زباں کے واسطے تالے خرید لو!


موجودہ متشددانہ اور انتہا پسندانہ دور میں سیاست پہ کچھ تحریر کرنا، ایک جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ سیاست پہ بات کرنے کی بجائے سماجی مسائل پر لکھتا رہوں لیکن کبھی کبھار زبان کے چٹخارے اور ضمیر کی آواز پر انگلیوں کو خارش ہوتی ہے تو سیاست کے میدان کارزار میں کود پڑتا ہوں۔ مستقبل کی صرف پیش گوئی تو کی جا سکتی ہے لیکن اس کی صد فیصد بات کوئی بھی نہیں کر سکتا اس لئے آج سوچا کہ ایسا کچھ لکھوں جو شاید مستقبل میں سچ ثابت ہو سکے۔

کافی عرصے سے بساط سیاست کی چالوں کو سمجھنے اور اپنے علاقے یعنی بہاولپور کے خواب خرگوش کے مزے لینے والے سیاست کے کارپردازوں کے کارناموں کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد میں آج اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ترقی پذیر ممالک کی سیاست کا محور و مرکز ذاتی مفادات کیس وا کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھے وطن عزیز میں سیاست کی ڈوریاں ہلانے والوں سے ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ وہ آزادی سے لے کر آج تک کوئی بھی ایسا قومی رہنما سامنے نہیں لا سکے جو حقیقی معانی میں وطن عزیز کا بہی خواہ اور مربی بننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

گزشتہ عشرے سے پبلک کے اذہان کی سیاسی آب یاری کے لئے ایک نئی تحریک کو جنم دیا گیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پبلک میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ مجھے 2006 ء کے وہ دن یاد ہیں جب سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نیازی کو پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے تشدد کیا گیا تو میری اس گناہگار آنکھوں نے دوسرے دن دیکھا کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے گڑھ پنجاب یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ کی گیلریوں اور کاریڈور میں نیازی کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طلبہ کا ایک جم غفیر موجود تھا۔

میں انگشت بدنداں کھڑا سوچ رہا تھا کہ مستقبل قریب میں پبلک بھی اس کے ساتھ ہوں گے کیونکہ یہ ایک صادق اور امین لیڈر ہے، یہ وہ رہنما ہے جو غریب پبلک کے حقوق کی بات کرتا ہے، یہی ہے وہ شخص جو سیاست کے بڑے بڑے بت پاش پاش کر سکتا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور کنٹینر پر کھڑے ہو کر گرجنے برسنے والے عمران خان کے گرد مفاد پرست عناصر کا شکنجہ تنگ ہوتا گیا، ڈی چوک پہ دھرنے اور ایمپائر کی انگلی کی بات ہوئی تو میرے ذہن میں ایک مثالی رہنما کی تصویر کچھ کچھ دھندلی پڑنے لگی لیکن پھر بھی دماغ میں وسوسوں کے کلبلاتے سانپوں کو خاموش کروانے کی خاطر میں بھی دوسروں کی طرح ضمیر کو تھپکیاں دے کر سلاتا ہوا، اپنا سفر جاری رکھا۔

پانامہ لیکس، توہین رسالت جیسے سکینڈلز کا سامنا کرنے کے بعد نواز شریف کو یکا و تنہا کر کے کھڑا کر دیا گیا اور عمران خان کے ارد گرد الیکٹیبلز کے نام پر گرگ باراں دیدہ قسم کے سیاست دانوں کا ایک جم غفیر جمع کر دیا گیا۔ شیروانی زیب تن کرنے کے شوق میں میرے کپتان کو اپنے پرانے ورکرز اور رہنماؤں کا خیال تک نہیں آیا کیونکہ میرے خیال میں جب انسان عروج کی سیڑھیاں طے کر کے اوپر پہنچتا ہے تو اس کو اس مقام تک پہنچانے والے ہاتھ اکثر بھول جاتے ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بھر پور ساتھ کے بعد بالآخر تیس سالہ چوروں کو رخصت کر دیا گیا۔

تحریک انصاف کے سیاسی راسخ العقیدہ احباب کو مجھ سے شکوہ ہو گا کہ میں ان کے ذہن میں تشکیل شدہ سیاست کا ایک بہت بڑا بت پاش پاش کرنے کے چکر میں ہوں لیکن کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ کپتان کو سامنے لانے کے لئے سب سے پہلے سوشل میڈیا کا سہارا ہی کیوں لیا گیا؟ میرے ذاتی خیال میں ہمارے ملک کی سیاست کی ڈوریاں ہلانے والوں کو اس دور میں یہ بخوبی علم تھا کہ مستقبل قریب میں سوشل میڈیا کسی بھی ملک میں ہلچل مچانے کے لئے ایک اہم ہتھیار ہو گا۔

اب ذرا چند سوالات کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ پہلی بات کہ اب ہماری بھولی بھالی پبلک کی زبانیں مرشد سے پھسلتی ہوئی اس صدی کے پیامبر تک پہنچ چکی ہیں۔ اگر مجھے کوئی یہ دلیل دے کر مطمئن کرے کہ رانا ثنا االلہ نے یا فلاں فلاں نے بھی تو ایسا کہا تھا تو میں نے کب کہا کہ وہ صادق اور امین ہیں لیکن مجھے ایک بات بتائیں کہ ایک ایسی قوم جس کو تیس سال کے بعد اپنے رہنماؤں کے بارے میں خبر ہوتی ہے کہ یہ چور ہیں، ایسی بھولی بھالی پبلک کو صرف پانچ سال اقتدار کا جھولا جھولنے والے عمران خان کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ بھی چوروں کی صف میں کھڑا ہے؟

مجھ سے ایک محفل میں کسی دوست نے کہا کہ آپ یہ بات تو تسلیم کریں کہ عمران خان چور نہیں ہے، میں نے جواب میں اسے کہا کہ سیاست میں چور اس کو کہتے ہیں جس کے پاس کوئی اختیار ہو اور وہ اس کا ناجائز استعمال کرے، پہلے مجھے یہ بتائیں کہ وزیر اعظم بننے سے قبل عمران خان کون سے عہدے پر برا جمان رہا ہے کہ اس عہدے پر رہتے ہوئے بھی وہ صادق اور امین رہا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاسی کیچڑ میں کسی کا سفید لباس گندا ہونے سے کبھی بھی نہیں بچ سکتا۔

دوسرا سوال اکثر احباب یہ کرتے ہیں کہ اس کے ماتحت اور ساتھ رہنے والے تو چور اور کرپٹ ہیں لیکن نیازی خود چور نہیں تو کیا چور کا یار گرہ کٹ نہیں ہو گا۔ اگر میں ایک ادارے کا سربراہ ہوں اور میری چھتر چھایا میں کوئی کرپشن ہو رہی ہو تو میں بھی اس میں برابر کا شریک ہی ہوں گا نہ کہ میں صادق اور امین ہو کر معاف کر دیا جاؤں گا۔ میرے ذہن میں آج بھی حکیم سعید کے کہے ہوئے الفاظ گونج رہے ہیں کہ مستقبل میں کسی کھلاڑی کو ورلڈ کپ جتوایا جائے گا اور پھر سے سیاست میں لا کر وزیر اعظم کی کی کرسی پر بٹھایا جائے گا، آج ہم سب کی آنکھوں کے سامنے سیاست کے گدی نشینوں نے ایک فرد کو پہلے تو پوری قوم پر ساڑھے تین سال کے لئے مسلط کیا، اس کے بعد اس کی ناقص کارکردگی کا داغ مٹانے کے لئے رات کو بارہ بجے عدالت عالیہ کے دروازے کھلوانے کے ساتھ ساتھ اس کو امریکہ دشمن ظاہر کیا گیا اور اس کے ہاتھ میں ایک نعرہ پکڑا دیا گیا کہ۔

”ہم کوئی غلام ہیں“ ، مجھے اس سوال کا جواب کوئی صاحب عقل دے گا کہ ایک ایسی قوم جس کی زبان، رسوم و رواج اور لباس بدیسی ہو وہ غلام نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے جب غیر ملکی کارخانوں میں تیار کردہ جوتے اور کپڑے پہن کر ، میکڈونلڈ اور کے ایف سی کا کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے ایک خاتون کسی جلسے میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کیا ہم غلام ہیں؟ ایک ایسی قوم جو اپنے ماضی کو بھلا کر غیر ملکی چینلز کے ڈرامے اور فیشن شوز کے مطابق اپنے لباس تیار کرتی ہو وہ غلام نہیں ہے تو کیا ہے؟

ایک ایسی قوم جو ایٹمی کلب کی رکن ہے جس کے پاس ایٹم بم جیسا اہم ہتھیار ہے اور وہ اپنے کارخانوں میں آج تک ایک کار بھی نہیں بنا سکی، جس کی معیشت کا پہیہ غیر ملکی امداد اور قرضے سے چلتا ہے، وہ غلام نہیں تو کیا ہے؟ ہم میں سے کسی نے بھی یہ سوچنے کی کوشش نہیں کہ اب خط کی بجائے ای۔ میل کی بات کی جاتی یا سفیر کے پیغام لانے کی بات کی جاتی تو میں بھی اس سچ کو مان لیتا ہے۔ انکل سام یعنی امریکہ کے پاس سیٹیلائٹ فون نہیں ہے یا ہمارے ملک کے صاحب اختیار لوگوں کی ہاٹ لائن کاٹ دی گئی ہے کہ امریکہ کو عمران خان کو دھمکانے کے لئے ایک خط لکھنا پڑا۔

قرآن مجید اور اسلام نے ہمیشہ ہمیں ”تفکرو یعنی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب بھی کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے لیکن مجھے آج تک اس بات پہ حیرت ہے کہ گفتار کے اس غازی کے پیچھے کئی صاحب علم حضرات اس لئے کھڑے ہیں کیونکہ سابقہ حکمران چور نکلے لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جب یہ چوری کر رہے تھے تو اس وقت کیا ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے یا ہماری زبانیں گنگ تھیں۔ ہمیں بروقت کیوں خبر نہیں ہوئی تو کیا کوئی اس وقت کہہ سکتا ہے کہ ہم اب ایک ایسے رہنما کے پیچھے کھڑے ہیں جو تیس سال کے بعد چور ثابت نہیں ہو گا۔ ذرا سوچیں کہ اگر موجودہ رہنماؤں کا بھی ہمیں تیس سال کے بعد چور ہونے کا پتہ چلے تو ہماری آنے والی نسل کا کیا ہو گا؟

کچھ دن پہلے مجھے ایک دوست کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا، منزل پر پہنچ کر سستانے بیٹھے تو سیاسی گفتگو چل نکلی، چند لمحات کے بعد ایسا موڑ آیا کہ مجھے یوں لگنے لگا کہ ابھی ہم دونوں لٹھم لٹھا ہو جائیں گے لیکن مجھے اس دوست کے تدبر کی داد دینا پڑے گی کہ اس نے جلدی سے سر درد اور بلڈ پریشر کی گولیاں منگوا کر کھائیں اور پرسکون ہونے میں اسے ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگا۔ واپسی کے سفر میں، از راہ تفنن میں نے دریافت کیا کہ افطاری اور تراویح کے بعد کیا معمولات ہیں تو کہنے لگے سحری تک ٹی وی ٹاک شوز دیکھتا ہوں، دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ موصوف سحری تک مخصوص سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنے والے ٹی وی چینلز کے تمام ٹاک شوز خشوع و خضوع سے دیکھتے ہیں۔

وہ دن اور آج کا دن میں نے کبھی بھی اس سے بحث کرنے کی قسم کھا لی کہ یہ نہ ہو کہ میں بھی شہیدوں میں شمار ہو جاؤں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ ماضی کے تجربات اقوام عالم کے لئے مستقل کے اندھیروں کو ختم کرنے والی مشعل کی طرح ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی سے سبق سیکھتی اور اپنی غلطیوں کو سدھار کر درست سمت میں گامزن ہوتی ہیں نہ کہ سوشل میڈیا کی نقل شدہ تحریروں سے اپنے اذہان کی آب یاری کرتی ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسی قوم کی تشکیل کریں جو سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی طور پر دیدہ و بینا ہو نہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ہوئے، لاف زنی کرنے والے سیاسی مداریوں کے شعبدوں سے متاثر ہوتی ہو۔

٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments