گلگت بلتستان میں شراب کے قانون پر عوام کا غصہ


قانون ہمیشہ یہ فرض کرتا ہے کہ ملک کا ہر شہری قانون سے واقف ہے۔ اس لئے کوئی شہری یہ کہہ کر اپنے کسی فعل سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا کہ کسی جرم کے ارتکاب کے دوران وہ اس ضمن میں رائج قانون سے واقف نہیں تھا۔ گلگت بلتستان میں آج کل جی بی ریونیو ایکٹ 2022 زیر بحث ہے۔ جو کہ حالیہ دنوں گلگت بلتستان اسمبلی سے منظور کیا گیا ہے۔ عوام کی اکثریت اس بات پر غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے کہ اس قانون میں شراب اور افیون کے کاروبار کی اجازت دی گئی ہے۔

حکومت اپنی صفائی دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ریونیو ایکٹ کا شراب اور افیون کے کاروبار اور استعمال کی اجازت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس بل میں ان تمام سیکٹرز کی نشاندہی کی گئی ہے جن پر ٹیکس لگا کر گلگت بلتستان کا ریونیو بڑھایا جاسکتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جی بی میں غیر مسلمانوں کو شراب کے کاروبار کا لائسنس پچھلی حکومت نے ”دی گلگت بلتستان ایکسائز ایکٹ 2018“ کے تحت جاری کرنے کی اجازت دی ہے۔

ہمارے ہاں عوام کی اکثریت ملکی قوانین سے نا واقف ہے۔ جس میں پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں۔ سوائے سیاسیات کے مضمون میں گریجویشن اور ماسٹرز کی سند حاصل کرنے والوں کے علاوہ بیشتر لوگ ملک کا آئین، جی بی کا گورننس آرڈر اور دیگر تمام ضروری قوانین سے مکمل نابلد ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ الیکشن لڑ کر اسمبلی میں جانے والے لوگوں میں بھی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو قوانین کی اہمیت سے نا واقف ہیں۔ حالانکہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہی قوانین بنانا ہے۔ عوام اور خصوصاً پڑھے لکھے لوگوں کی قوانین سے نابلد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سکولوں میں قوانین کی اہمیت اور قوانین بنائے جانے کے طریقہ کار پر تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔

حتی کی پڑھی لکھی جنتا بھی اسمبلی سے پاس ہونے والے کسی مخصوص قانون کو کبھی تفصیل سے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتی۔ نہایت ہی اہم قوانین کے بارے میں ان کا علم صرف وہی ہوتا ہے جو کسی فیس بک کی پوسٹ میں یا کسی اخبار کی خبر میں ان کو مل جاتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ایسی خبر یا پوسٹ بھی ان کو حقیقت لگتی ہے جو نہ تو اس مضمون کے کسی ماہر نے لکھی ہے اور نہ ہی اس میں کسی مخصوص شق کا یا تحریر کا حوالہ موجود ہوتا ہے۔

یہ وہ پوسٹ ہوتی ہے جو بغیر کسی تحقیق کے آگے بڑھتے بڑھتے سینکڑوں، ہزاروں لوگوں سے گزرتے ہوئے ان تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ جس میں حقیقت کم اور سیاسی پراپیگنڈا کا عنصر زیادہ شامل ہوتا ہے۔ قوانین کو پڑھنا اور ان کو سمجھنا اور ان پر رائے دینا ہر شہری کا بنیاد حق ہے مگر ان قوانین کو پڑھے اور سمجھے بغیر رائے دینا ایسا ہی جیسے اندھیرے میں تیر چلانا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کی قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے ایک طرف قوانین میں موجود سقم باقی رہتے ہیں تو دوسری طرف مثبت قوانین پر عملدرآمد میں سرکار کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مثلاً بچوں کے تحفظ کا ایک اچھا قانون گلگت بلتستان میں موجود ہے، خالص خوراک کا قانون بھی موجود ہے، کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف بھی ایک اچھا قانون موجود ہے۔ سکولوں میں بچوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف بھی ایک اچھا قانون موجود ہے۔ افراد باہم معذوری کے حقوق کا بھی قانون موجود ہے۔ اسی طرح دیگر کئی اہم قوانین موجود ہیں جو بظاہر عام شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لئے بنائے گئے ہیں۔

چونکہ سول سوسائٹی یا عام لوگ ان تمام قوانین کی اہمیت اور ان پر عملدرآمد کے طریقہ کار سے ناواقف ہیں اس لئے یہ قوانین محض کاغذ کے ٹکڑے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قوانین پر عملدرآمد گو کہ سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اگر سرکار اس میں ناکام ہوئی تو ایسی صورت میں قوانین سے واقف ایک متحرک اور باشعور سول سوسائٹی یا عوام سرکار کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان قوانین پر عملدرآمد کرائے۔ سرکار کو مجبور کرنے کا طریقہ کار بھی آئین اور قانون میں درج شقوں سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ معلومات تک رسائی کے حق کے قانون کا استعمال کرتے ہوئے سرکار کی کارکردگی معلوم کی جائے، بولنے اور لکھنے کے حق کا قانون استعمال کرتے ہوئے سرکار کے متعلقہ اداروں کے پاس جاکر ان کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلائی جائیں، یا سرکار کو خط لکھا جائے، یا میڈیا میں مسئلہ اجاگر کیا جائے۔ اگر ان مراحل سے گزرنے کے بعد بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا جائے۔ اور پھر آئین میں درج پرامن احتجاج کے حق کو استعمال کرتے ہوئے احتجاج کے ذریعہ اپنا قانونی حق لینے کا آپشن بھی موجود ہے۔

ان تمام مراحل میں اگر جس طبقے کے پاس قانون کا علم زیادہ ہو گا ان کی بات سنی اور مانی جائے گی۔ جیسے وکلاء کے احتجاج کو باقی طبقوں کی نسبت حکومت تھوڑی بہت اہمیت اس لئے زیادہ دیتی ہے کیونکہ وہ قانون کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس لئے ایک متحرک سول سوسائٹی اور باشعور عوام کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ قوانین کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اس پر اپنی رائے دیں۔ قوانین میں تبدیلی یا درستگی اس وقت ہی ممکن ہے جب عوام ان قوانین کو پوری طرح سمجھ جائیں۔

ملک میں اس وقت بھی انگریزوں کے دور کے ایسے کئی فرسودہ قوانین موجود ہیں جو کسی بھی طرح عوام کے مفاد میں نہیں ہیں۔ چونکہ جنتا اس معاملے میں خاموش ہے جس کی وجہ سے یہ قوانین بدستور رائج ہیں۔ اس لئے ضروری ہے عوام کا پڑھا لکھا طبقہ ایسے قوانین کا مکمل مطالعہ کرے جو اسمبلی سے پاس ہوتے ہیں یا اسمبلی میں زیر بحیثیت ہوتے ہیں۔ حالیہ جی بی اسمبلی سے پاس ہونے والے ریونیو ایکٹ پر وہ تمام لوگ رائے زنی کر رہے ہیں جنہوں نے اس مسودے کو نہ پڑھا ہے اور نہ سمجھا ہے۔

جو لوگ اس قانون کے حق میں بولتے تھے یا مخالفت میں بولتے تھے، ایسے دو طرح کے کئی لوگوں سے ہم استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ ان میں سے کسی نے بھی اس مسودے کو نہ خود پڑھا ہے اور نہ تو کسی ماہر قانون سے اس کی مکمل معلومات لی ہیں۔ لہذا سول سوسائٹی کو چاہیے کہ وہ ان قوانین کو پہلے پڑھے اور سمجھیں پھر اس پر بات کریں۔ سول سوسائٹی کی طرف سے حکومت سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ ایسے قوانین کا مکمل متن اخبارات میں شائع کیے جائیں تاکہ عوام ان کو پڑھ کر ان پر اپنی رائے دے سکیں۔

قوانین دراصل شہریوں کے لئے بنائے جاتے ہیں، قوانین کا اطلاق بھی شہریوں پر ہی ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ عوام ان قوانین کی مکمل معلومات حاصل کریں جو ان کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ نیز سکول لیول پر قوانین کی اہمیت پر بچوں کے لئے اسباق بھی شامل کیے جانے چاہیے۔ قانون کی حکمرانی ہی دراصل حقیقی حکمرانی ہے وہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک عوام قوانین کو بنانے، سمجھنے اور ان پر عملدرآمد کرانے کے عمل میں شامل نہیں ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments