! کہیں سے مجھے کھموں ملاح لادو


بلوچستان، سندھ، جنوبی پنجاب اور اب کے پی، سب ڈوب رہے ہیں۔ بے یاری و مددگاری اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ پورے پاکستان میں زندگی بوجھ لگنے لگی ہے۔ میں اپنے شہر گھوٹکی سے لے کر زیرو پوائنٹ بدین تک، سب کچھ پانی کے حوالے ہوتے ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ حکومتی لوگ، تنظیمیں اور ادارے شاید کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ امید کی کرن بنے ہوئے ہیں۔ پر کہیں بھی مجھے کھموں ملاح نظر نہیں آ رہا، اگر وہ مجھے کہیں پر مل جائے تو میں اپنے سندھ کے سب نمائندے، سینیٹر، حکمران، افسران اور بڑے لوگ کھموں پر وار دوں!

کھموں ملاح سے تعارف کے لئے ضروری ہے کہ میں جولائی 2003 میں آنے والے بارشی سیلاب کا ذکر کروں جس نے کوسٹل سندھ اور بلوچستان میں تباہی مچائی تھی، سینکڑوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے تھے، بدین جیسے اب ڈوبا ہوا ہے، اس طرح ہی ڈوبا تھا! یا شاید اس سے بھی زیادہ ڈوبا تھا۔ میں اور اسلام آباد دفتر سے آئے ہوئے اک دوست بارشوں کی تباہی کے چار دن بعد ، برطانیہ کے اک خیراتی ادارے آکسفیم (جی بی) کی طرف سے نقصانات کا اندازہ لگانے اور پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کی خیر خبر لینے بدین کے حاجی احمد ملاح گاؤں کے اک حصے کے قریب پہنچے تھے، وہ مصری ملاح، (بڑے گاؤں میں سے اک چھوٹا گاؤں ) تھا۔

مولوی احمد ملاح جن کے نام پے گاؤں ہے، شاید پاکستان کی سیاسی اور ادبی لکھی پڑھائی جانے والی تاریخ اتنا نہیں جانتی۔ وہ قائد اعظم محمد علی جناح سے عمر میں اک سال چھوٹے تھے۔ بہت غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ عالم دین شعلہ بیان مقرر، اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب تھے۔ وہ خلافت تحریک کا حصہ بھی رہے اور انگریز بہادر کے جیل میں مہمان بھی رہے ان کی بہت سی ادبی اور دینی خدمات ہیں لیکن سندھی زبان میں قرآن پاک کا منظوم ترجمہ ان کا اک ادبی معجزہ ہے۔ 1978 میں ان کے جانے کے نو سال بعد حکومت پاکستان کو یاد آیا کہ ان کو تمغہ حسن کارکردگی دیا جائے۔ وہ عمومی طور پے سندھ کے اور خصوصی طور پے جنوبی سندھ کے عوامی شاعر تھے۔ یہ سندھ کی مٹی کے خمیر کی خوبصورتی ہے کہ یہاں عالم دین عوامی شاعر بھی رہے ہیں۔

تو ہم اس حاجی احمد ملاح گاؤں کے نزدیک گاڑی پے پاؤں پاؤں چلتے پہنچے تھے۔ ایک آدھ کلو میٹر پیدل چل کے اک جگہ سیلاب سے ٹوٹے ہوئے لوگوں کے ساتھ نسبت خشک زمین کے ٹیلے پر بیٹھ گئے! یہاں ہماری ملاقات کھموں ملاح سے ہوئی وہ سب سے نمایاں تھے۔ کھموں کے کپڑے سادہ تھے لیکن دھلے ہوئے اور صاف! اور قمیص کے پاکٹ میں شاید ڈالر کا قلم تھا۔ ٹولی کی صورت میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں چرواہے، لکڑ ہارے، ہاری، مزدور اور مچھیرے شامل تھے۔

”کیسے ہیں آپ؟“ اس سوال کے جواب میں تقریباً مشترکہ جواب آیا ’اللہ کا شکر ہے، سائیں کے کرم ہیں اور ہم ٹھیک ہیں ”۔ جن کا سب کچھ پانی بہا کے لے گیا تھا اور ان سب میں شکر اور توکل کتنا تھا! (اور ہم اندر ہی اندر میں وہاں پہنچنے میں آنے والی تکلیف کو رو رہے تھے ) معلوم ہوا کہ اس علاقے کو ڈوبے ہوئے پانچ دن ہوچکے ہیں۔ ہمارا دوسرا سوال تھا کہ“ پانچ دن سے آپ گزارا کیسے کر رہے ہیں؟ کیا کھا پی رہے ہیں؟ ”(مقصد یہ تھا کہ آپ اب تک زندہ کیسے ہیں!) اور اس دفعہ بھی یک زبان جواب آیا“ اللہ سائیں اور کھموں کی مہربانی کی وجہ سے ہم زندہ ہیں ”کھموں ملاح اب تک خاموش تھا۔

“ کھموں نے ہم سب کو، اور دوسروں کو اپنی دکان سے کھانے پینے کا سارا سامان و سودا دیا اور وہ بھی بغیر کسی پیسے کے اور ہمارے پاس پیسے ہیں بھی نہیں! ”انہوں نے اپنی جوابی گفتگو جاری رکھی ہوئی تھی کھموں اب بھی خاموش تھا۔ اسلام آبادی دوست نے سوال پوچھا“ اگر آپ کے پاس پیسے آ گئے، آپ نے کچھ کمایا، تو کھموں کو اپنے پیسے واپس کریں گے؟”

“ بالکل! کھموں کو ہم دیں گے ہمیں پتا ہے کہ بارشوں سے دو دن پہلے اس نے ہزاروں کا سامان اپنی دکان میں ڈالا تھا! ”سب نے جواب میں کہا۔ اب کھموں ملاح بول پڑے“ میں ان سے پیسے کیوں لوں گا؟ احسان تو انہوں نے کیا کہ مجھ سے سامان لے۔ لیا میری دکان تو ہر حال ڈوبنی تھی اور سارا سامان ضائع ہوجانا تھا! ”کھموں کے اس جواب نے ہمیں لاجواب کر دیا اور ہم کوئی اور سوال کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ یہ کیسا انسان تھا جو اپنے آپ پر کسی اور کے ساتھ اپنے کیے احسان کا بوجھ بھی ڈالنا نہیں چاہتا تھا!

بس، اس سیلاب کے دوران، مجھے اس کھموں ملاح کی تلاش ہے جو اپنا سب کچھ اپنے لوگوں میں بانٹ کر احسان و ایثار کا بار بھی نہ لے! قحط الرجال شاید نہ ہو لیکن یہ جتنے بھی بڑے لوگ ہیں حقیقت میں وہ بونے ہیں! جیسے کسی کالم میں آج سے چالیس سال پہلے امر جلیل نے کسی بچے کی زبان میں لکھا تھا ”یہ سگرٹ کی ڈبیا پے جو کنگ سائز فلٹر لکھا ہوا ہوتا ہے، کیا بادشاہ اتنے ہوتے ہیں، اتنے چھوٹے؟“ آج کے دور کے ہمارے حاکم شاید اس کنگ سائز فلٹر سے بھی چھوٹے ہیں اور گر ان سب کے قد آپس میں جوڑ بھی لئے جائیں تب بھی وہ کھموں ملاح کے گھٹنوں تک نہیں پہنچیں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments