قدرتی آفتوں میں ریلیف، رسپانس اور ہماری غلطیاں


سنہ 2010 میں کمبوڈیا جانا ہوا۔ دارالحکومت فنوم پن پہنچے ابھی گھنٹا ہی گزرا تھا اور ہوٹل کے راستے میں تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اور لمحوں میں جل تھل ہو گیا۔ لیکن جو بات حیران کن تھی وہ یہ کہ سڑک پر موجود ہر موٹر سائیکل سوار، سائیکل گاڑی، بائیسکل والے اور پیدل چلنے والے نے رنگ برنگے پیرہن اوڑھ لئے۔ اتنی تیز بارش میں نہ کوئی رکا، نہ راستے میں سایہ دار جگہ میں پناہ لینے کی دوڑ۔ نہ سڑک پر ٹریفک ہجوم۔

سب یونہی گامزن منزل رہے، جیسے بارش سے پہلے تھے۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ ہر آدمی جو گھر سے باہر، سڑک پر ہے۔ اس کی سکوٹی کے ڈبے یا کندھے سے لٹکتے بستے میں ایک پولیتھین سے بنا کوٹ ہے۔ جو جیسے ہی اور جہاں بھی بارش ہوتی ہے، جھٹ سے ہر ایک کی زنبیل سے باہر آتا ہے اور بھیگتے بدنوں اور برستی بارش کے راستے دیوار بن جاتا ہے اور زندگی کا چلن جاری رہتا ہے۔

جاپان دنیا کے ان ممالک میں آتا ہے جنہیں زلزلوں سے اکثر واسطہ پڑتا ہے۔ جسم میں سانس لینے کی طرح، زلزلے بھی جاپانیوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ جونہی زمین ہلنا شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے ہی سب کے سمارٹ فونز آنے والی مصیبت کی خبریں دینے لگتے ہیں۔ ششکان (بلٹ ٹرینز) چلتے چلتے رک جاتی ہیں۔ مسلسل تربیت تعلیم نے ہر شہری کو اس قابل بنایا ہے کہ جھٹکوں کو محسوس کرتے ساتھ کیا کرنا ہے۔ سروائیول کٹ ہر گھر کا حصہ ہے۔ ڈسچارج ٹنل کی وجہ سے کہیں پانی آفت کے وقت جمع نہیں ہوتا۔ اور یہی چیزیں آئی یا آنے والی آفت کو وبال نہیں بننے دیتیں۔

پوری دنیا اب آفات کے انتظامی سرکل سے آگاہ ہے۔ جو کہ تیاری، رسپانس، بحالی اور تدارک کے بنیادی ستونوں پر کھڑا ہے۔ جس کے بنیادی کردار حکومت، غیر حکومتی ادارے اور عوام ہوتے ہیں۔ جس میں مرکزی ذمہ داری حکومتی مشینری کی ہے۔ پرہیز علاج سے بہتر ہے والے فارمولے پر تیاری والے مرحلے کا فلسفہ ہے۔ جو کہ ہم نے ابھی تک کی ملکی زندگی میں نہیں سیکھا اور نہ ہی نیت سے اس پر عمل درآمد کیا۔ اس لئے پلوں کے نیچے سے پانی گزر کر ہمارے لوگوں کی جان، مال، اولاد، اور خوابوں کو نگل گیا۔

اب ہم دوسرے مرحلے یعنی ریلیف میں ہیں جو کہ عموماً مہینے دو مہینے تک محدود ہوتا ہے۔ یا جب تک جو بچے ہیں وہ سانسوں کے قائم ہونے کا یقین کر لیں۔ سیلاب ہو تو پانی خشک اور اتر کر زمینوں کو چھوڑ دے۔ زلزلہ ہو تو آفٹر شاکس ختم ہو جائیں۔ آتش فشاں پھٹا ہے تو لاوا بہنا بند ہو جائے۔ آگ بھڑکی ہے تو شعلے ٹھنڈے ہو جائیں تاکہ بحالی کی طرف پیش قدمی ہو۔ منظم ممالک میں شاید اس سے بھی کم وقت لگتا ہو۔ کیونکہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے دائرے کے سبھی سہولت کار اپنی اپنی جگہوں پر فعال اور ذمہ دار ہوتے ہیں۔

اب آپ ہماری ریلیف کی کہانی سنئے۔ نام نہاد وزیر اعظم، ان کے کارندے، مخالف پارٹیوں کے نمائندے سب میڈیا میں رہنے کو یا تو تصویر بناؤ، تصویر کھنچواؤ مہم میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یا یہ مشہوری کروانے میں کہ کس نے کتنے فنڈز جمع کیے ۔ اللہ سلامت رکھیں ان صاف دلوں کو جو انفرادی کوششوں سے لوگوں سے سامان اور پیسہ اکٹھا کر کے متاثرین کی مدد کرنے کو کوشاں ہیں۔ رفاہی ادارے اپنی جگہ لگے ہوئے ہیں۔ ٹرک کے ٹرک بھر کے عازم سفر ہیں۔

کسی کا دعویٰ ہے کہ ایک دن میں دس لاکھ جمع کر لئے۔ کوئی تین گھنٹوں میں پانچ سو کروڑ منگوا لیتا ہے۔ کسی کے پاس رضا کاروں کا ڈھیر پہنچ گیا ہے۔ کوئی گلی گلی، گھر گھر جا کر سیلاب زدگان کے لئے معاونت کی درخواست کر رہا ہے۔ لیکن جون سے آنے والے سیلاب کا ابھی تک ریلیف کا مرحلہ ہی دشواریوں کا شکار ہے۔ کیوں؟ آئیے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

کل کتنا جانی، مالی نقصان ہوا، اس کی موٹی موٹی تفصیل حکومتی اداروں کو جاری کرنی ہوتی ہے۔

ریلیف میں علاقوں کے موسم، مرد، عورت اور بچوں کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر امدادی سامان کی فہرستیں مختلف ریلیف مددگاروں میں تقسیم کرنا بھی حکومتی ذمہ داری ہے۔

درکار بڑی مشینری یعنی ہیلی کاپٹرز، ڈسچارج پمپس، اسکولوں اور اسی طرح کی جگہوں کو متاثرین کی فوری قیام کے لئے خالی کروانا بھی حکومت کی طرف سے ہوتا ہے۔

سڑک کنارے آباد اور پہنچ سے دور افتادہ بستیوں کی بابت نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔

مختلف ملکی و غیرملکی این جی اوز، پرائیویٹ اداروں اور افراد کو ان علاقوں کی سو فیصد کوریج کے لئے رہنمائی کرنا حکومت کا کام ہے۔

امدادی سامان کے ٹرکوں کی بحفاظت منزل تک پہنچ کے لئے حفاظتی انتظامات کرنا بھی آپ کے انتظامی اداروں کا فنکشن ہے۔

جو کوڑا کرکٹ اس دوران اکٹھا ہو گا، اس کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔ پہلے سے طے کرنا ہو گا۔

اگر یہ سب نہیں ہے تو ریلیف کا سامان لٹے گا بھی اور حقدار تک شاید بروقت پہنچے گا بھی نہیں۔ جہاں سڑک جاتی ہے وہاں بار بار سامان پہنچے گا اور جہاں سڑک نہیں وہاں آفت زدگان ہمیشہ منتظر ہی رہیں گے اور بے حسی پر روتے ملیں گے۔ موسم جلدی سے بدلتے جائیں گے اور جنوبی پنجاب میں لان اور گرمیوں کے کپڑے ہی ریلیف کے سامان سے نکلیں گے اور پہاڑوں پر شدید سردی کے دن ٹھٹھرتے گزر جائیں گے۔ ہر کوئی نیکی کمانے کے چکر میں اپنے سامان کے ساتھ ان جگہوں پر مزید ہجوم بنائیں گا۔ حاملہ خواتین، شیرخوار بچے اور بیمار مرد و بوڑھے یونہی سڑک پر رلتے رہیں گے۔ جوس کے ڈبے، بسکٹ کے ریپرز، پیمپرز کے ڈھیر، اڑتے شاپر سیلابی علاقوں میں سولڈ ویسٹ کا مزید گند بناتے رہیں گے۔

دریا کو کوزے میں بند کرتے ہیں۔ کہ ریلیف کی کارروائیاں اگر منظم اور ترتیب میں نہیں تو یہ ایک اور انسانی ڈیزاسٹر کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جس کو ہم پہلے بھی کئی بار بھگت چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments