عمران خان کی ٹیلی تھون میں پانچ ارب روپے کے عطیات کے اعلانات کیا پورے ہو پائیں گے؟

تنویر ملک - صحافی، کراچی


سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ملک میں سیلاب کی تباہ کاری اور متاثرین کی مدد کے لیے منعقد کی گئی ٹیلی تھون میں تحریک انصاف کی جانب سے پانچ ارب روپے کے عطیات وصول ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

رہنما تحریک انصاف فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر دعویٰ کیا کہ تین گھنٹوں کے دوران 500 کروڑ روپے اکھٹے ہوئے۔ دوسری جانب پنجاب کے وزیر انفارمیشن و ٹیکنالوجی ڈاکٹر ارسلان خالد کے مطابق پنجاب حکومت کے فنڈ میں ایک کروڑ 39 لاکھ روپے اور ڈالرز میں 10 لاکھ امریکی ڈالر جمع ہوئے۔

تحریک انصاف کی جانب سے کیے جانے والے اس دعویٰ کے بعد سوشل میڈیا پر بے شمار تبصرے کیے گئے ہیں جن میں ایک جانب تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے اسے عمران خان پر عوام کے اعتماد کا ثبوت قرار دیا گیا تو دوسری جانب ایسی پوسٹس بھی سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ یہ صرف اعلانات ہی ہیں اور درحقیقت اس میں کوئی صداقت نہیں۔

سوشل میڈیا پر ان پوسٹس میں سوال اٹھایا گیا کہ ٹیلی تھون میں اعلانات کے بعد کیا یہ عطیات واقعتاً تحریک انصاف کی جانب سے دیے جانے والے اکاؤنٹس میں جمع ہوں گے اور سیلاب زدگان تک پہنچ پائیں گے؟

تحریک انصاف کے موقف کے مطابق یہ عطیات مخصوص اکاؤنٹس میں ہی جمع ہوں گے اور سیلاب زدگان کی مدد میں استعمال ہوں گے۔

تاہم غیر جانبدار ماہرین اور خیراتی شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق عطیات کے اعلانات کے بعد ان کے تحت رقوم کا 100 فیصد جمع ہونا مشکل ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق عطیات کے اعلانات کے بعد 70 سے 75 فیصد رقوم کا آجانا کسی ٹیلی تھون یا مہم کی کامیابی کی علامت ہے ورنہ اکثر اوقات یہ 50 فیصد سے کم ہی رہتی ہیں۔

ٹیلی تھون میں پانچ ارب کے اعلانات کیا حقیقت میں آئیں گے؟

عمران خان

بینکاری کے شعبے سے وابستہ راشد مسعود عالم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا تجربہ یہی ہے کہ بینکوں میں عطیات جمع کرنے کے لیے کھولے جانے والے کھاتوں میں عطیات کے اعلانات کے مقابلے میں بہت کم رقم جمع ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اعلان کی گئی رقم کے مقابلے میں جمع کی جانے والی رقم 25 سے 30 فیصد ہی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 30 فیصد رقم کا جمع ہونا بھی غنیمت سمجھا جاتا ہے۔

راشد کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر کراچی کے ایک سابق گورنر نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی کے لیے عطیات اکٹھا کرنے کی مہم میں خطیر رقم کا اعلان کیا لیکن وہ رقم انھوں نے جمع نہیں کرائی۔

اسی طرح پاکستان ڈیم فنڈ میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس کی جانب سے جب عطیات جمع کرانے کا کہا گیا تو ایک بڑے کاروباری گروپ نے رقم عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم چیف جسٹس کے جانے کے بعد یہ رقم جمع نہیں کرائی گئی۔

گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے ریسورس موبلائزیشن کے سربراہ اور شاہد آفریدی فاونڈیشن کے سابقہ منیجر مصدق عزیز نے بی بی سی کو بتایا کہ عطیات کے اعلان کے بعد اس رقم کے جمع کرانے کی شرح مختلف شعبوں میں مختلف رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ویسے تو 70 سے 75 فیصد رقم بھی عطیات کے اعلان کے بعد جمع ہوتی ہے جو ایک مثالی کلیکشن ہوتی ہے اور 30 فیصد سے کم بھی رقم جمع ہوتی ہے جو کسی مہم کے بعد عطیات جمع کرنے کا مایوس کن رزلٹ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا عمران خان کی تقاریر روکنے کے لیے ’انٹرنیٹ تھروٹلنگ‘ کا استعمال کیا جا رہا ہے؟

تحریک انصاف کی ’ریڈ لائن‘ عمران خان گرفتار ہوئے تو پارٹی کیا کرے گی؟

موسیقی اور کرکٹ کے ’خان‘ آپس میں کیسے دوست تھے؟

عمران خان کا 90 فیصد کا ریکارڈ رہا ہے

ڈاکٹر ارسلان خالد نے اس سلسلے میں کہا کہ ’عمران خان کا ریکارڈ ہے کہ ان کی جانب سے فنڈ ریزنگ کی مہم اور ٹیلی تھون میں عطیات کے اعلانات کے بعد رقم جمع کرانے کی شرح 90 سے 95 فیصد رہی ہے اور اس ٹیلی تھون کے بعد بھی امید ہے کہ یہی شرح برقرار رہے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ شوکت خاتم ہسپتال، نمل کالج اس کی مثالیں ہیں جو عطیات کے ذریعے ہی بنائے گئے ہیں۔ ’عمران خان پر لوگوں کو اعتماد ہے کہ ان کا عطیہ صحیح طور پر استعمال ہو گا اور حقدار تک پہنچے گا۔‘

ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا کہ ’ٹیلی تھون میں بہت بڑے بڑے عطیات کا اعلان کیا گیا ہے اور رقم آنے میں کچھ دن اور ہفتے لگ سکتے ہیں تاہم یہ آ جائے گی۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس ٹیلی تھون کے علاوہ تحریک انصاف کی جانب سے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے رقم جمع کروانے کی مہم میں پچھلے 24 گھنٹوں میں 18 لاکھ ڈالر جمع ہو چکے ہیں جو 50، 100، 200 ڈالر تک کے عطیات پر مشتمل رقوم کا مجموعہ ہے۔

عمران خان نے ماضی میں کب فنڈ ریزنگ کی؟

پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے دورے کے موقعے پر

پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا شوکت خانم کینسر ہسپتال کے دورے کے موقعے پر

عمران خان کی جانب سے ماضی میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر عطیات اور چندے کے ذریعے کی گئی۔ اسی طرح میانوالی میں ان کی جانب سے نمل کالج کا قیام بھی عطیات اور چندے کے ذریعے ہی عمل میں لایا گیا۔

ڈاکٹر ارسلان نے بتایا کہ صرف شوکت خانم کینسر ہسپتال کی مثال لی جائے تو اس کے قیام میں 70 فیصد عطیات سے حاصل کی جانے والی رقم شامل تھی۔

انھوں نے کہا عمران خان کی جانب سے اسی طرح پاکستان میں کرونا وبا کے پھوٹنے کے بعد ایک ٹیلی تھون منعقد کی گئی جس میں کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے مقابلے کے لیے عطیات جمع کیے گئے تھے۔ اس ٹیلی تھون کے تحت میڈیا رپورٹس کے مطابق 50 کروڑ اکھٹے کیے گئے تھے۔

ملک میں 2010 کے سیلاب کے بعد میر خلیل الرحمان فاونڈیشن کی پکار مہم کے تحت ٹیلی تھون کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں عمران خان نے شرکت کی اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فنڈز اکٹھے کیے گئے تھے۔

ڈاکٹر ارسلان نے کہا کہ ’ماضی اور موجودہ ٹیلی تھون کی کامیابی کی وجہ عمران خان ہیں اور اس کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے کہ عطیات عموماً ان بڑے بڑے ڈونرز کی جانب سے عمران خان کی کال پر دیے جاتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں اور وہ ماضی میں بھی ان کی فنڈ ریزنگ کی کوششوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ’ان میں سے اکثر بہت مشہور لوگ ہیں جو عطیات کا اعلان کر کے اپنا وعدہ نبھاتے ہیں۔‘

’اس لیے ماضی کی فنڈ ریزنگ میں کامیابی کے بعد یہ ٹیلی تھون بھی کامیاب رہی اور اس میں بھی وہی ڈونرز شامل ہیں جن کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔‘

یہ فنڈز کیسے جمع ہوں گے اور ان کا صحیح استعمال کیسے یقینی بنایا جائے گا؟

ٹیلی تھون میں عطیات کے اعلانات کے بعد انہیں دو بینک اکاونٹس میں جمع کرایا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر ارسلان نے کہا ’یہ بینک اکاؤنٹس تحریک انصاف کے نام پر نہیں بلکہ حکومت کے نام پر کھولے گئے ہیں جن میں ایک حکومت پنجاب کے نام پر ہے اور دوسرا حکومت خیبر پختونخوا کے نام پر۔‘

راشد مسعود عالم نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ اکاؤنٹس کسی ٹرسٹ کے اکاؤنٹ نہیں ہیں کہ جن کی مانیٹرنگ کی جا سکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ان اکاؤنٹس میں کتنی رقم جع ہوئی یہ صرف اکاؤنٹ ہولڈر کو پتا ہوتا ہے اور رازداری کے اصولوں کے تحت بینک کسی کو نہیں بتا سکتا کہ اس میں کتنی رقم آئی ہے اور کتنی موجود ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک آف پاکستان بھی اسی وقت اس میں مداخلت کر سکتا ہے اگر اسے کوئی شکایت وصول ہو کہ اس میں کوئی گڑبڑ ہے اور پھر وہ انکوائری کر سکتا ہے۔‘

تاہم راشد مسعود نے بتایا کہ عطیات والے فنڈز اکثر اوقات خیراتی ہوتے ہیں اور ان پر نگرانی اتنی سخت نہیں ہوتی۔

اس ٹیلی تھون کے ذریعے جمع ہونے والی رقم کے صحیح استعمال کے بارے میں ڈاکٹر ارسلان نے کہا کہ ’اس سلسلے میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی قیادت میں کمیٹی کام کرے گی جو ٹیلی تھون کے تحت جمع ہونے والے عطیات اور رقوم کے صحیح استعمال کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments