مدراس کا ایک قدیم روایتی گیت اور رقص:  اعضا کی ناقابلِ فراموش شاعری


1999ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ٹیکسٹائل کانفرنس چنائی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں چالیس ممالک سے سو کے قریب لوگ شریک ہوئے۔ پاکستان سے ہم تین لوگ تھے۔ جن میں عمر صاحب اور میرے علاوہ کریسنٹ گروپ کے ایک ڈائریکٹر بھی شامل تھے۔ انھوں نے ایک سیشن کی صدارت بھی کی ، جو ہمارے لیے ایک اعزاز تھا۔ کانفرنس میں بے شمار لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ میں اس سے قبل بھی استنبول میں ہونے والی اسی طرح کی ایک کانفرنس میں شریک ہو چکا تھا، اس لیے کئی چیزیں میرے لیے پرانی تھیں ۔ عام طور پر کانفرنس کا پہلا سیشن بہت بھرپور ہوتا ہے اور اس کی صدارت کے لیے کسی نہ کسی مشہور شخصیت کو بلایا جاتا ہے۔ کانفرنس کے پہلے سیشن میں مجھے ایک خوبصورت فقرہ سننے کو ملا، یقیناً آپ بھی اسے پسند کریں گے۔ میں نے پچھلے بیس سال میں بہت سے لوگوں سے یہ بات کی ہے اور سب نے اس سے خوب لطف اٹھایا ۔

کانفرنس کےابتدائی سیشن کی صدارت کے لیے ایک صاحب کو بلوایا گیا جو چنائی میں واقع کئی ٹیکسٹائل ملز کے مالک تھے اور اسی ناطے بہت سی فلاحی تنظیموں سے بھی منسلک تھے۔ اسٹیج پر کھڑے صاحب نے ان کا تعارف بڑے زور دار طریقے سے کروایا اور کئی منٹ تک ان کی خدمات کا ذکر کرتے رہے۔ ایسا کرنا بالکل جائز بھی تھا کیونکہ وہ صاحب واقعی ایسی تعریفوں کے لائق تھے۔ ان کی عمر ستر سال کے قریب ہوگی۔ جب انھیں بلوایا گیا تو انھوں نے سب سے پہلے شکریہ ادا کیا، خوش آمدید کہا، پھر کچھ دیر خاموش کھڑے رہے اور کہنے لگے کہ اگر آپ نے میری اتنی تعریفیں کرنی تھیں اور اتنے سارے لوگوں کے سامنے مجھے بہت ہی عظیم آدمی ثابت کرنا تھا تو یہ بات مجھے پہلے بتانی چاہیے تھی۔ ان کی یہ بات سن کر اسٹیج پر کھڑے صاحب نروس ہو گئے کہ جانے میں کون سی غلطی کر بیٹھا ہوں۔

 چند لمحوں بعد صاحب صدر نے کہا کہ اگر مجھےیہ پتہ ہوتا کہ میرے متعلق آپ لوگوں کی یہ رائے ہے تو اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آتا اوراسے بتاتا کہ دیکھو تم جسے گھر میں گھاس تک نہیں ڈالتی اور ہر وقت یہی کہتی رہتی ہو کہ تمہیں کچھ پتہ نہیں، دیکھو لوگ ایسے شخص کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ان کا یہ کہنا تھا کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا اور سب ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگے اور اکثر لوگوں نے کہا کہ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے۔

 میں نے بھی ایک آدھ مرتبہ ایسی ہی کوشش کی لیکن یقین مانیں کہ سارا زمانہ تو مان سکتا ہے کہ آپ ایک بڑے آدمی ہیں لیکن آپ کی بیوی نہیں مان سکتی۔ یہ میرا دعویٰ ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

کانفرنس کی روایت ہے کہ پہلے دن کے اختتام پر ایک کلچرل شو ہوتا ہے جس میں مقامی کلچر سے جڑا کوئی پروگرام پیش کیا جاتا ہے، جیسے کوئی فوک میوزک، رقص وغیرہ۔ جب ٹیکسٹائل کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی تھی تو یہاں بھی ایک مقامی فنکار کو بلایا گیا تھا۔انھوں نے بھی کچھ لوک فنکار بلائے ہوئے تھے۔ جنھوں نے ایک منفرد قسم کی پرفارمنس دی۔

اسٹیج پر دس کے قریب لوگ مختلف ساز لے کر ایک دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ ان کے گلوں میں رومال تھے ، انھوں نے صرف ایک دھوتی پہنی ہوئی تھی اور ان کے ماتھوں پرسفید نشان لگے ہوئے تھے۔ گرم مرطوب علاقوں میں سخت پسینہ آتا ہے اس لیے آپ کو اکثر لوگ بغیر قمیض کے ہی نظر آتے ہیں۔ان کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی جس نے مدراس کا روایتی لباس پہن رکھا تھا۔

فنکاروں نے میوزک شروع کیا اور ساتھ ہی تامل زبان میں کچھ گانے بھی سنائے۔ لڑکی نے بھی رقص شروع کر دیا۔ جسے رقص کہنا مشکل ہے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اشاروں میں کوئی کہانی بیان کر ر ہی ہو۔ کبھی وہ آسمان کی طرف دیکھتی تو کبھی وہ ہاتھوں کو پھیلا کر ہاتھ میں پکڑے تصوراتی برتن کو دیکھتی۔ کبھی وہ زمین پر جھک جاتی اور یوں محسوس ہوتا کہ جیسے وہ زمین میں پودے لگا رہی ہے۔ وہ کبھی کبھار آسمان کی طرف دیکھتی اور اپنے ہاتھوں کو دعائیہ انداز میں پھیلاتی۔ غیر ملکی لوگ بھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اوریقیناً کسی کو اس کی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ میرا بھی یہی حال تھا۔ میرے ساتھ ایک مقامی صاحب تشریف فرما تھے۔ میں نے ان سے اس بارے میں جاننا چاہا جس پر انھوں نے مجھے بہت ہی اچھے انداز میں بتایا کہ یہ اس علاقے کی ایک لوک کہانی ہے جو لڑکی اپنے جسم کو مختلف حرکات دے کر سنا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ آپ کے علم میں ہے کہ ہمارے علاقے میں چاول بڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے جس کے لیے بارشیں انتہائی ضروری ہیں۔ اس کہانی میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے چاول کی فصل تیار نہیں ہو رہی اور خوف ہے کہ اگر مطلوبہ مقدار میں چاول پیدا نہ ہوا تو کہیں قحط نہ پڑ جائے۔ لڑکی بار بار ہاتھ اٹھا کر اوپر والے سے دعا مانگ رہی ہے اور اسے دکھا رہی ہے کہ میرے برتن خالی ہیں، میرے کھیت سوکھے ہیں اور بارش نہ ہوئی تو میراخاندان بھوکوں مر جائے گا۔ انھوں نے مجھے اس رقص کے بارے میں اسی طرح کی بہت سی تفصیلات بتائیں ۔ مجھے وہ بہت ہی منفرد لگا۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے سے زیادہ کا پروگرام تھا ۔ میرا خیال ہے کہ میرے علاوہ اس پروگرام میں شریک کسی بھی غیر ملکی کو معلوم نہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟

میں نے شروع ہی میں تفصیلات معلوم کرلی تھیں اس لیےمجھے اس خاتون کی تمام باتیں سمجھ آ رہی تھیں۔ ایک قدیم ترین روایت کو برقرار رکھنے پر میں نے اپنے ساتھ بیٹھے صاحب سے کہا کہ یہ تو ایک صدیوں پرانی روایت ہے جسے آپ لوگ زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس پر انھوں نےبتایا کہ جب بھی ہمارے ہاں کوئی مہمان آتے ہیں تو ہم ان کے سامنے اسی طرح کا شو پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بے شمار قدیم کہانیاں ہیں جن میں پیار محبت کے قصے بھی ہیں جو جسمانی حرکات کی مدد سے پیش کیے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے اعضا کی شاعری بھی کہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments