یا اللہ خیر یا اللہ خیر!


جمعے کی صبح کا وقت تھا سوشل میڈیا پر سیلاب کی ویڈیوز کا ریلا تھا، کئی دریا میں چائنہ کٹنگ کر کے قائم بہتے ہوٹلز تھے تو کئی ڈوبتے جانور کی ویڈیوز، کئی تیرتے بچے کی لاش تھی تو کہیں چھت پر پناہ لئے کتے کو روٹی ڈالنے کی ویڈیوز تھی۔ کچھ ویڈیوز نے انسانیت پر اعتماد بحال کیا اور کچھ نے افسوس کا موقع فراہم کیا۔ لیکن ایک ویڈیو اور سامنے آتی ہے اور اس میں ایک لرزتی ہوئی آواز آتی ہے یا اللہ خیر یا اللہ خیر، غالباً کسی بزرگ کی آواز ہے اور وہ پانچ انسانوں کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھ رہا ہوتا ہے۔

جمعہ کو پیش آئے اس واقعہ کو دیکھ کر ایک منظر اور ذہن میں آتا ہے جس میں ایک افریقی بچہ قریب المرگ ہوتا ہے اور اک گدھ اس کی سانسیں رکنے کے انتظار میں ہوتا ہے، اس تصویر کو کھنچنے والے فوٹوگرافر کو بعد میں ایک ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے مگر اس فوٹو گرافر کو احساس ہوتا ہے اور وہ بعد میں خود کشی کر لیتا ہے کیونکہ وہ ایک اچھی تصویر کی چکر میں رہا اور اس بچے کی مدد نہیں کی۔ یہ اچھی تصویر کا خبط اور ویڈیو سیشن کا سلسلہ وہاں سے پاکستان منتقل ہو گیا ہے۔

ان کوہستانی نوجوانوں کو بچانے کے لئے بھی سینکڑوں لوگ کوششوں میں مصروف تھے کوئی دعا پڑھ رہا تھا کوئی رسی پھینک رہا تھا کوئی امدادی کارکنوں کو کالز کر رہا تھا۔ جن لوگوں نے ان لوگوں کو بچانے کی کوشش کی اور ناکام ہوئے وہ یقیناً دل برداشتہ تو ہوں گے۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے تئیں کوشش کی اور وسائل کے مطابق اپنا کام کیا، کم سے کم وہ اپنے آپ کو کوسیں گے تو نہیں۔

خبروں کے مطابق یہ پانچوں دکاندار تھے اور اچانک سیلابی ریلے آنے کی وجہ سے اس میں پھنس گئے تھے اور کم و بیش 3 گھنٹے تک پھنسے رہے۔ اداروں کو خبر دی کہ آ جاؤ مدد کرو مگر وہ کسی اور کام میں مصروف تھے۔ ہیلی کاپٹر بھی مانگا مگر وہ کسی اور کام میں مصروف ہو گا۔ ویسے بھی ہیلی کاپٹر کا تیل عام پاکستانی کے خون سے قیمتی ہے۔ فریاد کرنے والے بتاتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر آ سکتا تھا صرف ایک ڈیڑھ گھنٹے میں، موسم بھی خراب نہیں تھا لیکن بار بار بلانے پر بھی نہ آیا۔

اس ویڈیو کے تھوڑی دیر بعد مجھے ایک ہشاش بشاش لیڈر ہیلی کاپٹر میں گھومتا دکھائی دیا، وہ ہیلی کاپٹر اسی صوبے کا تھا جس صوبے میں یہ اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ صوبے کا وزیر اعلی بھی اس لیڈر کے ہمراہ تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا انسان کی جان کو لیڈر کی فوٹو شوٹ سے زیادہ اہمیت دینی چاہیے تھی کیونکہ سب سے زیادہ انسانی جان کی مثالیں اسی لیڈر نے دی۔ لیکن نہیں ایسا نہ ہوا، انسانی جان کا پاس نہیں رکھا گیا اور فوری طور پر مدد نہیں کی گئی جس کی وجہ سے 4 قیمتی جانیں ضائع ہو گئی اور یہ تحریر لکھتے وقت صرف ایک باڈی مل سکی جب کے 3 باڈیز اب تک لاپتہ ہے یقیناً ً وہ پانی میں بہتے بہتے بہت دور چلی گئی ہوں گی ۔

اس ویڈیو کے بعد ایک اور ویڈیو نظر آئی جہاں عزت ماب وزیر اعظم بھی دوسرے صوبے میں ہیلی کاپٹر میں سوار تھے جہاں انسانوں کو بلند مرتبت وزیر اعظم پستی پر موجود پست شہریوں کو راشن بیگ پھینکتے دکھائی دیے۔ گویا جس مقام پر ہیلی کاپٹر کی زیادہ ضرورت تھی وہاں ہیلی کاپٹر نہ پہنچا البتہ بڑے بڑے لوگ ہیلی کاپٹر میں گھومتے رہیں۔

حادثے تو مسلسل ہیں مگر یہ حادثہ نہیں تھا یہ سانحہ تھا جو لاپرواہی کے نتیجے میں انجام پذیر ہوا۔ مگر یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سانحہ آخری نہیں ہے، یہ لاپرواہیاں جاری رہیں گی اور یہ سانحات ہوتے رہیں گے اور بزرگوں کی لرزتی آواز میں یا اللہ خیر، یا اللہ خیر کی صدائیں بلند ہوتی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments