دہشت گردی اور ناخواندگی کے خلاف جنگ میں پاک افواج کا کردار


محدود وسائل، قلیل بجٹ کے ساتھ ملک میں پھیلے دہشتگردی کے ناسور پر جس جوان مردی سے افواج پاکستان نے قابو کیا ہے، اس کی نظیر کسی اور ملک کی فوج کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے، پاکستانیوں کو اس بات پر فخر ہے کیونکہ ان کے محافظوں نے نہ صرف پاکستان دشمنوں کو دھول چٹائی ہے بلکہ اپنی محنت سے پاکستان کے وقار کو سر بلند کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے، پاکستان ہمارا گھر ہے، اس کے جانب اٹھنے والی غلیظ آنکھوں کو نکالنا جانتے ہیں۔

پاک فوج ملک کے دفاع ہی نہیں بلکہ انتظامی نظام کی مضبوطی کے لئے بھی بہترین اور موثر کردار ادا کر رہی ہے، اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کی تینوں مسلح افواج ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے بعد ناخواندگی کے اندھیروں کو مٹانے کے لئے کوشاں ہیں، افواج پاکستان ملک کے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے بھی کمربستہ ہیں، پاک فوج نے ملک کے دور دراز علاقوں جیسے گلگت بلتستان، چترال اور آزاد کشمیر میں سی سڑکوں، تعلیمی سہولیات، واٹر سپلائی سکیموں اور طبی سہولیات کی تعمیر اور فری میڈیکل کیمپس کے قیام کے ذریعے مثبت کردار ادا کیا۔

پاکستان کے سمندر کے محافظ یعنی پاک نیوی

کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں پاکستان بحریہ کے 14 کیمپس ہیں، جس میں 33,770 طالب علم زیر تعلیم ہیں، ان میں سے 49 % کا تعلق غیر فوجی گھرانوں سے ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ نیلے سمندر کے محافظ یہ سفید وردی والے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر سالانہ 30 ملین روپے کے وظائف فراہم کر رہے ہیں۔ وطن کی پاک فضاؤں کے نگہبان پاکستان فضائیہ جس کی چائے کا دشمن بہت متوالا ہے، ان ہوائی جانبازوں نے ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے کالجز قائم کیے۔

فضائیہ کالجز کے پورے پاکستان میں 26 ادارے ہیں، جو 62,000 طلباء کو اعلی سطح تک کی تعلیم فراہم کر رہے ہیں، جن میں سے 25 % غیر فوجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ؛ شاندار طلباء کے وظائف 37 ملین روپے اور ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کے لیے 3.7 ملین روپے کے نقد انعامات پاکستان ائر فورس طالب علموں کی حوصلہ افزائی پر صرف کرتی ہے،

وطن کی خاک پر جان قربان کرنے والے میرے وطن کے خاکی وردی والے پاکستان آرمی کے خوبرو جوانوں نے

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے مختلف علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے محکمہ تعلیم و سول انتظامیہ کی جانب سے تعلیمی جرگوں کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں کمانڈر ایف سی این اے چیف سیکرٹری جی بی، آئی جی پولیس، علما کرام، عمائدین علاقہ، سول و عسکری حکام کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر دو سکولز کی از سر نو تعمیر کے علاوہ الیکٹرانک لرننگ فسیلیٹی کا بھی افتتاح کیا گیا۔ مقررین نے تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے علاقے میں سکولوں کی از سر نو تعمیر اور الیکٹرک لرننگ سنٹر کے قیام کو علاقے کے طلبا کے لئے تعلیمی میدان میں ایک اہم قدم قرار دیا کمانڈر ایف سی این اے نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاک فوج سول انتظامیہ جی بی کے ساتھ مل کر علاقے کو تعلیمی میدان میں آگے لانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہے گی۔

بعد ازاں گماری کے مقام پر فورس کمانڈر نے دیامیر کے علماء کرام کے ساتھ خصوصی نشست کی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاک فوج کا تعلیم کے شعبے کو فروغ دینے میں اہم کردار رہا ہے۔ تعلیم کسی بھی شعبے کی ہو اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اسی لیے ہر کامیاب معاشرے میں بنیادی تعلیمی نصاب اور نظام اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ طالب علم کو ابتدائی جماعتوں میں ہی یہ سبق مل جاتا ہے کہ معاشرے کا مفید شہری کس طرح بنا جاسکتا ہے اور معاشرے میں میل جول کے دوران رنگ، نسل، زبان اور جنس کی بنیاد پر تفریق نامناسب عمل ہے، اس حقیقت سے کون آشنا نہیں ہے کہ پاکستان آرمی نے صوبہ بلوچستان میں تعلیم کو عام کرنے میں معاون کردار ادا کیا ہے، کوئٹہ سمیت صوبے کے دوسرے بڑے شہروں جیسے خضدار، لورالائی، چمن اور ژوب میں بھی پاکستان آرمی نے تعلیمی اداروں کا قیام کیا۔

ان سکولوں میں 12171 طلبا پڑھ رہے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایف جی پبلک سکولز بھی کافی عرصے سے بلوچستان میں تعلیمی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ کوئٹہ کے علاوہ خضدار، سبی، لورالائی، چمن اور ژوب میں کھولے گئے۔ ایف جی سکولز اور کالجز میں اس وقت صوبہ بلوچستان کے 3432 طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صوبہ کے بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ایف سی بلوچستان کے زیر نگرانی 82 سکول و کالج قائم ہیں جن میں 21068 طلبا پڑھ رہے ہیں جو آگے جاکر پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

چمالانگ ایجوکیشن پروگرام 2007 میں شروع کیا گیا جس میں 303 بچے شامل ہوئے۔ کمانڈر سدرن کمانڈ کی ذاتی دلچسپی سے یہ پروگرام بلوچستان کے دیگر 23 اضلاع تک پھیلا دیا گیا ہے۔ پاک آرمی کی بدولت اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں کے مختلف سکولوں میں بہت سے بلوچ طلبا فری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی پاک آرمی کے تحت بہت سے ایجوکیشن پروگرام چل رہے ہیں جس میں بلوچستان کے طالب علم بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور ان شاء اللہ یہ طالب علم پاکستان کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

کے پی کے اور وزیرستان میں بھی پاک فوج کے زیر انتظام بہت سے سکول چل رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کہہ چکے ہیں کہ گلگت بلتستان حکومت پاک فوج کے ساتھ مل کر تعلیم کے شعبے میں انقلابی اقدامات اٹھا رہی ہے، دیامر میں تعلیم کا فروغ اولین ترجیح ہے۔ یامر میں تعلیمی جرگوں کا تسلسل جاری رکھنا وقت کی اہم ضرورت تھی جیسے پاک فوج نے جاری رکھا۔ پاک فوج نے روایتی لفظ جرگہ کو تعلیم کے ساتھ جوڑ کر یہاں کے دو سو سے زائد بچوں کو ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں داخل کر اکر انہیں اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ آنے والے دس سال بعد دیامر فخر کرے گا اور وہ بچے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کو لیڈ کریں گے۔

گلگت بلتستان کو ہر حکومت، ہر حکمران اور ہر ادارے نے اپنے مخصوص انداز میں علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے قابل تحسین کردار ادا کیا ہے لیکن اگر ان دشوار گزار، پہاڑی اور دفاعی نوعیت کے حساس ترین علاقوں میں پاک فوج اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ نہ ڈالتی تو آج گلگت بلتستان کا یہ نقشہ کچھ اور ہوتا۔ زلزلے سے پیش آنے والے حادثات ہوں یا سیلاب کی تباہ کاریاں، ٹریفک حادثات ہوں سڑک اور پلوں کی فوری تعمیر ہو، فوج کا کردار نمایاں ہے۔

جب گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ 80 کے عشرے میں ٹیلی فون کا نظام قائم کیا جا رہا تھا تب بھی پاک آرمی کے شعبہ سگنل کے افسرز اور جوان ان دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کام کر رہے تھے اور لائنیں نصب کرتے ہوئے درجنوں جوان شہید ہو گئے اور آج تک ایس سی او ہی ٹیلی فون کا نظام کامیابی سے چلا رہی ہے۔ 1980 کے عشرے میں ہی پاک فوج کے انجینئرز ایف ڈبلیو او نے گلگت سے سکردو تک شاہراہ قراقرم تعمیر کی اور اس سٹرک کی تعمیر کے دوران افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن بلتستان کے عوام کے لئے ایک عظیم تحفہ دیا اور پہلی مرتبہ ستمبر 1980 میں سکردو میں بسوں کی آمد و درفت شروع ہوئی اور ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

1989 کے دوران ہی سکردو سے گونگما تک سڑک بھی ایف ڈبلیو اے نے برق رفتاری سے تعمیر کی اور یہ سڑک ایف ڈبلیو او کے جوانوں کی تعمیر کردہ ایک عظیم شاہکار ہے۔ پاک فوج نے ذمہ دارانہ، مثالی اور عوام دوستانہ کارنامے انجام دیے جو قوم کبھی فراموش نہیں کر سکتی ہے۔ پاک فوج نے 1948 میں آزادی کے بعد سکردو اور گلگت ہسپتالوں کا نظام بھی سنبھالا جو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے 2010 میں سویلین اداروں سے فوجی افسروں کو واپس بلانے کے فیصلے تک جاری رہا اور یہ نظام انتہائی موثر اور نظم و ضبط کے لحاظ سے انتہائی قابل تحسین تھا۔

2010 کے بعد جب ایم ایس آرمی سرجن آرمی اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کو ہسپتالوں سے واپس بلا لیا گیا، تب سے ہسپتالوں میں نظم و ضبط ختم ہو چکا ہے۔ آرمی کی جانب سے آنے والی ادویات کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔ صفائی کا وہ نظام جو ایک ڈی ایچ کیو کے شایان شان ہوتا ہے ختم ہو چکا ہے۔ تاہم پاک آرمی کے ہسپتالوں میں اب بھی سویلین مریضوں کا علاج معالجہ مفت ہوا کرتا۔ پاک آرمی کی جانب سے لگائے جانے والے فری میڈیکل کیمپس الگ سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔

پاک آرمی نے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں نہ صرف اپنی نگرانی میں آرمی پبلک اسکولز قائم کر رکھے ہیں جہاں معیاری اور جدید تعلیم دی جاتی ہے، ان میں آرمی پبلک سکول جٹیال گلگت، آرمی پبلک سکول دیامر، آرمی پبلک اسکول اسکردو اور آرمی پبلک سکول خپلو شامل ہیں۔ کیڈٹ کالج سکردو اور پبلک سکول اینڈ کالج سکردو کا اگر نام ہے تو صرف حاضر سروس آرمی افسرز کی سربراہی کی وجہ سے ہے اور ان تعلیمی اداروں کا نہ صرف گلگت بلتستان میں بلکہ پورے ملک میں بڑا نام ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاک فوج جس کام کے کرنے کا بیڑا اٹھا لے اسے پوری توجہ ’جانفشانی اور محنت سے کیا جاتا ہے‘ ڈسپلن کو برقرار رکھا جاتا ہے اور اپنے منصوبوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے کسی سمجھوتے سے کام نہیں لیا جاتا یہی وجہ ہے کہ پاک فوج کے اقدامات نتیجہ خیز واقع ہوتے ہیں، صوبہ خیبر پختونخوا کی بات کریں تو پاکستان آرمی کے زیر انتظام لگ بھگ ہر ضلع میں تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ ان کی تفصیل خاصی طویل ہے البتہ اگر ماضی کے قبائلی اور حال کے ضم شدہ اضلاع کی بات کی جائے تو کئی دلچسپ اعداد و شمار سامنے آتے ہیں جن سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاک فوج اس خطے میں تعلیم کی ترقی و فروغ اور شرح خواندگی میں اضافے کے لئے کس قدر شاندار خدمات انجام دے رہی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ان چند علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں کے اعداد و شمار سامنے لانے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ نجی سکولوں اور کالجوں کے مقابلے میں یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بہت کم فیسیں ادا کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طلباء کی بڑی تعداد ان تعلیمی اداروں سے مستفید ہوتی ہے۔ ضم شدہ قبائلی علاقوں میں دو اضلاع شمالی وزیر ستان اور جنوبی وزیرستان میں جہاں پاک فوج نے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے بعد قابل ذکر ترقیاتی کام کیے ، وہیں معیاری تعلیم کے فروغ کے لئے بھی نمایاں اقدامات کیے ۔

شمالی وزیرستان میں مجموعی طور پر چھ تعلیمی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 1992 ء میں یہاں فرنٹیئر کور پبلک سکول رزمک قائم کیا گیا جس میں اس وقت 642 طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں گویا یہ امر بھی نمایاں ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں زیادہ تر کو ایجوکیشن ہے جہاں طلباء و طالبات اکٹھے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 2001ئی میں میران شاہ میں فرنٹیئر کور پبلک سکول قائم کیا گیا جس میں اس وقت 523 طلباء زیر تعلیم ہیں۔ اس علاقے میں طالبات کے لئے ایک الگ سکول کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی جس کے پیش نظر جنوری 2016 ء میں نہ صرف طالبات کے لئے الگ سکول کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا بلکہ طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ایک اور سکول کی سہولت فراہم کر دی گئی۔

پاک فوج نے یہ سکول گولڈن ایرو آرمی پبلک سکول کے نام سے قائم کیے ۔ 2017 ء میں گولڈن ایرو پبلک سکول رزمک میں قائم کیا گیا جس میں 850 طلباء زیر تعلیم ہیں۔ یہ امر بھی لائق ستائش قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس علاقے میں سب سے زیادہ طلباء گولڈن ایرو میران شاہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی تعداد ایک ہزار 123 ہے۔ یوں پاک فوج نے 1992 ء کے بعد شمالی وزیرستان میں چھ سکول تعمیر کیے ۔ اب اگر جنوبی وزیرستان کی بات کی جائے تو 1962 ء کے بعد اب تک یہاں مختلف مقامات پر اور اس کے علاوہ ڈیرہ اسماعیل خان بھی شامل ہے، 18 تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔

ان تعلیمی اداروں میں سات ہزار 148 طلباء و طالبات خود کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے ہیں۔ صرف تعداد کا تذکرہ ہی لازم نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انہیں معیاری تعلیم دی جا رہی ہے تو یہ قطعی غلط نہیں ہو گا۔ ماہر اساتذہ کی زیر نگرانی یہ طلباء مستقبل میں ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کامیابیاں حاصل کرنے کے جذبہ سے سرشار حصول تعلیم میں مصروف ہیں۔ ماضی کی قبائلی ایجنسی اور آج کل کے ضلع جنوبی وزیرستان میں سب سے پہلے 1962 ء میں وانا میں طلباء کے لئے فرنٹیئر کور پبلک سکول قائم کیا گیا۔

یہ ایک کیمپ سکول تھا۔ اسی طرح 1964 ء میں ایف جی پبلک سکول نیو کینٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں قائم کیا گیا۔ 1989 ء میں ڈیرہ ہی میں آرمی پبلک سکول اینڈ کالج جبکہ 1993 ء میں یہاں پاسبان آرمی پبلک سکول قائم ہوا۔ آج کل صرف ڈیرہ اسماعیل خان کے تین انسٹی ٹیوشنز میں لگ بھگ 2 ہزار 900 طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں بھی تعلیمی ادارے قائم کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔

ان میں آرمی پبلک سکول کانی گرام، ماڈل پبلک سکول چغملائی، آرمی پبلک سکول شیر نواز شہید ساراروغہ، آرمی پبلک سکول شکئی تیارزا، خم رنگ پبلک سکول، راغزئی پبلک سکول، سپن ماڈل پبلک سکول توئی خولہ، آرمی ماڈل پبلک سکول اعظم وارسک، تانائی فرنٹیئر کور پبلک سکول، فرنٹیئر کور پبلک سکول جنڈولہ اور ایجوکیشن کمپلیکس خان کوٹ شامل ہیں۔ اللہ کے بے شمار فضل سے افواج پاکستان نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھنکنے کے بعد ناخواندگی کو مٹانے کی جنگ کو بھی کامیابی سے اپنے نام کیا ہے، تو پھر کیوں نہ کہا جائے، پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments