصویری شکل میں ڈھالنے کی کوشش کی، جب تک کہانی کے ساتھ ویژول سینس ڈیویلپ نہیں ہوتا، ہم ٹی وی یا فلم پر اچھا اور باقاعدہ مٹیریل نہیں بنا سکتے، میری ذاتی رائے ہے۔

پڑھنے والے اختلاف کر سکتے ہیں کہ ہالی وڈ کی فلمز خصوصاً ایکشن اور سوپر ہیروز پر مبنی فلمز کی کامیابی کے پیچھے اس ویژول سینس کا عمل دخل ہے جو کامکس کی مرہون منت ہے۔ ڈائیلاگ اور اسٹوری بھی دیکھنے والوں کو ادھورے ہونے کے باوجود اس لئے سمجھ آ جاتے ہیں جیسے انھوں نے ان کہی بات سمجھ لی، وجہ وہی کہ کامکس ان کے اسکول ایج لائف یا ٹین ایج لائف کا حصہ رہے۔

اچھا چلو مان لو کہ ہمارا مولا جٹ ایک فرضی کردار ہے۔ کم از کم جس انداز میں فلم میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم اصل کرداروں کی زندگی کو بھی اس سانچے میں ڈھال سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں کام ہوا اس انداز میں لیکن محدود، عینک والا جن بھی ایک کامک کریکٹر ہو سکتا تھا لیکن مس کر دیا گیا۔ یہی کہانیاں وقت کے ساتھ نئی کہانی اور نئی سوچ فلم اور ڈرامے والوں کو دیں گی۔ ہمیں ہر حال میں اپنا کانٹینٹ بنانا ہو گا۔ اس کا معیار کو مارکیٹ سے بہتر کرنا ہو گا۔

ہمارے یہاں فوٹو شاپ اور گرافک ڈیزائنر موجود ہیں۔ کام مشکل نہیں، لیکن ابھی اس طرف کام کرنے والوں کے لئے اچھی خاصی گنجائش ہے۔ اگر اس سیکٹر کی جانب ورنا بچے فتح ہوچکے ہیں ہمارے کیونکہ ہم اپنی افکار کو نہیں اپنے موبائل فونز کے ذریعے دوسری اقوام کو، ان کی روایات کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہمارے ڈراموں، فلمز اور پھر اشتہاروں میں ہمارا رنگ نہیں دوسروں کی کاپی نظر آتی ہے۔ ٹرانسفارمیشن اچھی اور بری دونوں ہی ہوتی ہیں لیکن اگر صرف مرعوب ہی ہونا ہے تو آزادی کا تکلف کس لیے ہوا، افکار کا ڈھول کس لیے، جداگانہ شناخت کا بار کیوں، اگر کچھ نہیں کرنا ڈھل جائے جدھر ڈھل سمجھ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments