جلے دلوں کے پھپھولے


عورتیں پڑھی لکھی ہوں، ماڈرن ہوں اور سیاسی و سماجی شعور بھی رکھتی ہوں اور سوئے اتفاق سے ایک کمرے میں اکٹھی بیٹھی بھی ہوں تو پھر باتیں کچھ سیاسی، کچھ ملکی حالات حاضرہ پر ہونی تو ضروری ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ لعن طعن، کچھ تبروں، کچھ دکھ اور بے حسی کے اظہار کی صورتیں اندر سے پھوٹ کر ہونٹوں پر تو آتی ہیں۔ مسز کوثر جمال کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ صدر عارف کی بے حسی کا کیسے ماتم کرے۔ افسوس کس انتہا پر ہے یہ اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ منا رہا ہے اور ملک میں طوفانی صورت حال ہے۔ بندہ کیا کہے۔ یہی ناکہ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

ارے بندہ کچھ تو سوچتا ہے سالگرہ منا رہے ہو۔ مسز عفت علوی کو بھی تپ چڑھی ہوئی تھی۔ میں نے تو کوئی مدد نہیں کرنی ہے۔ نہ کوئی دھیلا پولا دینا ہے۔ جس قوم نے انہیں چنا ہے۔ وہی ان کا خون پی رہے ہیں اور یہ جذباتی اور احمق لوگ انہیں خوشی خوشی پلا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے۔

عثمان بزدار کا تعلق کہاں سے تھا؟ جنوبی پنجاب سے نا۔ اتنی پس ماندگی والا علاقہ۔ اس نے کچھ کیا اپنے لوگوں کے لیے۔ ہاں اپنی جائیدادیں ضرور بنائیں۔ بیچارے کو سوئمنگ کا اتنا شوق تھا۔ وہ آتی نہیں تھی۔ گورنر ہاؤس کے پول میں ہی فلوٹنگ ٹیوب سے چمٹا بیٹھا رہتا تھا۔ عفت علوی کی باتوں میں درد تھا، سچائی تھی، تڑپ تھی۔ وہ سوال کرتی تھی۔ کیوں نہیں اٹھے وہاں کے لوگ۔ انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں تھی۔ سڑکوں پر نکل آتے۔ اس کے گلے میں پھندا ڈال دیتے۔

مسز طاہرہ فاروق کو عمران کے احمقانہ بیانیوں پر شدید اعتراض تھا۔ یہ لیڈر ہے جو سر عام کہتا پھرتا ہے کہ نہ میں نے کسی کو مدد کے لیے کہنا ہے اور نہ میں نے خود کرنی ہے۔ یعنی آپ کا تعلق اپنے لوگوں سے صرف اقتدار کے ناتے سے ہی ہے۔ وہ اگر کرسی پر بیٹھا ہیں تو پھر کچھ ماڑا موٹا کرنے کی گنجائش ہے۔ وگرنہ ان پر ارضی و سماوی آفات ٹوٹ پڑیں آپ کی بلا سے۔ ہمیں تو زرداری بھی یاد ہے جو عین ایسی ہی مصیبت میں مبتلا قوم کو چھوڑ کر خود فرانس چلا گیا تھا۔

مسز عتیق الرحمن کی آواز میں ہی نہیں ہاتھوں میں بھی اضطراب سا تھا۔ یہ منظر کوئی نئے ہیں۔ بڑے مانوس ہیں ہماری گہری دوستی ہے ان سے۔ اس خادم اعلیٰ کی ادائیں بھی کیا نرالی ہیں۔ لوگوں کو مدد کے لیے آوازیں دے رہا ہے اور خود کیا دان کیا ہے؟ کہاں ہے وہ ایشیا کی سب سے بڑی مسجد بنانے والا۔

اب غیر ملکی سفرا کے ساتھ میٹنگز ہو رہی ہیں۔ چندہ دو۔ مدد کرو۔ بڑا نازک وقت ہے پاکستانی قوم پر۔ چیک وصول ہو رہے ہیں۔ کتنے لوگوں تک یہ امداد پہنچنے گی اور کتنے بدبختوں کی جیبیں گرم ہوں گی۔ اب اس پر کیا کچھ کہنا۔ یہاں تو ذرا بھی ابہام نہیں۔

ستمبر 2010 میں اس سے بھی زیادہ ہولناک سیلاب تھا۔ جب انجلینا جولی پاکستان آئی تھی لوگوں کی مدد کرنے۔ ہمارے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی اس خواہش کہ ان کی فیملی انجلینا سے ملنے ملتان سے ہیلی کاپٹر میں اسلام آباد آئی ہے مہربانی ہوگی کہ وہ وقت دیں۔ جولی حیران رہ گئی تھی۔ مزید حیرانی اسے فیملی کی طرف سے دیے گئے ڈنر پر ہوئی تھی۔ انواع و اقسام کھانوں کی بہتات دیکھ کہ جولی خود سے کہتی تھی انہیں ذرا شرم نہیں کہ ان کے لوگ پانی کی ایک بوتل اور روٹی کے حصول کے لیے ہمارے آدمیوں کے سامنے مرے جاتے ہیں اور یہاں میزیں سجی پڑی ہیں۔ (آپا سلمیٰ اعوان، اس وقت ایک مزید شرمناک بات یہ ہوئی کہ طلعت حسین نے اردو اخبار میں ایک کالم لکھ مارا جس میں انجلینا جولی کی ذاتی زندگی پر حملے کئے گئے تھے۔ و- مسعود)

یہ رپوٹ اس نے سخت ترین الفاظ میں اقوام متحدہ میں بھی پیش کی۔ ڈوب مرنے کا مقام تھا پاکستانی سیاستدانوں کے لیے۔ دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی تھی ان کی۔

ڈاکٹر طلحہٰ نعیم نے دکھ سے کہا تھا ابھی چین کے شہر چنگ ڈو میں بڑا زبردست قسم کا سیلاب آیا ہے۔ کہیں کوئی خبر نہیں۔ خود ہی انتظامات، رسد اور نقل مکانی کا فوری اور ہنگامی بندوبست۔ قوم ہے نا۔ ہماری طرح نہیں کہ ہائے لٹ گئے مر گئے ہم تو۔

ذرا انڈیا کے کاروباری لوگوں کو دیکھئیے جن کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان کو مدد کی ضرورت ہے اور ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ڈوب مرنے کا مقام ہے نا ہمارے لیے۔

محفل میں موجود نوجوان متحرک مسز صباحت منیر  نے بھئی اب جو بھی ہے اس پر مٹی ڈالو کہا اور موجودہ حالات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ بھئی اب ہمارے لیے کچھ کرنا بھی تو ضروری ہے جیسی بات کرنی بھی تو سوچ اور عمل کے دروازے کھولنے کا کہہ رہی تھی۔

چند ایک یک زبان ہو کر بولیں۔ یہ تو ہے۔ حکومت کے خزانے میں تو کچھ بھیجنے پر ہمارے دل مائل نہیں۔ ہاں ”الخدمت“ کے بارے بہت اچھی رپوٹ ہے۔ بے حد متحرک ہے۔ نیک نیتی اور تندہی سے خدمت میں سرگرم ہے۔ اسے بھیجو۔ دو لاکھ الخدمت کے لیے اور ڈیڑھ لاکھ بلوچستان کے لیے کوئٹہ ایر بیس پر بھیجنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

یہاں فوج کے بارے بھی کچھ اتنی پسندیدگی نہ تھی۔ مگر محفل میں کوئٹہ ائر بیس کی ذمہ دار پوسٹوں پر بیٹھے دو افسران کی بیویاں بھی موجود تھیں جن کے بارے میں سبھی آگاہ تھے۔

مسز مزمل کی بات میں وزن تھا کہ ان کے پاس ٹرانسپورٹ وسائل بہت ماڈرن ہیں۔ اور ویلفیئر ادارے بہت جانفشانی سے کام کرتے ہیں۔ جس سے فوری امداد کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔

گرلز کالج کی ایک پروفیسر کی کہانی بھی بڑی درد انگیز تھی کہ بھاشا ڈیم پر کالج کی لڑکیوں نے والہانہ انداز میں پیسہ نہ صرف اکٹھا کیا بلکہ خود جاکر ثاقب نثار فنڈ میں جمع بھی کروایا۔ آج اس پیسے کا کیا بنا اور جسٹس صاحب کے بلند بانگ دعووں کے ساتھ کیا ہوا؟ ابھی تک ایک معما ہے۔

حکمران مخلص نہیں۔ حکومتوں کے پاس وسائل اور طاقت ہوتی ہے وہ کام کروا سکتی ہے اگر نیک نیت ہے۔ ہمارے سامنے تربیلا ڈیم کی مثال ہے۔ شور تب بھی بہت تھا۔ ایوب خان کا زمانہ اور اس کا اپنے معتمد بندوں سے کہنا کہ پتہ لگاؤ کن کو زیادہ تکلیف ہے اور کون زیادہ شور مچا رہا ہے؟ قیمت لگاؤ منہ بند کرو اور کام کرو۔ ڈیم بننا ضروری ہے اور ڈیم بنا۔ کالا باغ ڈیم کے ساتھ بھی یہی کچھ تھا۔ شور شرابا، لمبے چوڑے اعتراضات۔ مگر حکمران مخلص نہ تھے۔ کالا باغ ڈیم بننا کیا مشکل تھا۔

کہاں وہ مہمند ڈیم، کہاں وہ بھاشا ڈیم۔
جتھے گئے ملاح اوتھے گیاں بیڑیاں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments