سیلاب۔ تباہی کے ذمہ دار کون؟


زلزلہ سیلاب طوفان آتش فشاں جیسے قدرتی آفات ایسے زمینی حقائق ہیں جس سے نہ انکار کیا جاسکتا ہے نہ اس کا مکمل سدباب ممکن ہے۔ مگر اس کی شدت اور نقصانات میں کمی انسانی منصوبہ بندی سے ممکن ہے اور درجنوں ممالک نے اپنے اپنے عوام کو اس قسم کی آفات سے بچانے کے لئے جو اقدامات کیے ہیں وہ نہ صرف قابل تعریف بلکہ قابل تقلید ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں پاکستان میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اس کی تقلید تو درکنار اس کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا جاتا ہے۔

جاپان میں زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر، چین یو اے ای اور ملائشیاء سمیت درجنوں ممالک میں پچاس ساٹھ اور ستر منزلہ زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر اور وہاں شہروں کے وسط میں بہنے والے دریاؤں کو عوام کے لئے مشکلات کی بجائے تفریح اور فائدے کی جگہ بنانا صرف ان ممالک کے قیادت کی منصوبہ بندی اور اخلاص کی مرہون منت ہے۔ ورنہ دریا کا سیلابی پانی نہ کالے گورے میں تمیز کرتا ہے نہ مسلم اور غیر مسلم میں۔

پاکستان میں گزشتہ بارہ سال کے دوران یہ دوسری مرتبہ ہے کہ سیلاب نے اس بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور گیارہ سو سے زیادہ قیمتی جانوں کے علاوہ ملکی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا۔ کہا جاتا ہے کہ دو ہزار دس کے سیلاب سے ملک کو دس ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اور موجودہ سیلاب کا اندازہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم نے ان تباہیوں سے کوئی سبق حاصل کیا۔ یا انسانی تباہی کے یہ مناظر کسی فلم کے پارٹ کی طرح ہم نے دیکھے اور بھلا دیے۔

اور پہلے سے زیادہ اپنے معمول کی چوریوں، قبضوں، غیر قانونی اور ناقص تعمیرات اور قانون کی من مانی تشریحات میں مگن ہو گئے۔ ملک بھر میں دریا نہر ندی نالے اور سڑک کے کنارے تعمیرات کے لئے انگریز دور سے قوانین موجود ہے اور ان قوانین کو وقتاً فوقتاً بہتر بھی بنایا گیا ہے۔ مگر پاکستان میں مسئلہ قوانین کی کمی کا نہیں قوانین پر عملدرآمد کی کمی کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کالام اور بحرین میں دو ہزار دس کے سیلاب میں بہنے والے ہوٹل مالکان نے پھر دریاں کے درمیان ہوٹل اور پلازے کھڑے کیں۔

پھر وہی پل سیلابی ریلے میں بہہ گئے جو صرف دس سال پہلے بنائے گئیں تھیں۔ مگر اس کے باوجود مجھے سو فیصد یقین ہے کہ نہ کسی ہوٹل کے مالک سے پوچھا جائے گا کہ تم نے دریاں کے وسط میں ہوٹل کس قانون کے تحت بنائی نہ ہی منظوری دینے والے کسی افسر کو پھانسی چڑیا جائے گا کہ تم نے منظوری دے کر سینکڑوں لوگوں کی جان خطرے میں ڈالنے کی جرات کیوں کی۔ نہ ہی پل بنانے والے ٹھیکیدار اور متعلقہ ادارے کے افسران کو سر عام سزا دی جائے گی کہ اگر پل کی گارنٹی سو سال تھی تو یہ دس سال میں کیوں بہہ گیا۔ کیا متعلقہ اداروں نے قانون کے مطابق اس دریاں میں بہنے والے پانی کا سو سالہ ریکارڈ چیک کر کے اسی کے مطابق پل بنانے کی منظوری دی تھی اگر نہیں تو کیوں نہ ان تباہ ہونے والے تمام پلوں کو ذمہ دار ٹھیکیداروں اور انجینئرز سے پیسہ لے کر تعمیر کیا جائے۔

جہاں تک پنجاب اور سندھ کے زیریں علاقوں میں پانی چڑھنے اور تباہی کا تعلق ہے ان نقصانات سے بچنا بھی ناممکن نہیں تھا۔ دو ہزار دس کا سیلاب جن جن علاقوں میں تباہی مچا چکا تھا، اگر حکومتیں چاہتی تو گزشتہ بارہ سال میں ہر سال ایک مخصوص بجٹ منظور کروا کر طویل مدتی منصوبے کے ذریعے دریاؤں کے مضبوط پشتے تعمیر کیے جا سکتے تھے۔ پختونخوا میں اس کی زندہ مثال مردان شہر میں بہنے والے کلپانی کے گرد سابقہ وزیر اعلی حیدر خان ہوتی دور میں تعمیر کیا گیا مضبوط اور بلند پشتہ ہے۔

جس نے اب تک شہر کو تمام طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچائے رکھا ہے حالانکہ دو ہزار دس تک یہ ہر سال قیمتی جانوں سمیت کروڑوں کے نقصانات کا ذریعہ بنتا تھا۔ اگرچہ سابقہ وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی اپنے دور حکومت میں پشاور سے نوشہرہ تک دریائے کابل کے اطراف پشتے تعمیر کرنے پر اربوں روپے لگائے۔ مگر اس کی اونچائی کم رکھنے کی وجہ سے مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا۔ باقی ملک میں مگر ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ ہمارے ہاں بجٹ کی تخصیص انسانی ضرورت کے مطابق نہیں سیاسی ضرورت کے مطابق کی جاتی ہے۔

جس چیز کو ہمارے ہاں علماء صاحبان اور سادہ لوح مسلمان اللہ کا عذاب کہہ اپنے حکمرانوں کو برای الذمہ کرتے ہیں دنیا بھر میں اسے حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کا مس منیجمنٹ کہا جاتا ہے۔ ہمیں ذکر اذکار اور وظائف کی تلقین کی جاتی ہے کہ اس طرح اس عذاب سے چھٹکارہ پایا جائے گا مگر دنیا میں اس قسم کے حالات کے بعد ذمہ داروں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ کے لئے منصوبہ بندی پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کے قدرتی آفات انسان کے انفرادی گناہوں کا نتیجہ نہیں ہوتی ہے یہ انسانوں کے قدرت سے چھیڑ خانی اور اجتماعی غلطیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔

اور اس سے چھٹکارہ بھی استغفار کا ورد کرنے سے نہیں بلکہ ان گناہوں سے حقیقی توبہ کرنے سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ عذاب قوم پر مسلط ہوئی ہوتی ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم قدرتی جنگلات کاٹ کاٹ کر موسمیاتی تبدیلی کا باعث بنے، دریاں کے درمیان گھر اور ہوٹل بنا کر اس کا راستہ روکنے کی جرات کرے۔ ناقص مٹیریل استعمال کر کے کمزور پل بنائے، دریاؤں کے مستقل پشتے تعمیر کرنے کی بجائے ناقص گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر پر پیسے بہائے، خشت کے بھٹوں اور کارخانوں میں ٹائر جلا کر دھویں کو کنٹرول کرنے کا کوئی انتظام نہ کرے۔

اور جب اس کے نتیجے میں سیلاب آ کر تباہی مچاتے ہیں تو ذکر اذکار کر کے خود کو تسلی دینے کی کوشش کرے۔ توبہ و استغفار بہت اچھی بات ہے مگر وہ آپ کے ان گناہوں کا کفارہ ہو سکتا ہے جو انسان اور اللہ کے درمیان ہو یعنی نماز نہیں پڑھا روزہ نہیں رکھا زنا کا ارتکاب کر بیٹھے وغیرہ۔ اللہ سے سچی دل سے توبہ کر کے معافی مانگو وہ رحیم و کریم ذات ہے بخش دیتا ہے۔ مگر کسی شخص یا سرکار کی زمین پر قبضہ، کسی کا قتل، کسی کے ساتھ ظلم، غیبت، کرپشن، دھوکہ دہی کی معافی نہ اس جہان میں استغفار سے ممکن ہے نہ روز قیامت اس کا امکان ہے۔ اس لئے اگر توبہ ہی کرنا ہے تو ان گناہوں سے اجتماعی توبہ کی ضرورت ہے، جو دوسروں کی زندگی سے تعلق رکھتی ہو اور جو ان حالات کو لانے کی بنیادی وجوہات ہو، ورنہ زبانی کلامی تو بہ کہنے اور لاکھوں مرتبہ استغفار کا ورد کرنے سے سیلاب سے نجات نہیں ملے گی۔

سوشل میڈیا کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اکثر علاقوں میں غیر متاثرین اور غیر مستحق افراد نے صدقہ خیرات اور امداد کے حصول کے لئے متاثرین کا روپ دھار لیا ہے۔ بعض جگہوں پر پیشہ ور لوگوں کی جانب سے صدقات جمع کرنے کے لئے کیمپ لگائے گئے ہیں جس کے خرچ کرنے کا کوئی تصدیق نہیں ہو سکتا ہے۔ ان سطور کے ذریعے ان لوگوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ صدقہ و خیرات کے پیسے اور دوسروں کا حق مارکر آپ مالدار نہیں بن سکتے ہیں بلکہ اپنے لئے دنیا و آخرت کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔ اس سے باز آ جائے اور عوام سے بھی درخواست ہے کہ صدقہ و خیرات ملک بھر کے مستند اداروں کو دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرے جس میں الخدمت فاونڈیشن، ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ، اخوت فاونڈیشن، دوست ویلفیئر اور سہارا ٹرسٹ جیسے نامی گرامی قابل اعتماد ادارے شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments