سیلاب کی آفت اور اکیسویں صدی میں ہمارے بہانے


آج واٹس ایپ پر ایک جاننے والی نے شیئر کیا تھا کہ آیت اللہ سیستانی نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لئے امام کے سہم سے دو تہائی حصہ دینے کا فرمان جاری کیا۔ جسے ہر فرد انفرادی طور پر پورا کر سکتا ہے۔

اس سے تین دن پہلے ایک بیٹھک میں ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ امریکی صدر نے اتنے پیسے آئی۔ ایم۔ ایف کی گرانٹ کے علاوہ سیلاب زدگان کے لئے عطیہ کیے ہیں۔

آج دوپہر ایک اشتہار بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا جو کہ جناب وزیراعظم پاکستان کی طرف سے ان آفت زدوں کے لئے خیرات کی تقسیم کے حوالے سے تھا۔ جس میں مرنے والوں کے خاندانوں کو دس لاکھ، لٹے پٹے لوگوں کو گھر بنانے کے لئے پانچ لاکھ فی کس دینے کی نوید تھی۔ کل سینتیس ارب کا تخمینہ ہے اور علاوہ ازیں پانچ ارب نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو دینے کا اعلان بھی شامل ہے۔ ضرور آپ کی نظر سے بھی یہ سب کچھ گزر رہا ہو گا۔

اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی بھی سنئے۔ روزانہ کی بنیاد پر صورتحال پر خبردار کرنے کے لئے رپورٹس چھپ رہی ہیں۔ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ صوبائی اتھارٹیز کو جگایا جا رہا ہے۔ باقی کوآرڈینیشنز کو فعال کیا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی رفاہی اداروں کو چھ ماہ کے لئے ٹیکس سے چھٹی دی جا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی آنے کو تیار نہیں۔ اور ملکی این۔ جی۔ اوز، بارسوخ لوگوں کے گروپس، اہل دل کی کے اجتماع، پر خلوص لوگوں کی کوششیں سب ریلیف کی حصہ داری میں لگے ہیں۔

اوپر سے خاندان کے ایک بزرگ سے بات ہو رہی تھی۔ موسم کا پوچھنے لگے۔ میرے بتانے پر کہ ایک ماہ سے تقریباً روز بارشیں ہو رہی ہیں۔ کبھی کم کبھی زیادہ۔ جس پر وہ کہتے ہیں۔ ہاں ادھر بھی یہی کچھ ہے۔ بس بیٹے دعا کیا کرو۔ اللہ اپنا رحم کریں۔ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ جس پر میں نے ہنس کے کہہ دیا کہ اللہ کو بھی بس پاکستان ہی عذاب کے لئے نظر آتا ہے۔

ویسے کتنی حیرانی کی بات ہے کہ ہمارے بچپن کی یادوں میں سیلاب کے دنوں کے یہی مناظر نقش ہیں۔ جو اس وقت پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہو رہے ہوتے تھے یہی باتیں خود کو بہلانے کے لئے لوگ کرتے تھے۔ ایسے ہی حکومتی اہلکاروں کی پیسوں کی صورت میں پسماندگان کی مدد کرنا۔ دوسروں ملکوں کی حکومتوں کی طرف امداد کا منتظر رہنا اور گزارش کرنا۔ تباہی ہونے کے بعد ساتھ کھڑے ہونے کے اعلانات کرنا اور آفت کے آنے سے پہلے سوئے رہنا۔ آبی گزر گاہوں کے کنارے عمارتوں کا بننا۔ انسانوں، جانوروں اور املاک کی کسمپرسی اور تباہ حالی۔ یعنی کچھ بھی نہیں بدلا۔ نہ پانیوں کی سر کشی، نہ عوام کی بے بسی اور کم علمی، نہ حکومتی چلن، نہ اداروں کی بے خبری اور بد انتظامی۔

چلیں کرونا جیسی وبائیں تو ناگہانی ہیں۔ یک دم پھوٹتی ہیں اور ساری دنیا کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ جس کے سامنے ترقی یافتہ ممالک کو بھی بے بسی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن وہ پھر بھی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔ تاکہ پہلی دفعہ لا علمی میں جو مالی و جانی نقصان ہوا۔ وہ دوسری بار نہ ہو۔ لیکن کیا اکیسویں صدی میں بھی جب دنیا دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کر رہی ہے۔ انسانی دماغ کو کنٹرول کرنے کے لئے آلے اس کے اندر فٹ ہو رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی کے استعمال سے جنس بدلی جا رہی ہیں۔ اولاد کے پیدا کرنے کے لیے سروگیسی، آئی۔ وی۔ ایف اور پتہ نہیں کیا کچھ دریافت ہو چکا ہے۔ وہاں ہمارے ہاں اب بھی سیلاب کی پیشن گوئی نہیں ہو سکتی۔ بدلتے موسمی تناظر میں تیاری نہیں ہو سکتی۔ صدیوں سے چلتے دریاؤں، موسمی ندی نالوں، کی طغیانی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ارلی وارننگز کا نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ خطرے کو جاننے کے بعد انخلاء کا بندوبست نہیں ہو سکتا۔ آبادیوں کو سکھایا اور پڑھایا نہیں جا سکتا کہ آپ دریا کی پہنچ میں، اردگرد یا راستے میں ہیں، اس لئے ایسی خود انحصاری آپ کے لئے ضروری ہے۔ ریلیف پر اربوں لگانے کے وعدے کر سکتے ہیں لیکن اس سے کم قیمت میں پہلے کرنے والے کام نہیں کر سکتے۔

کیا سیلاب بھی ہمارے لئے پچھتر سالوں میں پولیو بن گیا ہے؟ جس پر قابو پانے میں پوری دنیا کامیاب ہو چکی سوائے افغانستان اور ہمارے۔ ورنہ ڈائمنڈ جوبلی منانے والوں کو ڈوب کر مر جانا چاہیے کہ ہم اتنے نا اہل ہیں کہ ہر سال آنے والی اربن فلڈنگ اور سیلاب سے بچاؤ اور دوبارہ آباد کاریوں کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نہ مال ہے۔ نہ انفراسٹرکچر۔ نہ فکر۔ نہ خیرات لینے پر شرمندگی۔ نہ سر اٹھا کر جینے کی تمنا اور نیت۔

ورنہ سیلاب آنے سے پہلے وزیراعظم صاحب اور باقی انتظامیہ نے سوچنا ہوتا اور فنڈز خرچ کرنے ہوتے تو پورا سال کام کر سکتے تھے۔

ڈیزاسٹر اتھارٹیز کے پاس ہر طرح کے منصوبے تیار ہوتے اور پانی کی سرکشی سے پہلے ان پر عمل شروع ہو چکا ہوتا۔

شہری منصوبہ بندی کے ادارے جو سارا سال چپ کا روزہ رکھے، خاموش تماشائی بنے۔ جو جدھر بن رہا ہے۔ بنتے دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ دریا کنارے سارے انفراسٹرکچر کو روک سکتے تھے۔ یا کم از کم تعمیری کوالٹی کو مانیٹر کر سکتے تھے۔

اور سب سے بڑھ کر عوام سے گلہ ہے کہ یہ جو ٹی۔ وی اور میڈیا کی حد تک آپ کو خیرات دیے جانے کے وعدے ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ تو آپ مختلف ٹیکسوں کے نام پر حکومت کو دے چکے ہوتے ہیں۔ اس لئے بنیادی سہولیات آپ کا حق ہیں۔ جنہیں عزت سے وصول کرنا سیکھیں۔ اور ایک بریانی کی پلیٹ اور قورمے کی دو بوٹیوں پر اپنا ووٹ نہ بیچیں۔

اور اس خوش فہمی اور طفل تسلی سے بھی باہر نکل آئیں کہ ہر آنے والی تکلیف اللہ کا عذاب ہے۔ کیا پوری دنیا میں مسلمان اور تھرڈ ورلڈ ممالک ہی اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں۔

آنکھیں کھولیں۔ غیرت کھائیں اور اپنے لئے خود کچھ کریں۔ قدرتی آفات کے حل کا یہ فقیرانہ ماڈل جو ہم نے اتنے سالوں میں سیٹ کر لیا۔ اس سے اب اور دودھ یا مکھن نہیں نکلنے والا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments