کائنات کے بیک یارڈ سے


نئی نظم مختلف مدارج طے کرنے کے بعد اب اپنی مخصوص پہچان قائم کر چکی ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں نئی نظم میں فکری اور فنی سطح پر کئی تجربات ہوئے اور بطور صنف اپنی شعریات بھی متعین کی ہیں۔ ناقدین نے بھی نئی نظم کی تخلیقی بوطیقا کو نئے انداز میں دیکھنے کی سعی کی ہے۔ نئی نظم پر لکھی جانے والی تنقید یہ گواہی دیتی ہے کہ نظم تیزی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے۔ حال ہی میں نظم کی تازہ کار شاعرہ صنوبر الطاف کی کتاب بعنوان ”کائنات کے بیک یارڈ سے“ شایع ہوئی ہے۔

صنوبر الطاف نے اپنا تخلیقی سفر بطور افسانہ نگار شروع کیا مگر بعد میں انہوں نے نظم کی دنیا میں قدم رکھا۔ مذکورہ کتاب میں انہوں نے عصری، حسی اور داخلی تجربات کو کامیابی کے ساتھ نظموں کا حصہ بنایا ہے۔ ان کی نظموں میں موت، کمرہ اور شہر بطور علامت جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تمام علامتیں نئی معنویت کے ساتھ نظموں میں اپنی جگہ بناتی ہیں۔

صنوبر الطاف نے اپنے داخل کو بیان کرنے کے لیے خارج کا سہارا لیا ہے۔ وہ پہلے معروضی سطح پر چیزوں سے ہم کلام ہوتی ہیں اور اس کے بعد داخلی کیفیات کا اظہار کرتے ہوئے نظم کا خوبصورتی سے انجام کرتی ہیں۔ ان کی نظموں میں تنہائی اور اکیلے پن کا احساس منفرد طریقے سے نمایاں ہوا ہے، جس میں Displacement کی جھلک بھی ملتی ہے۔

”میری میز پر کوئی گلوب نہیں ہے
اور میرا کوئی مکان نہیں ہے
میں اپنی تاریخ سے بے خبر ہوں
میرا کوئی زمان بھی نہیں ”
(میں، وہ اور تاریخ)

ان کی نظموں میں ’کمرہ‘ کی علامت بے گھری کے ساتھ کسی پناہ کا حوالہ بھی بنتی ہے۔ وہ کمرے کو اپنی کل کائنات سمجھتی ہیں۔ یوں کمرہ بیک وقت بے گھری اور پناہ گاہ کے طور پر ان کی نظموں کا حصہ بنتا ہے۔ جبکہ یہی کمرہ یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ اس زمان و مکاں کے وسیع سلسلے میں انسان کی کیا حیثیت ہے اور وہ کتنی جلدی بے نشاں ہو سکتا ہے۔

”اتنی بڑی کائنات میں
میرے پاس ایک کمرہ ہے
اور تم ہو ”
(A Room Of One ’s Own)

”بے جنم تعبیروں کا اسقاط“ میں انہوں نے Stereotype عورت کو پیش کیا ہے۔ جس میں ایک ایسی عورت کی کتھا بیان کی گئی ہے جو صبح سے شام تک کسی کے تابع ہے۔ اس کے کسی بھی عمل میں اپنی مرضی شامل نہیں ؛ اور وہ کسی ’شے‘ کا روپ دھار چکی ہے۔ جبکہ اس کی شامیں بے لذت ہو چکی ہیں۔ یہ عورت مشرقی رہن سہن کی عکاس ہے

”چیونٹیوں کی طرح رات دن مصروف رہتی ہیں
ایک بے کار اور اذیت ناک مشقت میں
جب ان کے دن کو دیمک چاٹ جاتی ہے
وہ شام ہوتے ہی جوان ہونے لگتی ہیں
اور سورج ان کی کوکھ میں غروب ہوجاتا ہے
وہ سر بسجود ہونے لگتی ہیں
طویل شب بیداری کے لیے
بے لذت عبادتوں کے لیے
اپنے خداؤں کے محرابوں میں ”
(بے جنم تعبیروں کا اسقاط)

صنوبر الطاف نے Feminist رویہ کسی شور شرابے کے ساتھ بیان نہیں کیا۔ ان کی نظموں میں عورت کا دکھ دھیمے انداز میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس شائستگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے ذریعے عورت کے اجتماعی المیے کو نظم کرتی ہیں۔ ”پالک کی آپ بیتی“ اس کی روش مثال ہے، جس میں شاعرہ نے دو بنیادی سوالات قائم کرنے کی کوشش کی ہے کہ عورت کے بغیر کوئی تصویر مکمل نہیں مگر اس کے باوجود اسے مرکزیت کیوں حاصل نہیں؟ اور کیا سماج میں عورت کی پہچان بطور مفتوحہ ہی رہے گی؟

”میرے بنا مصوروں کے رنگ
اور گیتوں کے انگ اتنے پھیکے کیوں ہیں؟!
تو پھر بتاؤ
سہاگ کی رات
تم فاتح اور میں مفتوح کیوں ہیں ”
(پالک کی آپ بیتی)

تخلیق کار تنہائی کے احساس کو ہمیشہ رومانس کے طور پر لیتا ہے۔ یہ تنہائی خود ساختہ نہیں ہوتی بلکہ شہروں کی مصروف زندگی یا کسی ناسٹلجیا کا نتیجہ ہوتی ہے۔ صنوبر الطاف نے بھی فرد کی بیگانگت اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے عہد کا نوحہ لکھا ہے۔ ہم اپنے شب و روز بے پناہ مصروفیت میں گزار دیتے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ہمارے ہاتھ لا حاصلی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ”کہانی کی تیسری“ ، ”آوارہ خواب“ اور ”تنہائی کا پورٹریٹ“ جیسی نظمیں انہیں تجربات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ شاعرہ نے ”میری دنیا گول نہیں“ میں اس بیگانگی کو سوشل میڈیائی زندگی کے ساتھ ہم آمیز کر دیا ہے۔ یہ نظم نہ صرف ہمارے کھوکھلے جذبات کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ اس احساس کو بھی گرفت میں لے رہی ہے جو ایک نئے المیے کو جنم دے رہا ہے۔

”لیپ ٹاپ کے اندر کی دنیا
گول ہے
جس میں بڑی انگلیوں اور چھوٹی آنکھوں والے بونے
اچھلتے کودتے ہیں
ان کے بڑے بڑے سر
خالی ڈھول ہیں
یہ ڈگڈگی لیے
کمنٹ، لائک اور شیئر مانگنے پھرتے ہیں ”
(میری دنیا گول نہیں )

صنوبر الطاف کی نظموں میں محبت کے تجربات بھی ملتے ہیں۔ وہ محبت کے جذبے کو اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کرتی ہیں۔ یہ فطری عمل ہے کہ وصل کے لمحات ہمیشہ مختصر ہوتے ہیں۔ محبت کا جذبہ ہی ایسا ہے کہ ہم بے پناہ اپنائیت حاصل کرنے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوتے۔ محبت کرنے والے دو لوگ ایک دوسرے کے اندر قید رہنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے تعلق میں ہمیشگی کا تصور زندہ رہے۔

”کبھی کبھی
تم مجھ میں قطرہ قطرہ گرتے رہتے ہو
بوندیں بن کر میری زمین میں جذب ہوتے رہتے ہو
لیکن میری پیاس نہیں بجھتی ”
(کبھی کبھی)

”کائنات کے بیک یارڈ سے“ کی بیشتر نظموں میں ’موت‘ بطور علامت استعمال ہوئی ہے۔ کسی بھی Universal شے کا حتمی معنی یا تصور تو ہر جگہ ایک ہی ہوتا ہے مگر اس کو پیش کرنے کا انداز مختلف ضرور ہو سکتا ہے۔ موت، زندگی کو بھی پیش کرتی ہے۔ یعنی دونوں کا تصور ایک دوسرے کے ساتھ چلتا ہے۔ کسی اپنے کی موت انسان کی زندگی میں اداسی بھر دیتی ہے۔ موت کی وجہ سے زندگی کی کایا پلٹ ہونا، اصل علامت ہے۔ ”کافور سے مہکی ایک شام کے نام“ ، ”جدائی نوحے لکھتی ہے“ اور ”پچھلے صفحے کی تحریر کا عکس“ موت کو بطور علامت ظاہر کرتی ہیں۔

”تمہارے جانے کا نوحہ
ساری کائنات نے
میرے ساتھ لکھا ہے
ہم سب فراق نصیب ہجر کا موسم اوڑھے
ایک دوسرے سے پیٹھ موڑے بیٹھے ہیں
جدائی کے پتے بالوں میں الجھے ہیں
اور چائے کی پیالی پر
موت تہہ جمائے بیٹھی ہے
ہماری زبانوں پر برف جمی ہے
اور آنکھیں مرجھا چکی ہیں ”
(جدائی نوحے لکھتی ہے )
”تمہارے کتبے کو اپنے دوپٹے سے پونچھا
اور گیلی مٹی پر
واپسی کے نشان بنانے ”
(کافور سے مہکی ایک شام کے نام)

”کائنات کے بیک یارڈ سے“ کی نظمیں جدید انسان کی محبت، تنہائی اور جذباتی شدت کو بیان کرتی ہیں۔ شاعرہ نے بے رحم سماج میں پنپنے والی حسیت کو کرختگی سے بیان کرنے کے بجائے دھیما انداز اختیار کیا ہے۔ ان تمام نظموں میں Mature Images اختراع کیے گئے ہیں اور شاعرہ بخوبی جانتی ہے کہ نظم کو حشو و زوائد سے کس طرح پاک رکھنا ہے۔ اگر آپ عصر حاضر میں کہی جانے والی غزل کی موضوعاتی یکسانیت اور نئی نظم کے نام پر گھڑے جانے والے خوفناک امیجز سے گھبرا چکے ہیں ؛ تو امکانات سے بھرپور نظموں میں پوشیدہ کائنات آپ کی منتظر ہے۔

نوٹ: نظموں کی اس عمدہ کتاب کو مہر در پبلی کیشن، کوئٹہ نے شایع کیا ہے۔ قیمت صرف تین سو روپیہ ہے۔ کتاب کے حصول کے لیے اس نمبر پر رابطہ کیجئے :

0333-7832323


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments