کیا روز مرہ زندگی میں شور واقعی آپ کے دل کی صحت کو متاثر کر سکتا ہے؟


ہوائی جہاز
سنہ 2011 میں جرمنی کے مصروف ترین فرینکفرٹ ائیرپورٹ کے چوتھے رن وے کا افتتاح کیا گیا۔ اس نئے رن وے کے خلاف کافی بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے جو سالوں تک جاری رہے۔

افتتاح کے ایک سال بعد مظاہرین میں سے ایک نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’یہ رن وے میری زندگی تباہ کر رہا ہے۔ جب بھی میں اپنے گھر کے باغ میں جاتا ہوں وہاں مسلسل جہازوں کا شور ہوتا ہے اور اوپر دیکھوں تو جہاز نظر آتے ہیں۔‘

اس نئے رن وے کی وجہ سے ہی درجنوں ہوائی جہاز ٹامس منزل کے گھر کے ٹھیک اوپر سے گزرتے ہیں۔ ٹامس منزل یونیورسٹی میڈیکل سینٹر آف مینز میں دل کے امراض کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میں اس سے پہلے موٹر وے اور اندرون شہر کے ٹرین ٹریکس کے قریب بھی رہ چکا ہوں مگر ہوائی جہاز کا شور سب سے پریشان کن ہے۔‘

منزل نے عالمی ادارہ صحت کی طرف سے سنہ 2009 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ پڑھی تھی جس کے مطابق شور کا تعلق دل کے امراض سے ہو سکتا ہے، لیکن اس وقت اس بارے میں ناکافی شواہد موجود تھے۔

سنہ 2011 میں وہ خود اپنی صحت کے بارے میں بھی فکر مند تھے جس وجہ سے انھوں نے اس بارے میں تحقیق پر توجہ دینا شروع کی۔

شدید شور کو کافی عرصے سے بہرے پن کی ایک وجہ کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ تاہم ہوائی جہازوں اور گاڑیوں کا شور صرف سننے کی ہی صلاحیت پر منفی اثر نہیں ڈالتا۔

ماہرین کے مطابق ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی کے بعد انسانی جسم پر سب سے زیادہ دباؤ ڈالتا ہے۔ یعنی یہ آپ کی صحت کے لیے بلواسطہ تمباکو نوشی اور ڑیڈان جیسی تابکار گیس سے زیادہ مضر ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں ہونے والی تحقیق کے مطابق ہوائی جہازوں اور سڑک پر چلنے والے ٹریفک کے شور اور متعدد دل کے امراض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ہے۔ اب سائنس دان اس کے پیچھے کارفرما وجوہات کی بھی نشاندہی کرنے لگے ہیں۔

اندازوں کے مطابق یورپ کی تقریباً ایک تہائی آبادی کو باقاعدگی سے شدید اور صحت کے لیے مضر سطح کے شور کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عام طور پر 70 سے 80 ڈیسیبلز، اس شور کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک عام گفتگو کی سطح عموما 60 ڈیسیبلز ہوتی ہے، گاڑیوں اور ٹرکس کا شور 70 سے 90 کے درمیان ہوتا ہے اور ہوائی جہاز 120 ڈیسیبلز یا اس سے بھی زیادہ۔

واضح رہے ڈیسیبلز آواز کی شدت کو ماپنے کا پیمانہ ہے۔

متعدد تحقیقوں نے مسلسل اس سطح کے ماحولیاتی شور اور دل کے امراض کے خطرے میں اضافے کے تعلق کی نشاندہی کی ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 2018 میں دس لاکھ سے زیادہ افراد کی صحت سے متعلق ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فرینکفرٹ ائیرپورٹ کے قریب رہنے والے افراد کو، اسی طرح کے دوسرے مگر کم شور والے محلوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں سٹروک ہونے کا سات فیصد زیادہ خطرہ ہے۔

یورپی ہارٹ جرنل میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2000 اور 2015 کے درمیان دل کے امراض کی وجہ سے ہونے والی اموات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سوٹزرلینڈ کے زیورخ ائیرپورٹ کے آس پاس رات کے وقت ہوائی جہاز کے گزرنے کے بعد پیش آنے والی اموات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر خواتین میں۔

محقق شور کی وجہ سے انسانی جسم پر پڑنے والے اس دباؤ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی وجہ سے دل کے امراض میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ شریانوں اور خون کی رگوں کی اندرونی پرت میں، جسے اینڈو تھیلئیم کہا جاتا ہے، آنے والی ڈرامائی تبدیلیاں ہے۔

اس پرت میں سوجن کے ممکنہ طور پر خطرناک نتائج ہو سکتےہیں۔

شور سے خون کی رگوں تک کی راہ کچھ یوں گزرتی ہے: جب کوئی آواز دماغ تک پہنچتی ہے تو اس سے دماغ کے دو اہم حصے متحرک ہو جاتے ہیں۔ آڈِٹری کورٹیکس جو اس شور کی تشریح کرتا ہے، اور امیگڈالا، جو اس شور پر ہمارے احساسات اور ردعمل کو مینیج کرتا ہے۔

جیسے جیسے شور کی شدت بڑھتی جاتی ہے، خاص طور پر جب ہم سو رہے ہوں، امیگڈالا ہمارے جسم کے ’فائیٹ آر فلائیٹ‘ (یعنی خطرے کا مقابلہ کرنا یا اس سے بھاگنا) ردعمل کو متحرک کرتا ہے، بھلے ہی ہمیں اس کا اندازہ بھی نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیے

’پہاڑوں کے باسی شہری ترقی کی قیمت مہلک بیماریوں سے دیتے ہیں‘

جہاں فضائی آلودگی وہاں جرائم زیادہ

اگر تمام سڑکیں زیرِ زمین چلی جائیں تو کیا ہو گا؟

روشنی اور شور سے چڑیوں کے گانے ماند پڑ گئے

ایک دفعہ دباؤ یا تناؤ کے جواب میں پیدا ہونے والا یہ ردعمل شروع ہو جائے تو پھر جسم میں ایڈرینیلن اور کورٹیسول جیسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں۔ کچھ شریانیں سکڑ جاتی ہیں تو کچھ پھیل جاتی ہیں، خون کا دباؤ یا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے، ہاضمہ سست ہو جاتا ہے، اور ساتھ ہی خون میں شکر اور چکنائی کی مقدار کافی بڑھ جاتی ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان کا فوری استعمال ممکن ہو۔

جسم کے اس ردعمل کے نتیجے میں مضر مولیکیولز بھی پیدا ہوتے ہیں جو خون کی رگوں کی اندرونی پرت میں سوجن پیدا کرتے ہیں۔ اس سے خون کا بہاؤ متاثر ہوتا ہے، اور ایسے متعدد جسمانی عمل متاثر ہوتے ہیں جن کا دل کے امراض سے براہ راست تعلق ہے، جیسے کہ ہائی بلڈ پریشر، شریانوں میں پلاک کا جمنا، موٹاپا اور ذیابیطس۔

انسانوں اور چوہوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ صرف کچھ دن تک رات کے وقت ہوائی جہاز کا مسلسل شور سننے کے بعد انڈو تھیلئیم ٹھیک سے کام نہیں کرتی۔ اس سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ شدید شور صرف ان لوگوں کے لیے ہی خطرناک نہیں جنھیں پہلے سے دل کے امراض کی شکایت ہے۔

سنہ 2019 میں ٹامس منزل اور ان کے ساتھ کام کرنے والے سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق اگر بالغ صحت مند افراد کو سوتے ہوئے ٹرین کا شور سنایا جائے تو فوری طور پر ان کی خون کی رگوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔

مغربی یورپ میں ٹریفک کے شور کی وجہ سے مجموعی طور پر صحت مند زندگی کے 1.6 ملین برسوں کا نقصان ہو رہا ہے

منزل کہتے ہیں، ’ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نوجوان افراد کا انڈو لیتھئیم صرف ایک رات اس طرح کا شور سننے کے بعد ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔ ہم نے ہمیشہ یہ سوچا تھا کہ ایسے کئی سال بعد ہوتا ہے۔‘

اعداد و شمار میں اضافہ تو ہو رہا ہے لیکن وجہ اور اثرات کا معمہ سلجھانا آسان نہیں۔ نیند پر دیرپا تجربات کرنا بھی آسان نہیں، اور نہ ہی دن اور رات کے وقت ہونے والے شور کے اثرات میں فرق کرنا آسان ہے۔ ساتھ ہی صرف شور کے اثرات اور پھر شور اور فضائی آلودگی کے مشترکہ اثرات کو بھی الگ کر پانا مشکل ہے۔

کنگز کالج لندن کے سائنسدان ایندرئیاس زائیریکِس کہتے ہیں کہ ماحولیاتی شور کے اثرات کا تدارک آواز کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت والے یونٹس کا مطالعہ کرتے ہیں جہاں فون کی گھنٹی، برتن کے گرنے کی آواز سے کچھ مریضوں کو تو سکون ملتا ہے لیکن کچھ کی صحتیابی پر منفی اثر پڑ جاتے ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ڈیسیبلز کی سطح اور شور کے تاثر کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

اس بارے میں ابھی بہت سوال باقی ہیں لیکن اس کے باوجود اب شدید شور اور خراب ہوتی صحت کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ سنہ 2018 میں شائع ہونے والی عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی یورپ میں ٹریفک کے شور کی وجہ سے مجموعی طور پر صحت مند زندگی کے 1.6 ملین سالوں کا نقصان ہو رہا ہے۔

سنہ 2018 میں 55 فیصد افراد شہروں میں رہتے تھے، اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سنہ 2050 یہ تعداد 70 فیصد تک پہنچ جائے گی۔

کچھ حکومتوں نے عوامی احتجاج کے بعد رات کی وقت فلائٹس پر پابندی، خاموش ٹیکنالوجیز کو ترجیح اور شور سے متعلق شکایات پر جرمانے عائد کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔

انفرادی طور پر بیڈرومز میں خاموشی کو یقینی بنانے کے لیے نئی کھڑکیاں لگانا، شور کم کرنے والے پردوں کا استعمال کرنا، یا پھر جہاں ممکن ہو سکے تو ایسے علاقوں میں رہنا ہی نہیں جہاں شور کا مسئلہ ہے۔۔ اس طرح کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف پنسلوینیا میں کام کرنے والے ذہنی امراض کے ماہر میتھیاس بیسنر کے مطابق سستے میں کچھ کرنا ہو تو رات کو کانوں میں ائیر پلگس لگا کر سوئیں یا پھر گھر کے نسبتاً خاموش حصے میں سونے کی کوشش کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا تب بھی کیا جانا چاہیے اگر آپ کو شور کی وجہ سے زیادہ الجھن نہ ہو رہی ہو۔

وہ کہتے ہیں، ’اگر آپ مین ہیٹن جیسے شہر میں رہتے ہیں تو شاید آپ نوٹس ہی نہ کریں کہ وہاں کتنا شور ہے، کیونکہ وہ معمول کی بات ہو جاتی ہے۔ آپ کے ذہن میں بھلے ہی یہ معمول کی بات بن جائے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا آپ کے جسم پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔‘

یہ مضمون پہلی بار نو ایبل میگزین نامی جریدے میں شائع ہوا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments