خطرناک شوگر ڈیڈی


بہت بچپن میں ایک فلم دیکھی تھی جس کی ہیروئین غالباً بابرہ شریف تھیں جو امیر بڈھوں کو پھانستی، اس سے شادی کرتی، مال بٹورتی اور اگلی راہ لیتی پھر فلم میں ٹرن آیا اور شاہد کی صورت اک نقلی بڈھا مل گیا اور پھر غربت کا رونا دھونا اور شاید فلم کا ہیپی اینڈنگ تھا، بس کچھ کچھ ہی یاد ہے۔

اب زمانہ بدل گیا ہے اب مارکیٹ میں ایک نئی اصطلاح متعارف ہو چکی ہے جسے ’‘ شوگر ڈیڈی ”کہتے ہیں جس میں نہ شادی کا جھنجھٹ نہ کوئی اور بار دیگر اور موجاں ہی موجاں۔

شوگر ڈیڈی کون ہوتا ہے، ہم بتلائے دیتے ہیں اپنے قارئین کی آسانی کو، اس اندھے مادی دور میں جب ہر خواہش ضرورت کا لبادہ اوڑھ کر مارکیٹ میں بیچی جا رہی ہے تو نوخیز ذہن ہوس و لالچ کا شکار ہو کر آسانیاں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ شوگر ڈیڈی بھی ایک ایسی ہی آسانی ہے یہ ایک ایسا امیر بڈھا ہوتا ہے جو مہنگے مہنگے گفٹس، مال پیسے کے بدلے کسی جوان عورت کی قربت اور جنسی ساتھ خریدتا ہے۔ اسی طرح یقیناً مارکیٹ میں ’‘ شوگر آنٹیاں ”بھی ہوتی ہوں گی مگر فی الحال وہ موضوع بحث نہیں۔

چونکہ یہ زندگی ہے، حقیقت ہے کوئی فلم نہیں جس کا خوشگوار انجام ضروری و متوقع نہیں، یہ زندگی کا اونٹ ہے جس کی اگلی کروٹ کی کوئی خبر نہیں، سو یہ شوگر ڈیڈی شیخ دانش جیسا کمینہ اور گھٹیا صفت آدمی بھی ہو سکتا ہے جو کسی خوشگوار انجام کا متمنی نہیں ہوتا اور بدلے پہ اترتا ہے تو انسانیت کے ماتھے کا داغ بن جاتا ہے جوتے تک چٹوا دیتا ہے مگر سوچیے ایک ایسا شخص جس کے پاس اپنے پارٹنر کے پورن موجود ہوں اور جو اس کو پہلے بھی اعتراف پہ مجبور کرچکا ہو کہ پارٹنر اپنی غلطی اور اس کی اچھائی کو تسلیم کرے تو ایسے ’‘ خطرناک شوگر ڈیڈی ”سے بگاڑنے کے لیے پوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ درندوں کی دنیا کے تو اصول ہوتے ہیں مگر انسانوں کی یہ دنیا ہر اصول سے ماورا ہو چکی ہے۔

چلیے مان لیا آپ اخلاقیات، سماج، روایت، کلچر، مذہب کسی دائرے کو خاطر میں نہیں لاتے اور کچھ نعرے بلند کرتے ہیں جیسے میری زندگی میری مرضی، میرے اپنے اصول اور میرا اپنا شوگر ڈیڈی تو ایسے میں ہم نئی پود کی ان لڑکیوں کو کیا نیک و بد سمجھائیں سوائے اس کے کہ شوگر ڈیڈی بنائیے مگر ذرا دھیان سے کہ بیچ میں سے کوئی نمونہ شیخ دانش جیسا گندا بھی نکل آتا ہے۔

ویسے ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے کہ کیوں نہ شوگر ڈیڈی کی اصطلاح کو کوئی پیارا سا قانونی نام دے دیا جائے اور اس کے کچھ اصول و ضوابط بھی طے کر دیے جائیں جس میں ہیپی اینڈنگ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے مگر کیا کیجیے کہ اس کی صورت بھی پھر کچھ کنٹریکٹ میرج جیسی ہو جائے گی۔

پھر میں سوچنے لگتی ہوں کہ جب پندرہ، اٹھارہ یا انیس برس کی لڑکی کی شادی کسی امیر بڈھے سے ہوتی ہے تو مجھے تکلیف کیوں ہوتی ہے، حقوق نسواں کیوں یاد آتے ہیں کہ اس صورت میں تو عورت کو بیوہ ہونے کی صورت میں جائیداد میں شرعی حصہ ملتا ہے جبکہ شوگر ڈیڈی کو صرف قیمتی تحائف اور عیش و عشرت کے چند دن مہیا کرنا ہوتے ہیں، ہاں ہمارے معاشرے میں اس کے بدلے میں جو رسوائی لڑکی کے دامن میں گرتی ہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں۔ قانون اور اخلاقی قدروں کے مجرم دونوں فریق ہیں مگر کون کس پستی میں مقیم ہے میرے لیے تو فیصلہ کرنا مشکل ہے آپ ہی بتائیے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments