سرسیّد احمد خاں کے قومی احسانات


سیّد حسن ریاض کی نظر میں ”مسلمانوں میں اُس وقت صرف ایک سرسیّد احمد خاں تھے جو ہندوؤں اور اَنگریزوں کی چالوں کو سمجھ رہے تھے جبکہ پوری قوم انگریزی زبان سے بےبہرہ تھی۔ مسلمان انگریز اور ہندوؤں سے متنفر، عظمتِ رفتہ کے لیے سوگوار، نان شبینہ کے لیے محتاج، قرضوں میں دبے ہوئے تھے۔ سرسیّد احمد خاں میونسپل اور ڈسٹرکٹ کونسلوں میں مخلوط انتخابات کے نتائج دیکھ چکے تھے جن میں مسلم عمائدین عموماً ناکام ہوئے تھے۔ جب کانگریس نے کونسلوں میں مخلوط انتخابات اور اَعلیٰ ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحانات کا مطالبہ کیا، تو سرسیّد اُس کی طرف متوجہ ہوئے اور اُنہوں نے نیابتی انتخابات اور مقابلے کے امتحانات مسلمانوں کے لیے غیرموزوں اور مضر قرار دَے دیے۔ اِس سلسلے میں ایک واقعے کا تذکرہ بھی کیا کہ ابھی کلکتے میں ایک بڑے بزرگ مسلمان مجھ سے ملے اور اُنہوں نے کہا غضب ہو گیا۔ ہمارے شہر میں (میونسپل کونسل کے لیے) اٹھارہ مسلم ممبر منتخب ہونے والے تھے۔ کوئی منتخب نہیں ہوا اَور سب ہندو منتخب ہو گئے ہیں۔ یہی حال سب شہروں کا ہے۔ علی گڑھ میں اگر خاص قاعدہ مقرر نہ کیا جاتا، تو کوئی مسلمان یہاں تک کہ ہمارے دوست خواجہ محمد یوسف بھی جو نہایت معزز ہیں، بمشکل اپنے منتخب ہونے کے لیے ووٹ حاصل کر سکتے تھے۔
سرسیّد احمد خاں نے ایک متبادل اور اِنصاف پر مبنی نظام تجویز کیا جس کی رو سے وائسرائے کی کونسل میں ایک معین تعداد سے ہندو اَور مسلمان ہوں اور ہندو ممبر کو ہندو منتخب کریں اور مسلمان ممبر کو مسلمان اور اُن کی تعداد مساوی ہو۔ انتخابات کے بارے میں اُن کی تجویز جداگانہ انتخابات کے نام سے مشہور ہوئی جسے مسلم کمیونٹی نے بہت پسند کیا۔ مساوات کا نظریہ قائدِاعظم نے 1946 میں عبوری حکومت کے قیام کے سلسلے میں پیش کیا تھا۔ شملہ ڈیپوٹیشن سے بہت پہلے سرسیّد نے اِس موضوع پر مسلم قائدین سے گفتگو کر لی تھی۔ شملہ ڈیپوٹیشن 1905 میں وائسرائے منٹو سے ملا جس میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کا اصول طے پا گیا تھا۔ اِس اعتبار سے سرسیّد نے بےپناہ دُوربینی، سیاسی بصیرت اور فراست کا عملی مظاہرہ کیا تھا۔ اُنہیں 1867 میں ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ ہندو اَور مسلمان سیاسی عمل میں اکٹھے نہیں چل سکتے۔ اُس سال بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوؤں کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو، تمام سرکاری عدالتوں سے اُردو زبان اور فارسی رسم الخط کے ختم کرانے کی کوشش کی جائے اور اُس کے بجائے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے۔ سرسیّد کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب ہندو اَور مسلمان کا بحیثیت ایک قوم ساتھ چلنا محال ہے۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ صدیوں ایک جگہ رہنے سے اُن کے درمیان دو باتوں پر اتحاد ہو گیا تھا۔ اُن میں سب سے زیادہ زبان کا اتحاد تھا۔ ہندو اُسے توڑنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ فرانس کے مشہور مستشرق جنہوں نے اُردو زبان کی تحقیق میں اپنی عمر صَرف کی تھی، اِس مسئلے کے بارے میں ایک لیکچر میں کہتے ہیں: ہندو تعصب کی وجہ سے ہر اُس معاملے میں مزاحم ہوئے ہیں جو اُنہیں مسلمانوں کی حکومت یاد دِلاتا ہے۔
ہندوؤں نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کانگریس بنائی۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اُس میں شامل ہو جائیں تاکہ وہ اُن کے غلام بنے رہیں۔ سرسیّد نے کانگریس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور مسلمانوں کو اُس میں شرکت سے روکا۔ اب آپ کانگریسی قیادت کا اصل چہرہ دَیکھیے جو سرسیّد پر انگریزوں کے حاشیہ بردار اور خوشامدی ہونے کا الزام لگاتی تھی، جبکہ وہ خود اَنگریزوں کی تعریفوں کے پُل باندھتی اور اُن کی وفاداری کا دم بھرتے نہیں تھکتی تھی۔ کانگریس کے پہلے اجلاس کے صدر مسٹر بونرجی تھے۔ اُنہوں نے 1885 کے خطبۂ صدارت میں فرمایا: ”حکومتِ برطانیہ کا پورا پورا اَور مستقل خیرخواہ مجھ سے زیادہ اور کوئی نہیں۔” دادا بھائی نوروجی نے دوسرے سال کے خطبۂ صدارت میں کہا: ”ہمیں مردوں کی طرح بولنا اور اِعلان کرنا چاہیے کہ ہم اپنی ریڑھ کی ہڈی تک انگریزوں کے وفادار ہیں۔ ہم اُن فوائد کو سمجھتے ہیں جو انگریزی حکومت ہمیں عنایت کیے ہوئے ہے۔ ہم اُس تعلیم کی دل سے قدر کرتے ہیں جو ہمیں دی گئی ہے اور اُس نئی روشنی کو جو ہم پر ڈالی گئی ہے۔ ہمارے اندھیرے میں اُس نے اجالا کر دیا ہے۔”
ہماری وفاداری کا محور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا۔ ہاؤس آف لارڈز میں لارڈ کراس کے انڈیا ریفارمز بل پر بحث کے دوران ایک کے بعد ایک کتنے ہی وائسرائے تھے جنہوں نے ہمارے پُرامن مقاصد اور کوششوں کی پُرزور شہادت دی۔ دی ہسٹری آف دی کانگریس کے مصنّف مسٹر رامیا لکھتے ہیں کہ ابتدائی زمانے میں کانگریس کو اپنی وفاداری کے مظاہرے کرنے کا عشق تھا۔
اِس کے برعکس سرسیّد مسلمانوں کو انگریزوں کے عتاب سے بچانے کے لیے ”اسبابِ بغاوت” کے عنوان سے مضامین لکھتے رہے اور ایک وقار کے ساتھ مسلمانوں اور اَنگریزوں کے مابین مفاہمت پیدا کرنے میں ہمہ تن مصروف رہے۔ مولانا حالیؔ نے سرسیّد کی شخصیت اور کارناموں کے بارے میں دو جلدوں میں ‘حیاتِ جاوید’ مرتب کی تھی۔ اُسے پڑھ کر اُن کی شخصیت کے حیران کن پہلو سامنے آتے ہیں، مگر اُن کے مذہبی عقائد عوام و خواص میں تنقید کا موضوع بنے رہے، تاہم سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی یہ رائے نہایت دقیع معلوم ہوتی ہے کہ قومی شخصیت کے طور پر اُن کی بڑی خدمات ہیں جنہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھنا اور اُن کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہنا چاہیے۔
سرسیّد کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کی بہت بڑی شکست کو کچھ اِس طرح سنبھالا کہ انگریز مسلمانوں کا برِصغیر میں اُس طرح صفایا نہیں کر سکے جس طرح اندلس میں ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ اُنہوں نے ہماری صحافت کو جدید اسلوب عطا کیا جس نے آگے چل کر ذہنی انقلاب پیدا کیا۔ اُنہی کی کوششوں سے مسلمان جدید علوم کی طرف متوجہ ہوئے اور وَقت کے ساتھ ساتھ نظم و نسق سنبھالنے کے قابل ہوئے۔ سرسیّد نے سائنس اور تعلیم کے ادارے قائم کیے جن میں علی گڑھ کالج قومی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اُنہوں نے جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کر کے آنے والی سیاست میں مسلم قومیت کی بنیاد رَکھ دی تھی۔ (جاری ہے)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments