افسانہ ”سریلا آدمی“ میری نظر میں


اعجاز روشن ایک اچھے افسانہ نگار ہیں۔ ان کا اسلوب انفرادیت اور اچھوتے پن کا حامل ہے۔ وہ جس واقعہ یا کردار کو افسانے میں بیان کرتے ہیں، اس کے پس منظر میں پو شیدہ حقیقت کو اس انداز سے آ شکار کرتے ہیں کہ وہ قاری پر ایک دیر پا تاثر قائم کرتی ہے۔ ”سریلا آدمی“ اعجاز روشن کا افسانہ ہے جو کہ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ”باسی ٹکڑے والا۔ اور دوسری کہانیاں“ میں شامل ہے۔ انھوں نے اس افسانے کی بنیاد ایک ایسے واقعہ پر رکھی ہے جو عصری معاشرے سے تعلق رکھتا ہے، جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے نیا یا انوکھا نہیں بلکہ معمولی ہے اس طرح کے واقعات موجودہ معاشرے میں اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن اعجاز روشن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس واقعہ کو از سرنو اس انداز سے تخلیق کیا ہے کہ اسے ادبی وقار مل گیا ہے۔ ورنہ اس طرح کے واقعات محض رپورٹ تک محدود رہ جاتے ہیں۔

اعجاز روشن افسانے کا آغاز بڑی سادگی سے کرتے ہیں۔ وہ منظر نگاری پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کہانی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ افسانے کا آغاز کچھ یوں ہوتا ہے کہ ٹی وی پر سیلاب کی جھلکیاں دکھائی جا رہی ہوتی ہیں تو افسانہ نگار کا ذہن ایک ایسے کردار کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو انسانی خدمت کا پیکر تھا۔ اس کا نام رفاقت علی تھا لیکن وہ استاد جی کے نام سے مشہور تھا۔ اسے موسیقی سے شغف تھا۔ افسانہ نگار نیاز دینے کے بہانے رفاقت علی گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر کا سارا ماحول دریافت کرنے کے ساتھ کچھ ایسے اشارے دیتا ہے جن کی مدد سے قاری اس کی شخصیت اور عقیدے کی مکمل تشریح و تفسیر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

صغرہ ( استاد رفاقت کی بیٹی ) جو کہ افسانہ نگار سے دو سال بڑی ہے لیکن اس کی ہم جماعت ہے۔ افسانہ اس کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ اگر اس کے کردار کو غائب کر دیا جائے تو افسانے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس کردار کو افسانہ نگار نے بڑی عمدگی افسانے کے خمیر میں سمویا ہے۔

موقع پرست اور مفاد پرست کردار مادی اقدار کی پیداوار ہیں۔ جو دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے فن کو تھوڑی سی قیمت کے عوض خرید لیتے ہیں۔

اعجاز روشن نے ایک ایسے ہی امیر کردار کو متعارف کروایا ہے جو استاد رفاقت کا ہارمونیم آدھی قیمت پر خرید لیتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے اعجاز روشن نے افسانے میں ایک تضاد پیدا کیا ہے۔ جو روحانی اور مادی اقدار کا تضاد ہے۔ مادی اور روحانی اقدار کا نفی اثبات ہی اس افسانے کی جان ہے۔ افسانے کے آغاز اور اختتام کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسے محویت کے عالم میں تخلیق کیا گیا ہے۔ لیکن اعجاز روشن نے اسے نفسیاتی الجھنوں اور زبان و بیان کے عیوب سے ممکن حد تک محفوظ رکھا ہے جو کہ ایک ماہر افسانہ نگار ہی کر سکتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments