بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں، متاثرین بے یار و مددگار


حالیہ بارشوں اور سیلاب سے ملک کے چاروں صوبوں میں تباہی ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ بارشیں سندھ اور بلوچستان میں ہوئی ہیں۔ اتنی بارشیں ہوئی ہیں شاید ایک صدی میں اتنی بارشیں سندھ اور بلوچستان میں نہی ہوئی ہوں گی۔ حالیہ بارشوں سے رکارڈ قائم ہوا ہے۔ سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے ساتھ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں گزشتہ 7 روز سے جاری بارشوں سے ہر طرف تباہی ہوئی ہے۔ حالیہ بارشوں سے بلوچستان اور صوبہ سندھ تباہ برباد ہو گئے ہیں۔

موجودہ حکومت میں جنتا کی کوئی خبر نہیں، سندھ اور بلوچستان میں حکومت نام کوئی چیز نہیں۔ وہی کرپشن وہ ہی لوٹ کھسوٹ وہ ہی بجٹ پر ڈاکے وہ ہی متاثرین کے فنڈز پر قدغن جاری ہے۔ جبکہ دوسری جانب سکھر بیراج، گڈو بیراج پر ہائی فلڈ رکارڈ کیا گیا ہے۔ اس وقت دریائے سندھ میں پونے پونے چھ لاک تک کیوسکس پانی موجود ہے۔ تحریر لکھتے وقت تونسہ بیراج پر 4 لاکھ 80 ہزار کیوسکس رکارڈ کیا گیا جبکہ ڈاؤن میں بھی 4 لاکھ 80 ہزار کیوسکس رکارڈ کیا گیا، سکھر بیراج پر 5 لاکھ 67 ہزار کیوسکس رکارڈ کیا گیا اور گڈو بیراج پر 5 لاکھ 23 ہزار کیوسکس رکارڈ کیا گیا ہے۔

جبکہ کوٹڑی بیراج پر 2 لاکھ 90 ہزار سے زائد کیوسکس رکارڈ کیا گیا ہے۔ پنجنبد دریا پر 82 ہزار 899 کیوسکس رکارڈ کیا گیا۔ اپر سے شدید بارشیں اور سیلاب سے تباہ کاریاں ہو رہی ہیں وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ مگر افسوس کہ متاثرین کی کوئی مدد نہیں ہو رہی۔ سکھر میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سکھر بیراج کا دورہ کیا اور ساتھ میں وہ بارش متاثر علاقوں نوشہرہ فیروز، خیرپور اور لاڑکانہ پہنچے تو بارش متاثرین نے ان کی ہر جگہ پر گاڑی روک کر احتجاج ریکارڈ کرایا اور لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا اور سامان ریلیف نہ کرنے پر شدید نعرے بازی کی گئی۔

سندھ اور بلوچستان میں اس وقت 1000 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ہیں اور ہزاروں افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ خیرپور کے علاقے احمد پور میں ٹینٹ سٹی قائم نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے مسجد میں پناہ لے لی۔ اور یوں مسجد شہید ہونے کی وجہ سے 8 افراد شہید ہو گئے اور دو درجن سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔ سکھر کے علاقے کندھرا میں ایک ہی خاندان کے چار بچوں سمیت دیگر گھر گرنے کی وجہ سے 8 افراد جاں بحق ہو گئے۔ سکھر ضلع میں مجموعی طور پر 30 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور خیرپور میں ایم این اے پیپلز پارٹی نفیسہ شاہ کے مطابق 50 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب کھجور کی فصل 80 فیصد تباہ ہو گئی ہے۔ سندھ میں کپاس کی فصل 100 فیصد متاثر ہوئی ہے۔ سبزیاں، فروٹ اناج بھی تباہ ہوا ہے۔ امکانی بارشوں کے حوالے سے سندھ حکومت اور بلوچستان حکومت کی جانب سے پیشگی اطلاعات کے باوجود کوئی بھی تیاری نہی کی گئی۔ لوگوں نے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے نہ تیاری کی نہ نقصان سے بچنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا۔

یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک کا دو سو روپے والا کلو 800 سے ایک ہزار روپے میں فروخت کی گئی ہے۔ جبکہ 1200 روپے والی ترپال 5000 ہزار روپے تک فروخت کی جا رہی ہے۔ حکومتی سامان کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ سندھ میں سارا سامان انتظامیہ کو دینے کے بجائے سیاسی بنیادوں پر ایم این ایز اور ایم پی ایز کو دیا گیا ہے جنہوں نے اپنے گودام بھر لئے ہیں اور من پسند افراد اور ورکرز کو دیا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو سکھر میں ڈپٹی کمشنر نے بریفنگ دی گئی جو کہ حقیقت کے برعکس تھی سکھر میں 4276 گھروں کو نقصان پہنچا ہے۔ بارشوں میں 30 افراد جاں بحق ہوئے ہیں 17 زخمیوں کی رپورٹ آئی ہے۔ 19200 لوگ متاثر ہوئے ہیں، ابھی یہ رپورٹ ابتدائی ہے۔ سکھر میں 112377 ایکڑ جو سکھر ضلع کا 84 فیصد فصل بنتا ہے بارشوں میں تباہ ہوا ہے۔ 173 دیھوں میں فصلوں کو نقصان ہوا ہے۔ کو 4300 خیمہ، 4300 مچھروں کی جالیاں، 600 کین، 1900 ترپال اور 2 بوٹس دی ہیں۔ جبکہ نقصان اس سے زیادہ ہوا ہے۔ سکھر میں سماجی کام کرنے والے مفتی محمد طاہر نے بتایا کہ نواحی علاقے کندھرا میں اپنی مدد آپ کے تحت ایک سو کے قریب افراد کو ٹینٹ خیمے اور پلاسٹک فراہم کرچکے ہیں جبکہ مسجد بیت الرحمن کو کیمپ میں تبدیل کر دیا ہے جہاں پر 250 سے زائد مرد و خواتین کو دو وقت کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور چھت فراہم کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا اپنا گھر تباہ ہو گیا ہے اور گاؤں کے آدھے گھر مسمار ہو گئے ہیں لیکن کوئی سرکاری امداد نہی فراہم کی گئی نہ پلاسٹک ملی ہے۔ سکھر میں ایک وکیل شفیق احمد نے بتایا کہ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت دوستوں سے چندہ لے کر کھانے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ سکھر کے علاقے پرانے سکھر میں کشتیاں چل رہی ہیں۔ یہاں اب بھی 3 سے چار فٹ پانی کھڑا ہے۔ مقامی صحافی جہانزیب وسیر نے بتایا کہ علاقے میں پانی مسلسل کھڑے ہونے سے لوگوں میں اسکن کی بیماریاں پھیل گئی ہیں لیکن پانی اب بھی کھڑا ہے۔

سندھ اور بلوچستان میں نہ بجلی ہے گیس ہے نہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی گئی ہے۔ لوگ بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سینکڑوں مکانات گرنے سے جہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں وہیں پر لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔ سندھ کے تمام اضلاع میں میونسپل کارپوریشن انتظامیہ، ضلع انتظامیہ۔ اور صوبائی حکومتیں اور ساتھ میں وفاقی حکومت جنتا کی مدد کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ہماری قومی میڈیا جسے انگریزی اور اردو میڈیا کہا جاتا ہے وہ بالکل سویا ہوا ہے۔

اینکرز صاحبان اور کالم نویسوں کا سب سے بڑا ایشو شہباز گل ہے۔ میڈیا اسی پر لگا ہوا ہے کہ شہباز گل کیلا کھا رہا اور جوس پی رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ دیکھا جائے تو اس وقت سندھ بلوچستان اور وسیب کی جنتا میں احساس محرومی پیدا ہو رہی ہے کہ شاید وہ پاکستان کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ وہ 18 ویں ترمیم کے بعد اتنے خودمختار ہیں کہ اپنی صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت ان کی مشکل وقت میں مدد فراہم نہی کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جمعیت علمائے اسلام سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ راشد محمود سومرو نے صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ سے شکوہ احتجاج کیا ہے کہ وہ جنتا کو ریلیف فراہم کرنے سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں وہ اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کے سندھ بھر میں مدد کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی۔ فلاحی انسانیت فاؤنڈیشن، اور دیگر مذہبی جماعتوں نے اپنے کام کی ابتدا کردی ہے۔ مگر بجٹ، فنڈز، رقم سامان مشینری سرکار کے پاس ہے۔

پاکستان کے اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف صاحب ہیں۔ 12 جماعتوں کی حکومت اور عمران خان کی ماضی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بارشوں سے لوگ مر رہے ہیں، وزیر اعظم کو سندھ اور بلوچستان آنا چاہیے تھا لیکن وہ باہر ممالک کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ یہاں مکانات تباہ ہو گئے ہیں، ۔ وزیراعظم آپ کہاں گم ہیں؟ وزیراعظم شہباز شریف صاحب سندھ لاوارث یتیم بے سہارا ہے، ہزاروں مکانات مسمار ہو گئے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار آپ کے آسرے پر ہیں۔

اب تک حالیہ بارشوں سے ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ہیں، جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہو گئے ہیں، وفاقی پاکستان ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پی ڈی ایم اے بھی پی ڈی ایم کی طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب سندھ اور بلوچستان میں لاشیں راستوں پر پڑی ہوئی ہیں۔ ، کوئی ریلیف کا کم نہی ہو رہا۔ آپ وقت کے وزیراعظم ہیں اور آپ گم ہو گئے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف صاحب جنتا میں غم و غصہ کی لہر ہے، لوگ آگ بگولہ ہو رہے ہیں، وزیر اعظم صاحب پرویز مشرف ہو یا زرداری، نواز شریف ہو یا عمران خان، یا شہباز شریف کسی میں انسانیت نہی ہے، اس مصیبت وقت میں بھی جنتا کا کوئی خیال نہیں شاید سری لنکا جیسے حالات کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ لگ رہا ہے کہ نا اہل نالائق حکمرانوں کے ہوتے ہوئے جنتا کی کوئی اہمیت نہیں شاید عوام کیڑے مکوڑے کی طرح ہیں! وزیراعظم صاحب آپ جلد از جلد واپس لوٹ آئیں آپ کا ہم سب پاکستان۔ سندھ بلوچستان کے پی اور پنجاب ڈوب رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments