بجلی کے ہوش ربا بل


صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں نے سوچا۔ کہ کیوں نہ نیٹ پر بجلی کا بل ہی چیک کرلوں۔ سرکاری ملازم ہو یا پنشنر، یکم تاریخ کے نزدیک آتے ہی اس کا دھیان یوٹیلٹی بلز کی طرف جاتا ہے۔ 255 یونٹ کا بل 9300 روپے دیکھتے ہی میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ لیکن دوبارہ چیک کرنے کے بعد یقین کرنا ہی پڑا۔ باہر میری مسز اور صاحب زادہ ناشتہ کر رہے تھے۔ جب میں نے انھیں بل کے بارے میں آگاہ کیا۔

تو دونوں نے ناشتے سے ہاتھ روک لیا۔ کیوں کہ بل کی رقم ان کے لیے بڑی غیر متوقع تھی۔ مئی کے مہینے کا بل 3000 روپے آیا تھا۔ جب کہ یونٹ 267 خرچ ہوئے تھے۔ میری چھوٹی سی فیملی ہے۔ گھر میں صرف دو پنکھے، فریج اور مائکرو ویو اوون چلتے ہیں۔ واشنگ مشین کافی دنوں سے خراب پڑی ہے۔ میرے پڑوس میں جن کی بڑی فیملیز ہیں۔ ان کے بل دس ہزار سے لے کر بیس ہزار تک آئے ہیں۔

جب سے بجلی کے بل کی رونمائی ہوئی ہے۔ اس وقت سے میری بیگم چپ چپ سی ہیں۔ اس کی خاموشی اور دکھ کی کیفیت میں محسوس کر رہا ہوں۔ ایک طرف مہنگائی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لیے امتحان بنی ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف ناقابل یقین یوٹیلٹی بلوں نے لوگوں ہوش اڑا کر رکھ دیے ہیں۔

وطن عزیز اس وقت ایک قدرتی آفت یعنی سیلاب کی تباہی کا سامنا کر رہا ہے۔ سیلاب کی بپھری ہوئی موجیں ہر شے کو تنکے کی طرح بہا کر لے جا رہی ہیں۔ بڑے بڑے پل، عالی شان ہوٹل، مکانات، کچی بستیاں، مویشی حتیٰ کہ چھوٹے چھوٹے بچے سیلابی ریلوں کی نظر ہو رہے ہیں۔ اس قدرتی آفت نے وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی اہلیت پر بڑے سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

دوسری طرف ایک اور آفت بجلی کے بلوں کی صورت میں پاکستانیوں کے گھروں میں داخل ہو چکی ہے۔ جس نے لوگوں کو ایک نئی پریشانی سے دو چار کر دیا ہے مرد تو پھر بھی صبر و شکر کر لیتا ہے۔ مگر گھر کی عورت جس نے بجٹ مینیج کرنا ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر ہلکان ہے کہ کس مد میں کٹ لگا کر بل کی رقم نکالی جائے۔ بل کی رقم بھی غیر متوقع طور پر زیادہ ہے۔

دوسری طرف حکومت لفاظی سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فرمایا جاتا ہے۔ چونکہ فلاں مہینے شدید گرمی پڑی تھی۔ لہذا بجلی بنانے میں جو ایندھن استعمال ہوا اس کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ اس مہینے ایک طرف فیول ایڈجسٹمنٹ کی مدد میں دس روپے یونٹ کا اضافہ کیا گیا۔ اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے ڈیل کی وجہ سے فی یونٹ بجلی کی قیمت دگنی کر دی گئی۔ اس طرح بجلی کے بل ڈیڑھ سو فیصد اضافے کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔

محترم وزیر توانائی صاحب فرماتے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافہ عمرانی عذاب کا نتیجہ ہے۔ بدقسمتی سے ہر آنے والی حکومت پچھلوں کو رونے بیٹھ جاتی ہے۔ اپنی غلطی کوئی نہیں مانتا۔ اپنی نالائقی پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔ پاکستان کا غریب تو تختہ مشق بنا دیا گیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے حکمران طبقہ اپنا شاہانہ انداز بدلنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہے۔ سرکاری دفاتر اور عالی شان سرکاری عمارتیں کسی اور ہی دنیا کا منظر پیش کرتے ہیں۔ کشکول لے کر پوری دنیا کا چکر لگایا جاتا ہے۔ پھر اسی رقم کو اشرافیہ کی عیاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بیرون ملک سرکاری دوروں پر جب تک پوری فیملی صاحب بہادر کے ساتھ نہ جائے تو مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔

خبروں کے مطابق ابھی تو اگلے مہینے مزید بجلی مہنگی ہونی ہے۔ اس وقت عوام جس عذاب سے گزریں گے اس کے بارے میں سوچ کر ہی ہول اٹھتا ہے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف نے ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر کی قسط ادا کرنے کے لیے بجلی اور پٹرولیم کی قیمتوں میں مزید اضافے کی شرط رکھی ہے۔ 2018 کے بعد اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ قیمتیں دنوں کے حساب سے بڑھ رہی ہیں۔ اٹا، چینی، گھی، دالیں، مصالحہ جات اور دیگر گھریلو اشیاء عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ انسان کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری میں تو کمی بیشی کر سکتا ہے۔ ضرورت کے وقت دو روٹیاں کی جگہ ایک روٹی بھی کھا سکتا ہے۔ مگر بجلی کا بل ادا کرنا اس کی مجبوری ہے۔ ورنہ میٹر بھی کٹ سکتا ہے۔

ہمارے حکمران، عوامی نمائندے اور پالیسی ساز کس طرح کے فیصلے کر رہے ہیں۔ کیا 30000 یا اس سے کم کمانے والا 7000 سے لے کر 10000 روپے کا بل کیسے ادا کرے گا۔ وہ گھر کا کرایہ ادا کرے۔ بچوں کا پیٹ بھرے۔ ان کے تن کو ڈھانپنے یا یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کرے۔ اس کے علاوہ انسان کو زندگی میں چند دوسری ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے۔ جس میں مہمان داری، صحت کے مسائل، بچوں کی تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔ حکومتیں اپنے عوام پر اتنا ہی بوجھ ڈالتی ہیں جو وہ سہ سکیں۔ مگر پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں عام آدمی کو کولہو کا بیل سمجھا جاتا ہے۔ یہاں مرے ہوئے کو مزید مارنے کی تدبیر سوچی جاتی ہے۔

درحقیقت جب قرض کے حصول کے لیے کسی انٹرنیشنل فورم سے رجوع کیا جاتا ہے۔ تو معاہدہ کرتے وقت عام آدمی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ شوکت ترین، باقر رضا، حفیظ شیخ اور مفتاح جیسے آئی ایم ایف کے مہرے جب شرائط طے کرتے ہیں۔ تو وہ اشرافیہ کا نفع نقصان دیکھ کر ہی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں۔ عام آدمی کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ پاکستان میں ہمیشہ ٹیکنوکریٹ کو ہی وزارت خزانہ کا قلمدان سونپا جاتا ہے۔ جو یا تو مغرب کا نمائندہ ہوتا ہے یا ارب پتی بزنس مین۔

اس کو صرف اپنی کمیونٹی کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سے کاروباری شخصیات ٹیکس نیٹ سے باہر کردی جاتی ہیں۔ یا ان پر برائے نام ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح ملک میں صحت کے شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ سے باہر رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایک بڑا ڈاکٹر مہینے میں تقریباً پندرہ سے بیس لاکھ روپے کما کر گھر جاتا ہے۔ حکومت ان سے ٹیکس کیوں نہیں لیتی۔ ہر دفعہ صرف عوام کو ہی قربانی کا بکرا کیوں بنایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).