رپٹا پاؤں اور درد زہ


میرا پاؤں رپٹ گیا جب سوچوں میں غرق میں پارک میں چلتی جا رہی تھی کہ کیا پستی کی اور بھی کوئی انتہا ہو سکتی ہے؟ کیا حکومت اور ریاست کا فرق واقعی فراموش کر دیا گیا ہے؟ کیا حکومت کا لالچی حیوان ریاست کو شکار کرنے ایک پل کو نہیں ہچکچائے گا؟ میں جو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم اور حکیم سعید مرحوم کی پیشین گوئیوں کی بابت شک و شبہے کا شکار تھی اور سمجھتی تھی کہ یہ سب سیاستدان مختلف سوچ کے حامل ضرور ہیں مگر اس ریاست کے محب ہیں۔

میں اپنی سوچوں میں گم اپنے نظریے پہ نظر ثانی کر رہی تھی کہ میرا پاؤں رپٹ گیا۔ میں نے اپنی سوچ سے باہر آ کر دیکھا، پارک میں جا بجا کیچڑ بکھرا تھا، حالیہ بارشوں نے پارک کا حلیہ بگاڑ دیا تھا، پہلے تو پارک تالاب کا منظر پیش کر رہا تھا، واک موقوف رہی اور اب پانی تو سوکھ گیا تھا مگر کیچڑ کہیں کہیں موجود تھا جو اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا کہ میں سوچوں میں گم رہوں۔

میں نے اپنی سوچ پہ نفرین بھیج کر اپنے اطراف کا جائزہ لیا، میرا پاؤں کیچڑ میں دھنس چکا تھا، واک کے لیے خریدے سینڈل تلوے کے علیحدہ ہونے کی دہائی دے رہے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں تخمینہ کیا، چار ہزار کا جوتا برباد ہو گیا اور جو اس ہلکے سبز رنگ کے سوٹ پہ کیچڑ کا داغ پڑا ہے یہ جانے دھلے گا بھی یا نہیں کہ اچانک سوچ کا دھارا مجھے سیلابی بستیوں میں لے گیا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے اسباب پہ تو اہل دانش و فکر بات کرتے رہیں گے کہ دریائی گزرگاہوں پہ آبادیاں کیوں بنیں اور کیسے ان سے بچا جا سکتا تھا مگر میرا ٹوٹا جوتا اور معمولی سا نقصان مجھے ان اجڑی ہوئی بستیوں میں لے گیا۔

میں ایسی ہی کسی بستی میں کھڑی تھی، میں نے غور سے دیکھا سامنے میں ہی تھی، میرے پاؤں تک خون بہہ رہا تھا جہاں پہننے تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں بچا تھا وہاں سینٹری پیڈ یا کسی بھی طرح کے کپڑے کی دستیابی بس اک بہت بڑا سوال تھا۔ میں یہاں سے لرز کر مڑی تو سامنے وہ ڈبڈبائی آنکھوں والی عورت بھی میں ہی تھی جو اپنے اردگرد پھیلے بدبو دار پانی کو دیکھ رہی تھی اور چند انچ خشک زمین کا ٹکڑا ڈھونڈ رہی تھی کہ وہ سجدے میں گر کر اپنے مالک سے اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگ سکے۔ اس نے بے بسی سے کچھ دور اپنے ڈوبے ہوئے گھر کو دیکھا جہاں گھر کے تمام سامان کے ساتھ اس کا جائے نماز کا کونہ، اس کی تسبیح، آرام سکون سب غرق ہو چکا تھا۔

یہاں سے مڑی تو سامنے اک ترپال سے بنا خیمہ جو پردے و سر ڈھانپنے کے لوازم سے عاری تھا یہاں بھی میں ہی تھی جو درد زہ میں مبتلا تھی۔ میری اذیت دہری تھی کہ میرا ستر اور میری چیخوں کو یہ خیمہ چھپانے سے قاصر تھا۔ ارد گرد مرد، بچے بے بسی اور بے حسی سے نظریں چراتے پھر رہے تھے اور میرے اردگرد بیٹھی عورتیں لاچارگی سے میری مدد میں ہلکان تھیں۔ مجھے میری روح میرے بدن سے جدا ہوتی نظر آ رہی تھی۔ میں جانتی تھی میرے علاقے کی دائی کب کی ڈوب چکی ہے اور یہاں دور دور تک کسی طبی امداد کا کوئی امکان بھی نہیں۔ میرا شوہر ڈوب چکا ہے اور جلد میں اور میرا بچہ بھی اس کے پاس ہر غم سے آزاد ہو کر پہنچ جائیں گے۔ مجھے لگا میری روح نے واقعی میرا بدن چھوڑ دیا ہے۔

ادھر نگاہ کی تو یہاں بھی میں ہی تھی نڈھال اجڑی ہوئی خالی ہاتھ، بے جان، بے روح، سیلاب میرا گھر، میرا کھیت، میرا شوہر، میرے بچے اور میرے ساس سسر کو بہا کر لے گیا تھا، میرا پورا کنبہ بہہ گیا تھا میرے پاس بس ایک سوال بچا تھا کہ میں کیوں بچ گئی تھی۔ میرے رپٹے پاؤں نے مجھے کن جہنموں کی سیر کرا دی تھی۔ میں جو اک کہانی کار ہوں جسے کہانی جینے کا زعم و دعویٰ تھا، عاجزی سے اعتراف کرتی ہوں کہ میرے لیے ایسی کسی زندگی کا تصور بھی محال ہے میرا رپٹا پاؤں اور ٹوٹا جوتا میرا مذاق اڑانے لگے۔

پھر میں دفعتاً سوچنے لگتی ہوں اتنی بڑی زمینی آفت بھی اگر اس ملک کے سیاستدان کو ہلا نہیں سکی اور مل بیٹھنے کا ایجنڈا نہیں دے سکی تو پھر یہ سیاست کا کون سا دھارا ہے؟ جب ملک ہی نہ رہے گا خاکم بدہن تو کہاں ہوگی یہ سیاست یا پھر ایجنڈا ہی یہ ہے؟ یہ سوال کسی بوجھل حمل کی مانند ہے اور میں جیسے درد زہ میں مبتلا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments